مسائل سے کیسے نپٹیں

شادی کے بعد میاں بیوی پر مشتمل فیملی کی شکل میں معاشرے کا سب سے چھوٹا یونٹ وجود میں آ جاتاہے۔ اس نوبیاہتا جوڑے کو رہنے کے لئے انفرادی خاندان (nuclear family)‘ مشترکہ خاندان (joint family)یا پھیلے ہوئے خاندان (extended family) میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ انفرادی خاندان میں میاں بیوی اور بچے الگ گھر میں رہتے ہیں جبکہ مشترکہ خاندان میں ساس سُسر اور میاں بیوی سب ایک ساتھ مل کررہتے ہیں۔ پھیلے ہوئے خاندان میں میاں کے بھائیوں / بہنوں/کزنزکے خاندان بھی ساتھ رہتے ہیں۔ ان میں سے ہر سسٹم کے اپنے فوائد اور نقصانات ہیں جو میاں بیوی کے باہم تعلقات پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔

دیکھا گیا ہے کہ دلہنیں بالعموم انفرادی خاندانی نظام کو ترجیح دیتی ہیں‘ اس لئے کہ اس میں انہیں کسی کی روک ٹوک کے بغیر آزادی اور پرائیویسی کے ساتھ اپنی زندگی گزارنے کا موقع ملتا ہے۔ دوسری طرف اس سسٹم کے اپنے مسائل بھی ہیں۔مثال کے طور پر بیوی کے حمل یا زچگی کی صورت میں بڑوں کے مشوروں اور راہنمائی‘کام کاج میں معاونت اور ڈاکٹر کے پاس جانے وغیرہ کے لئے کسی کے ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لئے بہت سی صورتوں میں میاں اپنی ملازمت یا کاروبار ی مجبوریوں کی وجہ سے دستیاب نہیں ہوتا ۔جب خاندان کے لوگ مل کر رہتے ہیں توان کا مجموعی خرچ کم ہوتا ہے جبکہ الگ رہنے سے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر کوئی مشکل آن پڑے تو سپورٹ سسٹم کمزور ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ خاندان ذہنی تنائو کا شکار ہوجاتے ہیں۔وقت کے ساتھ ضروریات اور مسائل بڑھتے ہیں اور حالات گھمبیر ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف میاں کے خاندان کے ساتھ بیوی کا مضبوط تعلق قائم نہیں ہوپاتاجس کے مستقبل میں منفی نتائج نکلتے ہیں۔ یہ تمام معاملات میاں بیوی کے تعلقات پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔

مشترکہ یا پھیلے ہوئے خاندانوں کے بہت سے فوائد کے ساتھ ساتھ نقصانات بھی ہیں۔ مثلاًہم دیکھتے ہیں کہ نوبیاہتا جوڑے کے والدین کو جو خیالات اپنے ماں باپ کی طرف سے ملے ہوتے ہیں‘ وہ انہی کو اس جوڑے پر بھی زبردستی لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جوائنٹ فیملی میں بیوی کو پرٹوکول کو سامنے رکھنا پڑتا ہے۔ وہاں بڑوں کی اجازت کے بغیر کچھ نیا نہیں کیا جا سکتا۔ اُٹھنے بیٹھنے‘ ٹی وی دیکھنے حتیٰ کہ کھا نے پینے میں بھی اپنی مرضی نہیں کی جا سکتی۔ بولنے اور اختلافِ رائے کی اِجازت نہ ملنے کی وجہ سے بیوی میں ذہنی دبائو بڑھ جاتا ہے۔اسی وجہ سے ہمیںآج کل نئے شادی شدہ جوڑوں میں نشے کی لت بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔

دوسری طرف شوہر بھی بیوی اورماں کے درمیان پس رہا ہوتا ہے۔ ایک طرف والدین اور اہل خانہ کی ذمہ داریاںہوتی ہیں تو دوسری طرف بیگم کی خواہشات کہ جنہیں پورا کرنے کے لیے اسے والدین کی رضامندی حاصل کرنا پڑتی ہے۔ اگر وہ والدین کی سنے تو بیوی گلہ شکوہ کرنے ‘رونے یا میکے چلے جانے کی دھمکیاں دینے لگتی ہے اور بیوی کی طرفداری کرے تواسے زن مریدی کے طعنے ملتے ہیں۔ یوں گھروں میں لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں اور جن دو افراد نے زندگی ایک ساتھ بسر کرنا ہوتی ہے وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو کر رشتے خراب کر بیٹھتے ہیں۔ یہ مسائل دیہی علاقوں میں زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں‘ البتہ شہروں میں بھی یہ اب کچھ کم نہیں ۔

ان تما م مسئلوں کے حل میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ اختلافِ رائے کو تسلیم کیا جائے اور بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل نکالا جائے ۔بات چیت تبھی ممکن ہے جب ایک دوسرے کو سنا اور سمجھا جائے۔ ایک اور ٹِپ یہ ہے کہ جب جذبات بھڑک رہے ہوں تواس وقت اہم موضوعات کو زیرِبحث لانے سے گریز کیا جائے‘ اس لئے ایسے وقت میں ہمارا جسم ایک ہارمون خارج کرتا ہے جسے ایڈرینالین (Adrenaline) کہتے ہیں۔یہ ہارمون جذبات کے اتار چڑھائو سے متعلق ہے جس کے زیادہ خارج ہونے کی وجہ سے جذبات بھڑکتے ہیں اور ہم غلطیاں کر بیٹھتے ہیں۔

نئے جوڑے کے لیے خاندان والوں کی طرف سے اور آپس میں بھی احتساب کے نئے ضابطے قائم ہوجاتے ہیں اوربات بات پر ایک دوسرے کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا جا تا ہے جس سے نئے مسائل جنم لیتے ہیں ۔ ایسے میں معاملے کو عقلمندی اور سمجھداری کے ساتھ سنبھالیں تاکہ وہ مزید بگڑنے سے بچ جائے۔
جب میاں بیوی‘دونوں کو لگے کے اُن کے حقوق کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا جا رہا، یعنی لڑکے کے ماں باپ جو امیدیں بیٹے اور بہو سے رکھ رہے تھے وہ پوری نہیں ہو رہیں اور دوسری طرف میاں بیوی کی بھی ماں باپ سے وابستہ امیدیں ٹوٹ رہی ہوں تو پھر بات چیت بہت مشکل ہوجاتی ہے۔ ایسے میں خاندان کے افراد کے درمیان بات چیت کو بہتر کرنے کے لئے ماہر نفسیات سے کونسلنگ کروائی جا سکتی ہے۔

خاندان مشترکہ ہو یا انفرادی، جب تک ایک گھر میں رہنے والے افراد ایک دوسرے کی مجبوریوں اور ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے غیرحقیقی توقعات سے اجتناب نہیں کریں گے ‘تب تک رشتوں میں سکون آنا ممکن نہیں۔ فیملی میںنئے آنے والے شخص کے ساتھ اس کی کچھ خواہشات بھی آتی ہیں جن کا احترام کیا جانا ضروری ہے۔لڑکے کے والدین کو چاہئے کہ دوسروں کی زندگیوں کے فیصلے اپنے ہاتھ میں نہ لیں خواہ اس کے پیچھے ان کی اچھی نیت اور محبت ہی کیوں نہ شامل ہو۔ دوسری طرف بیوی کو بھی چاہئے کہ وہ نئے گھر کو اپنا گھر سمجھے اور بات کا بتنگڑ بنانے سے گریز کرے۔اگر مسائل کا حل سمجھ میں نہ آ رہا ہو تو پروفیشنلز سے کونسلنگ سے ہچکچانا نہیں چاہئے ۔
وکیل مراد:میرج کونسلر۔ وِلنگ ویزمیرج کونسلنگ سنٹر‘کراچی

Vinkmag ad

Read Previous

اپنے تصورات درست کیجئے

Read Next

کیلوریز کاؤنٹ

Leave a Reply

Most Popular