ایک وقت تھا جب دنیا میں چیچک(small pox)کی بیماری عام تھی مگر اب ویکسین کی بدولت اس کا تقریباً خاتمہ ہو چکا ہے۔ اسی طرح ویکسین کی بدولت دنیا بھر میںپولیو اورٹی بی وغیرہ انتہائی کم ہو چکی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا نہیں ہو سکا۔اس کا سبب ویکسی نیشن کو نظرانداز کرنا ہے۔سرکاری اعداوشمار کے مطابق سندھ میںگزشتہ سال 45000 بچوں کو پولیو کی ویکسین نہ لگوائی جا سکی۔اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ والدین کا پولیو ٹیموں کے ساتھ تعاون نہ ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات اور پنجاب کے کچھ علاقوں میں بھی اسی طرح کی صورت حال ہے جہاں والدین اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے سے انکار کر دیتے ہیں۔
پولیوٹیموں سے عدم تعاون کا بڑا سبب یہ پروپیگنڈا ہے کہ ان قطروں میں کوئی ایسی چیز شامل ہے جس کا تعلق فیملی پلاننگ سے ہے اوریہ ان لوگوں کی سازش ہے جو ہماری تعداد بڑھتی نہیں دیکھنا چاہتے۔ یہ سب جہالت کی باتیں ہیںجن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لئے اپنے گھر آنے والی پولیوٹیموں سے ضرور تعاون کریں۔
ویکسین کیوں لگوائی جائے
انسانوںمیں بیماریوں کے خلاف لڑنے کی صلاحیت قدرتی طور پر موجود ہوتی ہے‘تاہم پیدائش کے وقت بچوں میںیہ صلاحیت کم ہوتی ہے جس سے انہیں مختلف بیماریاں لگنے کے امکانات بڑوں کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔اس لیے انہیں ویکسین یا حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل کروانا بہت ضروری ہے تاکہ وہ ان امراض سے بچ سکیں۔ ویکسین زیادہ عام اور خطرناک وبائی امراض مثلاً پولیو‘ خناق‘ لاکڑا کاکڑا وغیرہ سے بچائو کے لیے تیار کی جاتی ہے۔
ویکسین کیسے کام کرتی ہے
آپ نے ایک محاورہ ’’لوہے کو لوہا کاٹتا ہے‘‘ ضرور سنا ہوگا۔ ویکسین کو بھی آپ اسی پر معمول کر سکتے ہیں۔ویکسی نیشن میں آپ جس بیماری سے تحفظ دینا چاہتے ہیں‘ اسی کے جراثیم کو انتہائی کمزور کر کے فرد کے جسم میں داخل کیا جاتا ہے ۔جب یہ جراثیم ہمارے جسم کے دفاعی نظام کے نوٹس میں آتے ہیں تو وہ انہیں طاقتور اور فعال جراثیم سمجھ کر ان کے خلاف تیزی سے ایسے خلئے بنانا شروع کر دیتا ہے جو ان کا بھرپور مقابلہ کر سکیں۔چونکہ جراثیم انتہائی کمزور یا مردہ ہوتے ہیں‘ اس لئے یہ خلئے استعمال میں نہیںآتے تاہم مستقبل میں ان (طاقتور) جراثیم کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ ویکسین صرف اسی وقت فائدہ مند ہے جب بیماری ابھی لاحق نہ ہوئی ہو۔ اگر وہ ہو جائے تو پھرویکسین کی بجائے علاج کیا جاتا ہے ۔
بوسٹر ویکسین ہوتی کیا ہے
ویکسین کی پہلی خوراک کو’’ پرائمری‘ ‘یعنی بنیادی خوارک جبکہ دوسری خوراک کوبوسٹرڈوز(booster dose)کا نام دیا جاتا ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ بچوں میں ویکسین کی پیدا کردہ مزاحمت کم ہو جاتی ہے‘ اس لئے بوسٹر ضروری ہوتا ہے تاکہ اس خاص بیماری کے خلاف مزاحمت کو بڑھایا جا سکے ۔
کب ویکسین نہ لگوائیں
اگرکسی خاص ویکسین سے الرجی ہو ہو تو وہ نہیں لگوانی چاہئے۔اس کے علاوہ اگر بچے میں کسی وجہ سے قوتِ مزاحمت کمزور ہو ‘اس کا جگر یاگردوں کا ٹرانسپلانٹ ہو ا ہو یا اسے سٹیرائیڈزاستعمال کروائے جا رہے ہوں تو کوئی بھی ویکسین لگوانے سے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کریں۔
ضمنی اثرات سے مت ڈریں
بعض والدین شکایت کرتے ہیں کہ ویکسین ان کے بچے کو راس نہیں آتی ۔حفاظتی ٹیکے اور ویکسین لگنے سے بچے کی جلد پر معمولی سرخی‘ سوجن یا بخار ہو سکتا ہے۔اس پر گھبرانے کی ضرورت نہیں‘ اس لئے کہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ویکسین اپنا کام کر رہی ہے۔بعض والدین محض اس وجہ سے ویکسین کے استعمال سے گریز کرتے ہیں حالانکہ بخار کی دوا لینے سے بچہ ٹھیک ہو جاتا ہے اور بعض اوقات بخار ہوتا ہی نہیں۔اور اگر وہ ہو بھی جائے تو اس تھوڑی سی تکلیف کے بدلے میں خطرناک بیماریوں سے بچ جانا گھاٹے کا سودا نہیں۔
بچوں کے حفاظتی ٹیکوں کا شیڈول
بچے کی دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اسے جان لیوا اور خطرناک بیماریوں سے بچانا والدین کے فرائض میں شامل ہے۔ لہٰذاوالدین کو چاہئے کہ ہسپتال سے فراہم کردہ ٹیکوں کا شیڈول ہمیشہ اپنے پاس رکھیں اور وقت پرانہیں ضرور لگوائیں ۔اگلی ویکسین کی تاریخ یاد رکھنے کے لیے اپنے فون پر ریمائنڈربھی لگایا جا سکتا ہے۔اگر کسی وجہ سے مقررہ تاریخ پر ٹیکہ لگوانا یاد نہ رہا ہوتو موقع ملتے ہیں فوراً قریبی سنٹر سے ٹیکہ لگوا لیں۔ پاکستان میں بچوں کے لیے 10بیماریوں کے خلاف حفاظتی ٹیکہ جات سرکاری طور پر مفت مہیا کیے جاتے ہیںان کے نام یہ ہیں:
٭ٹی بی
٭پولیو
٭ہیپاٹائٹس
٭نمونیا
٭خناق
٭کالی کھانسی
٭تشنج
٭خسرہ
٭گردن توڑ بخار
٭روٹا وائرس
ان کے علاوہ لاکڑا کاکڑا‘ ہیپاٹائٹس اے‘گردن توڑ بخار‘ انفلوئنزا اورٹائیفائیڈ بخار کی ویکسین بھی لگوا لینی چاہئے۔سرکاری طور پر لگائے جانے والے حفاظتی ٹیکوں کا شیڈول کچھ اس طرح سے ہے:
٭لاکڑا کاکڑا سے بچائو کے لیے دو ٹیکے لگوائے جاتے ہیں۔ان میں سے پہلا ایک سال جبکہ دوسرا چار سال کی عمر میں لگوایا جاتا ہے۔
٭انفلوئنزا ویکسین کی دو خوراکیں ہوتی ہیں۔یہ چھ سے آٹھ مہینے کے بچے کو لگائی جاتی ہے اور نو(9) سال سے بڑے بچے کو ہر سال ایک دفعہ لگائی جاتی ہے۔اسے لگوانے کا درست وقت اپریل سے ستمبر کے درمیان ہے۔
٭ہیپاٹائٹس اے ویکسین کی دو خوراکیں ہیں۔پہلا ٹیکہ ایک سال کی عمر میں جبکہ دوسرا ڈیڑھ سال کی عمر میں لگایا جاتا ہے۔
٭گردن توڑ بخارکی مختلف قسمیں ہیںاور ہر ایک کا شیڈول مختلف ہے۔پاکستان میں زیادہ تر دو سال کی عمر کے بعداس کا ایک حفاظتی ٹیکہ لگایا جاتا ہے۔
٭کن پیڑے(MMR) کی ویکسین وہی ہے جو خسرے کے لئے لگائی جاتی ہے اور اسے 15مہینے کی عمر میں لگایا جاتا ہے۔
٭ ٹائیفائیڈ بخارکی ویکسین دو سال کی عمر میں لگائی جاتی ہے۔
٭ پانچ سال کی عمر میںکچھ بیماریوں مثلاً ایم ایم آر ‘خناق اور تشنج کے لیے بوسٹر ویکسین لگائی جاتی ہے۔
٭جو لوگ پالتو جانوروںکے ساتھ زیادہ رہتے ہیں ‘انہیں ریبیز (Rabies)کی ویکسین ضرور لگوانی چاہئے۔یہ بالعموم کسی جانورمثلاً کتے‘بلی اور چوہے وغیرہ کے کاٹے پر لگائی جاتی ہے۔
اگر ہم صحت مند پاکستان چاہتے ہیں تو ہمیں پرہیز پر اپنی توجہ مرتکز کرنا ہوگی اور ویکسین اس کا اہم جزو ہے ۔حکومت اور متعلقہ اداروں کو چاہئے کہ سکول کے اساتذہ اور علمائے کرام کی مدد سے لوگوں میں ویکسین کی اہمیت اجاگر کریں۔بہت سے والدین ایک دفعہ ویکسین تو لگوا لیتے ہیں لیکن اس کی بوسٹر خوراک کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ خطرناک بیماریوں مثلاً پولیو‘ خناق اور خسرہ کی بوسٹر ویکسین ضرور لگوائیں تاکہ بچوں کا ان بیماریوں کے خلاف تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔
