گزشتہ چند برسوں کے دوران دنیا بھر میں کچھ نام نہاد”لِیکس“ کے بارے میں بہت کچھ سنا گیا۔اس کا آغاز2006ءمیں آئس لینڈ میں جولین ایسانج (Julian Assange) کے قائم کردہ غیر نفع بخش ادارے ”وکی لیِکس “ سے ہوا۔ اس کی خبروں نے میڈیا اور بین الاقوامی سطح پر غیرمعمولی ارتعاش پیدا کیا۔
حالیہ ”لیکس “ میں پانامہ کے علاوہ ایک ڈان لیِک بھی شامل ہے جسے یہ نام روزنامہ ”ڈان “میں شائع شدہ ایک خبر کے بعدملا۔یہ دونوں معاملات اب بالترتیب سپریم کورٹ اور ایک خصوصی کمیٹی میں زیر سماعت ہیں۔ان تمام لِیکس میں کچھ سچائی ہے یا نہیں اور کیا ہم کبھی سچائی جان پائیں گے یانہیں‘ یہ سب کچھ ابھی واضح نہیں اور یہ بھی معلوم نہیں کہ انہیں واضح ہونے میں کتنا وقت لگے گا۔اس کے باوجود ہم اس کے بارے میں بہت تشویش میں مبتلا اوراس کا نتیجہ جاننے کے لئے بے تاب ہیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس دوران کچھ اور لیکس ہماری توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہیں حالانکہ ان کا ہماری بہبود اور صحت کے ساتھ براہ راست تعلق ہے۔ اور وہ قابل اعتماد بھی ہیں۔ غالباً انہیںلیکس نہ کہا جاسکے‘ اگر اس لفظ سے مراد وہ خبر ہوتی ہے جو ابھی تصدیق کی چھلنی سے نہ گزری ہو تو۔
پہلے ناخوشگوارلیکس کی بات کرتے ہیں ۔پہلی خبر یہ ہے کہ ذیابیطس کے نتیجے میں ہونے والی80فی صد اموات اب کم اور درمیانی آمدن والے ممالک میں ہو رہی ہیں۔ہم بھی انہی ممالک میں سے ایک ہیں۔اسی طرح کچھ اور لیکس بھی چونکانے والی ہیں۔مثلاًصرف ایک سال یعنی 2005ءمیں ذیابیطس کے ہاتھوں 1.1ملین افراد جاں بحق ہوئے ۔یہ بات نوٹ کی جانی چاہئے کہ ان اعداوشمار سے ذیابیطس کے تمام تر اثرات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتاجن کا حجم اس سے کہیں زیادہ ہو گا ۔مثال کے طور پر بہت سے لوگ سال ہا سال اس مرض کے ساتھ زندگی گزاردیتے ہیں لیکن جب وہ فوت ہوتے ہیں تو ان کی موت کا سبب امراض قلب یا گردوں کی ناکارگی وغیرہ کو قرار دیا جاتا ہے ‘ اس لئے کہ وہی ان کا فوری سبب بنے ۔
ایک اور ناخوشگوار لیک ہمارے مستقبل یعنی بچوں سے متعلق ہے ۔بعض رپورٹوںکے مطابق ذیابیطس کی ٹائپ2 جو بچوں میں شاذو نادر ہی ہوا کرتی تھی‘ اب دنیا بھرکے بچوں میں تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔کچھ ممالک میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جن بچوں اور نوجوانوں میںذیابیطس تشخیص ہوتی ہے‘ ان کی نصف تعداد کا تعلق مرض کی اسی ٹائپ سے ہے ۔یہ لیکس عالمی ادارہ صحت کی طرف سے ہیں ۔
کچھ اور لیکس بھی ہیں جو اتنی ہی خوفناک ہیں۔مثلاًیہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ اگلے 10سالوں میں ذیابیطس کی وجہ سے ہونے والی اموات کی شرح 50فی صد تک پہنچ جائے گی۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے 80فی صدکا تعلق ان ممالک سے ہوگا جو آمدن کے حوالے سے ”اَپرمڈل کلاس“ میں شمار ہوتے ہیں۔ آخری جملہ کس بات کی طرف اشارہ کررہا ہے؟ یہی کہ اس بات کا تعلق طرزِزندگی سے ہے۔ بہتر ہو گا کہ اس خبر کو ”لائف سٹائل لیکس“کا نام دیا جائے۔
اور اچھی ” لِیک “ یہ ہے کہ اس مہلک بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔ ہفتے میں زیادہ تر دن 30منٹ کی درمیانی مشقت کی جسمانی سرگرمی اور صحت بخش غذا ٹائپ ٹو ذیابیطس کے خطرے کو حیران کن حد تک کم کر سکتی ہے۔ عالمی ادارئہ صحت نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ذیابیطس ایک ابھرتی ہوئی عالمی وباءہے جس کا کھُرا موٹاپے‘ فربہ پن اور جسمانی عدم تحرک کی طرف جاتا ہے۔
چوائس ہماری اپنی ہے‘ اور بہت واضح ہے۔ کیا ہم اپنا وقت سست الوجود لوگوں کی طرح ٹی وی کے سامنے بیٹھے اور ان لِیکس کے بارے میں سوچتے گزار دیں گے جن کے بارے میں ہم کچھ نہیں کر سکتے یا اُن لیکس کی طرف دھیان دیں گے جن کا تعلق ہماری بہبود ‘ ہمارے مستقبل اور ہماری فیملی سے ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ہم یہاں وقت ضائع کرنے کی بجائے باہر نکلیں تاکہ ذیابیطس کو اندر آنے کا موقع نہ مل سکے۔
