تاریخی اور سیاحتی مقام ٹِلہ جوگیاں

اسد امان
’’رانجھا جوگی‘‘ یا ’’جوگی رانجھا‘‘ کی اصطلاح بیشتر حضرات نے سن رکھی ہو گی‘ خواہ وہ رانجھے والی خاص کیفیت کاشکار نہ بھی ہوئے ہوں۔ تاہم یہ بات کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ رانجھا جہاں جوگی ہوا‘ وہ مقام جھنگ نہیں بلکہ راولپنڈی /اسلام آباد کے جڑواں شہرسے محض 150 کلومیٹر کی مسافت پر روہتاس قلعے کے پہلو میں واقع ٹِلہ جوگیاںہے۔
ٹِلہ جوگیاں پنجابی زبان کے دو الفاظ ’’ٹِلہ‘‘ اور ’’جوگیاں‘‘ کا مجموعہ ہے ۔ ٹِلہ کا مطلب ’’اونچی جگہ‘‘ جبکہ جوگیاں سے مراد ’’جوگیوں کی بستی ‘‘ہے۔ تقسیم ہند سے قبل یہاںجوگی یا یوگیوں کی سب سے بڑی درسگاہ جس کی بنیاد تقریباً دو ہزار سال قبل رکھی گئی ‘کے ساتھ ایک عبادت گاہ بھی تھی ۔ سکھ مت کے بانی گرونانک جی کا 40 روزہ چلہ اور مغل بادشاہ جہانگیر کا اس درسگاہ میں حاضری دینا اس کی تاریخی اہمیت کو اور بڑھاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ جہانگیر نے نہ صرف اس درسگاہ کو وسعت دی بلکہ پانی ذخیرہ کرنے کے لئے یہاں ایک بہت ہی خوبصورت تالاب بھی تعمیر کروایا۔

ٹلہ جوگیاں سیاحتی‘ تاریخی اور معلوماتی اعتبار سے کافی اہمیت کی حامل جگہ ہے۔ مذہب کی انسانی زندگی میں اہمیت دیکھنی ہو تو ٹلہ جوگیاں کو لیجئے ۔آج سے ہزاروں سال پہلے 3200 فٹ کی بلندی پر عبادت گاہ بنانے کا خیال نہ جانے کس پنڈت کو آیا اور نہ جانے تمام تعمیراتی سامان کیسے مشکل راستوں سے لے کر اوپر پہنچایا گیا۔
ٹلہ جوگیاں پہنچنے کے تین راستے ہیں۔ پہلا راستہ روہتاس قلعے کے سہیل گیٹ سے نکل کر الٹے ہاتھ چار فٹ کا ایک راستہ جنگل میں جاتا ہے جو کافی دشوار گزار اور خطرات سے بھرپور ہے۔ میرے پاس چونکہ ایک طاقتور بائیک تھا لہٰذا میں نے اس راستے کا انتخاب کیا اور تھوڑے سفر کے بعد اپنے انتخاب پر پچھتاوا بھی ہوا۔
دوسرا راستہ روہتاس قلعے سے 27 کلومیٹر دور بھٹ یا بھیٹ گائوں سے شروع ہوتا ہے جو دو سے اڑھائی گھنٹے کی ہائیک کے بعد آپ کو اس تاریخی مقام تک لے جاتا ہے۔ تیسرا راستہ بذریعہ ہیلی کاپٹر ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف نے اس جگہ کا بذریعہ ہیلی کاپٹر دورہ کیاتھا۔یہ معلوم نہیںکہ اس وقت ہیلی کاپٹر پر سفر کافی کلومیٹر خرچ کتنا تھا۔ آپ بھی اس راستے کو اپنا سکتے ہیں‘ بشرطیکہ آپ کو سستے سرکاری ہیلی کاپٹرکی سہولت دستیاب ہو ۔
ٹلہ جوگیاں ویسے تو سارا سال ہی قابل رسائی ہوتا ہے لیکن یہاں آنے کاسب سے مناسب وقت اکتوبر سے مارچ تک کاہوتا ہے۔ معتدل موسم میں یہاں کی سیر ذہنی اور جسمانی طور پر کافی سود مند ثابت ہو سکتی ہے۔ میں نے یہاں آنے کے لئے مئی کے مہینے کا انتخاب کیا جب غضبنا ک سورج گرمی کا قہر برسانے کی تیاریوں میں تھا۔ راستے کا انتخاب بھی کوئی زیادہ موزوں نہیں تھا لہٰذا ایک خاص مقام تک بائیک پر اور باقی ماندہ سفر پیدل طے کرنا پڑا۔اس کی وجہ سے جسم میں پانی کی شدید کمی ہو گئی لہٰذا ایک گھنٹے تک درخت تلے آرام کرنا پڑا۔ چوٹی پر انگریز دور کا بنایا گیا ایک اچھا ریسٹ ہائوس بھی ہے۔ وہاں پہنچ کر پانی دستیاب ہوا جسے پی کر جان میں جان آئی۔

اگر اس ٹلہ پر رات گزارنے کا پروگرام بنے تو جہلم کے ’’ڈی سی آفس‘‘ سے بکنگ کروائی جا سکتی ہے ۔کھانے پینے کا سامان بھی نیچے سے ساتھ لے جانا پڑتا ہے کیونکہ اوپر چوٹی پر کچھ بھی دستیاب نہیں ہے۔ریسٹ ہائوس کے ساتھ یہ جگہ کیمپنگ کے لئے بھی نہایت موزوں ہے۔اس مقام پر گندگی کو ٹھکانے لگانے کی کوئی جگہ نہیں لہٰذا بحیثیت ذمہ دار شہری آپ لوگ خالی بوتلیں اورشاپر وغیرہ اپنے ساتھ نیچے لے آئیں اور کسی کوڑے دان میں ڈال دیں۔
یہ مقام طالب علموں‘ فیمیلیز‘ ٹورگروپس اور دوستوں کے لئے ایک روزہ سیاحتی ‘ معلوماتی اور تاریخی اعتبار سے کافی سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔یہ ایک خاموش اور پرسکون مقام ہے جو قدرتی خوبصورتی اور تاریخی اہمیت کا حسین امتزاج ہے۔ یوگا اور عبادت کا ذوق رکھنے والوں کے لئے یہ جگہ کافی دیدہ زیب ہے۔ چونکہ ان دنوں کاموں میں کافی کمزور تھا لہٰذا میں نے یہاںایک تیسرا کام بکثرت کیا اور وہ تھا فوٹوگرافی ۔چوٹی پر تمام موبائل نیٹ ورکس کے سگنل بھی اچھے آتے ہیں لہٰذا خدانخواستہ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں آپ کا رابطہ دنیا سے قائم رہتا ہے۔
اگر آپ بھی سردیوں کی آمد سے قبل ٹلہ جانے کا پروگرام رکھتے ہیں تو خیال رہے کہ آرام دہ کپڑے‘ مضبوط جوتے اور کھانے پینے کا سامان آپ کے سفر کو آسان بنا دے گا۔ کم عمر بچوں کو اس جگہ لے جانا شاید موزوں نہ ہو کیونکہ طویل مسافت کی وجہ سے وہ جلدی تھک سکتے ہیں۔
ٹلہ جوگیاں بلاشبہ ایک یادگار مقام ہے جہاں سے قابل دید وادی جہلم کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ تاریخی ورثہ سے لگائو رکھنے والے افراد کے لئے یہ جگہ کسی عبادت گاہ سے کم نہیں۔

Vinkmag ad

Read Previous

کیٹو ڈائٹ کتنی مفید، کتنی نقصان دہ

Read Next

ایڈز کیا ہے

Leave a Reply

Most Popular