لیور ٹرانسپلانٹ’ دیر نہ کریں

لیور ٹرانسپلانٹ’ دیر نہ کریں

جگرکو لاحق ہو جانے والی کچھ بیماریاں ایسی ہیں جن میں ایک خاص سطح کے بعد صحت یابی انتہائی مشکل ہو جاتی ہے۔ ایسے میں اس کاواحد حل جگر کی پیوندکاری ہی رہ جاتاہے۔ چونکہ پاکستان میں یہ مسئلہ تیزی سے بڑھ رہا ہے لہٰذا اس کے مریضوں کی راہنمائی اوران کا حوصلہ بڑھانے کے لئے شفانیوز نے مرض کا شکار ہونے والے اورلیورٹرانسپلانٹ کے مرحلے سے کامیابی سے گزرنے والے مریضوں کی کہانیوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس ماہ کی کہانی 45سالہ شاہد محمود کی ہے جسے اقصیٰ نعیم نے قلم بند کیا ہے۔

مشکلات اور پریشانیاں زندگی کا حصہ ہیں اوردنیا میں کوئی بھی فرد ایسا نہیں جو اِن سے نہ گزرتا ہو۔ تاہم اس پر لوگوں کے ردعمل میں فرق ضرورہوتا ہے ۔ کچھ لوگ ان مسائل میں الجھ کررہ جاتے ہیں، ہر وقت پریشان رہتے ہیں اوراپنی قسمت یاحالات کو کوستے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگ انہیں ایک حقیقت سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں، پرسکون اندازمیں ان کا سامنا کرتے ہوئے حل کی طرف قدم بڑھاتے رہتے ہیں۔ دونوں طرح کی مثالیں ہمارے اردگرد موجود ہوتی ہیں اور ہمیں چاہئے کہ ہمیشہ اچھی مثالوں کی تقلید کریں۔

زندگی کی بڑی آزمائشوں میں سے ایک خدانخواستہ کسی بڑی بیماری میں مبتلا ہو جانا ہے۔ گوجرانوالہ کے رہائشی شاہد محمود اس سے اس وقت گزرے جب انہیں جگر کا عارضہ لاحق ہو گیا۔اس کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا

یہ 2008ء کی بات ہےکہ میری والدہ کو خون کی ضرورت پڑی۔ میں نے انہیں خون کا عطیہ دینے کا فیصلہ کیا۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ کہیں مجھے کوئی بیماری تو نہیں؟ میں نے اس کا جواب نفی میں دیا، اس لئے کہ میرے علم کے مطابق مجھے کوئی خاص بیماری نہیں تھی۔ تاہم جب میرے خون کا لیبارٹری ٹیسٹ ہوا تو پتہ چلا کہ مجھے کالایرقان ہے اورمیرا خون کسی کے لئےبھی موزوں نہیں۔ یہ پہلا موقع تھا جب مجھے اس مرض کے بارے میں علم ہوا۔

انہوں نےبتایا کہ ابتدامیں چونکہ زیادہ معلومات نہیں تھیں لہٰذعلاج کا آغاز دیسی ٹوٹکوں سے ہوااورپھراس کے لئے ہرمستند غیرمستند جگہ پر جانا شروع کیا۔ بہت سے ڈاکٹروں اورحکیموں سےعلاج کروایامگرحالت روزبروزخراب ہوتی چلی گئی ۔ پھرایک وقت وہ بھی آیا جب لاہور میں ایک نجی ہسپتال میں امراض جگر کے ڈاکٹر سےملاقات ہوئی توانہوں نے بتایا کہ معاملہ اتنا بگڑ چکا ہے کہ اب جگر کی پیوندکاری کے علاوہ کوئی حل نہیں۔ اب اس میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔

ڈاکٹر صاحب نے وہیں سےعلاج کا مشورہ بھی دیا مگر نہ جانےکیوں میں مطمئن نہ تھا۔ میں نےاپنے لیبارٹری ٹیسٹوں کی رپورٹیں بیرون ملک بھیجیں۔ وہاں سے بھی یہی جواب ملا کہ ٹرانسپلانٹ کرانا چاہئے لیکن ایک عجیب سی بے چینی نے مجھے گھیررکھاتھا۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کہاں سےعلاج کرواؤں۔

صاحب استطاعت لوگ بیرون ملک علاج کرانے کو ترجیح دیتے ہیں۔اس میں اگرچہ کوئی مضائقہ نہیں مگر یہ آپشن ہر شخص کے لئے اتنا آسان نہیں۔ اس میں بہت سی چیزوں کو مدنظررکھنا پڑتا ہے جن میں دوسرے ملک میں کسی اچھے ڈاکٹرکی تلاش ،وہاں کی ویزا پالیسی، رہائش اورکھانے پینے کے انتظام کے علاوہ دیگراخراجات بھی شامل ہیں۔ مزید برآں وہاں مریض اکیلا نہیں جاتا بلکہ کچھ اورعزیزوں کو بھی ساتھ جانا پڑتا ہے۔ یوں اخراجات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ ان تمام مسائل کی وجہ سے شاہدمحمود ملک میں ہی علاج کرانا چاہتےتھے۔ دوست احباب سے مشورےکےبعدوہ بالآخر شفاانٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد پہنچ گئے۔ انہیں اس کا علم کیسے ہوا ،اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ

میرے ایک دوست نےشفا انٹرنیشنل میں علاج کرایا تھااوروہ اب بالکل صحت مند ہیں۔ انہوں نے مجھے یہاں ٹرانسپلانٹ کی جدید سہولیات، ان کے اعلیٰ معیاراورکامیاب ٹرانسپلانٹ کی زیادہ شرح کے بارے میں بتایا۔ میں نے سوچا کہ اگر وہ ٹھیک ہیں تو میں بھی صحت یاب ہوسکتا ہوں۔ اس کے بعدمیں یہاں آگیا۔

مریض نے شفا نیوزکو بتایا کہ وہ اپنے ٹرانسپلانٹ کے حوالے سے پہلے بھی کئی ڈاکٹروں سے ملاقات کر چکے تھے لیکن تسلی نہیں ہورہی تھی۔ مگرجب یہاں کے ڈاکٹروں سے بات کی تو سارے خدشات دور ہوگئے

پہلی ملاقات ڈاکٹرحسیب ضیاء سے ہوئی اورانہوں نے ہمیں تمام ضروری تفصیلات سےآگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے ٹیسٹ ہوں گےاورمعلوم کیا جائے گا کہ آپ کے جگرکاکتنے فی صد حصہ کام کررہا ہے۔ پھراس کی روشنی میں باقی ٹیسٹ ہوں گے۔ تفصیل سے وضاحت اوران کے محبت بھرے انداز سے ہمیں تسلی تو ہو گئی لیکن پریشانی اس وقت بڑھی جب معلوم ہوا کہ اس پر اخراجات بہت زیادہ ہوں گے تومیرے سامنے اپنے دوست کا چہرہ گھوم گیا جس نے اپنا گھر بیچ کرعلاج کرایا تھا۔ایک دفعہ تو میں بہت زیادہ پریشان ہو گیا مگر پھرسوچا کہ یہ سارے کام اللہ کے ہیں، وہ کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال دے گا۔ بس پھرایسا ہی ہوا۔ سچ پو چھیں تو ہمیں پتہ بھی نہیں چلاکہ اللہ نے کہاں سےبندوبست کر دیا اورکام ہوگیا۔

بات کو مزید بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ

جب جگر عطیہ کرنے کا مرحلہ آیا تواکثررشتہ دارکترانے لگے۔ انہیں خوف تھا کہ اس سے کہیں انہیں ہی نہ کچھ ہوجائے۔ میرے بڑے بیٹے نے کہا کہ وہ اپنا جگر مجھے عطیہ کرے گا۔ اس نے ٹیسٹ کروائے مگر کسی مسئلے کی بنا پر وہ ایسا نہیں کر سکتاتھا ۔ پھر میرے چھوٹے بیٹے نعمان شاہدکے ٹیسٹ ہوئےاورمعلوم ہوا کہ وہ اپنا جگر دے سکتا ہے۔ اس کی عمر18 سال ہے۔ یوں تو وہ تندرست ہے مگر اس کا وزن تھوڑا زیادہ تھا جواس نےڈاکٹر کے کہنے پر کم کر لیا۔

ٹرانسپلانٹ کامیاب رہا اوردونوں باپ بیٹا صحت مند زندگی گزار رہے ہیں۔ نعمان کا کہنا ہے کہ جگر عطیہ کرنے والے کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا لہٰذا اس نیک کام میں ہچکچانا نہیں چاہئے ۔شاہد محمودسے پوچھا گیا کہ ان حالات میں ان کے گھر والوں نے ان کا کتنا ساتھ دیا۔ اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ان کےبیٹے اوربیٹیاں دست و بازو بن کر ان کے ساتھ کھڑے ہوئے اوران کا خیال رکھا۔ شفا انٹرنیشنل ہسپتال میں جگر کی پیوندکاری کے بعد ہسپتال میں قیام اورسہولیات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ

میں تقریباً پانچ دن انتہائی نگہداشت یونٹ میں رہا جس کے بعد مجھے وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔ میں یہاں کی سہولیات اور سروسز کی جتنی تعریف کروں، کم ہے۔ عملےنے تو مجھے محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ گھر میں ہوں یا ہسپتال میں۔ یہاں کا نظام اتنا اچھا ہے کہ میرے بچوں کو ایک گولی لانے میں بھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ آدھی رات کو بھی گھنٹی بجاتا تو فوری طور پر عملہ پہنچ جاتا۔ تمام ڈاکٹربھی بہت قابل اوراچھے تھے۔ میں تو کہتا ہوں کہ اللہ نے انہیں دنیا میں فرشتے بنا کر بھیجا ہے۔ انہوں نے میرابہت خیال رکھا۔ میری دعا ہے کہ اللہ ڈاکٹروں اورعملے کا بھلا کرے اور یہ ہسپتال سدا قائم و دائم رہے۔

جگر کے مریضوں کو پیغام دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر کینسر کی تشخیص ہوجائے توعلاج میں دیر نہ کریں ۔ کل کی بجائے آج ہی ہسپتال آئیں اور ڈاکٹر سے ملاقات کریں۔ جو لوگ جگرعطیہ کرنے سے ڈرتے ہیں، ان سے گزارش کروں گا کہ اس سے آپ کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑ ے گا۔

اتارچڑھائو زندگی کا حصہ ہی نہیں، اس کی خوبصورتی بھی ہیں۔ اس میں خوشی اورغم، بیماری اور شفا، کامیابی اورناکامی ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ہرمشکل کے بعد آسانی ہے۔ لہٰذا حالات جیسے بھی ہوں ہمیں کبھی ہمت نہیں ہارنی چاہئے۔

liver transplant, successful story, Shahid Mehmood, liver patient

Vinkmag ad

Read Previous

رحمِ مادر میں بچے کوخون کی فراہمی

Read Next

مصنوعی دانت،خیال کیسے رکھیں

Leave a Reply

Most Popular