Vinkmag ad

سگریٹ کا دھواں! بچنے والوں کوتو بچائیے

    لوگ جب سگریٹ پیتے ہیں تو اس کا زہریلا دھواں ان کے پھیپھڑوں میں جا کرکینسر‘ امراض قلب اور فالج سمیت متعدد بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ اسی لئے سگریٹ کی ہر ڈبیا پروزارت صحت کی طرف سے ”سگریٹ نوشی صحت کیلئے مضر ہے“ کا پیغام لکھاہوتاہے تاکہ اسے پینے والے کو اس کے مضر اثرات سے آگاہ کیاجاسکے۔ اس کے باوجود اگر کوئی شخص اپنی آزاد مرضی سے اپنی بربادی کا سامان کرنا چاہے تو اسے روکنا بہت مشکل ہے‘ تاہم اسے اس بات کی اجازت ہرگزنہیں دی جاسکتی کہ وہ یہ زہر ان عورتوں‘ بچوں ‘دوستوں‘رفقائے کار‘ اہل خانہ اورمسافروں کے پھیپھڑوں میں بھی منتقل کرے جواس سے بچنا چاہتے ہیں۔
دوسروں کی تمباکو نوشی کے نتےجے میں پیدا شدہ دھوئیں کو نگلنے کیلئے ”استعمال شدہ تمباکو نوشی“ (second hand smoking) ، ”غیرارادی تمباکو نوشی“ (involuntary smoking) یا ”معکوس تمباکو نوشی“ (passive smoking) کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق ”سیکنڈ ہینڈ سموک “ اس دھوئیں کو کہا جاتا ہے جوتمباکو کی مصنوعات مثلاً سگریٹ‘ بیڑی یا سگار جلانے پر پیدا ہوتا ہے اور ریستورانوں‘ دفتروں اور دوسری بند جگہوں کو بھر دیتا ہے ۔ جب لوگ اس فضاءمیں سانس لیتے ہیں تو وہ ان کے پھیپھڑوں میں داخل ہو کر انہیں نقصان پہنچاتا ہے ۔
جب ”گھر“ کا لفظ بولا جاتا ہے تو ہمارے ذہن میںایک ایسے مکان کا تصور آتا ہے جس میں ہمارے اپنے رہتے ہیں‘ جو ہمارا خیال رکھتے ہیں اور ہمیں ہر طرح کا تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ”سیکنڈ ہینڈ سموک“ کے تناظر میں بھی گھر ایک محفوظ جگہ ہونی چاہئے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔وہی والدین جو اپنے بچوں اور دیگر اہل خانہ پر جان چھڑکتے ہیں‘ انہیں سگریٹ کے دھوئیں کی صورت میں زہر منتقل کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے ۔
ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں بچوں کی تقریباًنصف تعداد کو گھروں میںاس کا سامنا کرناپڑتا ہے اور بچوں میں 31فی صد اموات کاتعلق کسی نہ کسی طرح اس کے ساتھ ہوتا ہے ۔تحقیقات یہ بھی بتاتی ہیں کہ جن گھروں میں سگریٹ نوشی ہوتی ہے، ان کے بچوں میں تمباکو نوشی کے عادی ہونے کے امکانات دیگر بچوں کے مقابلے میں 50فی صد زیادہ ہوتے ہیں ۔ اس لئے ہمیں گھروں میں اس موضوع پر بات ضرور کرنی چاہئے ۔اس کی ایک مثال راولپنڈی میں دہم جماعت کے طالب علم طارق ہیں جن کے ابو منیراحمد بے تہاشا سگریٹ پےتے ہیں۔طارق کا کہنا ہے :
”بابابہت سگریٹ پیتے ہیں ۔ مجھے سگریٹوں کی بو بالکل اچھی نہیں لگتی اور ان کے دھوئیں سے سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے ۔ میں نے کئی دفعہ ان سے کہا کہ سگریٹ نہ پیا کریں لیکن وہ شاید اس کے بغیر رہ نہیں سکتے۔ جب وہ سگریٹ پی رہے ہوں تو میں اس وقت وہاں سے ہٹ جاتا ہوں ۔“
منیر احمد جانتے ہیں کہ سگریٹ زہریلی چیز ہے اور بچوں کو اس کے دھوئیں سے بچانا چاہئے لیکن وہ ایسا کر نہیں پاتے :
”اکثر لوگ گھر سے باہر جا کر سگریٹ پیتے ہیں اور بعض شاید سستی کی وجہ سے یا اس دھوئیں کو بے ضرر سمجھتے ہوئے کمرے کے اندر ہی سگریٹ پی لیتے ہیں ۔میرا بھی یہی مسئلہ ہے۔ اٹھ کر باہر جانے کا تکلف نہیں ہوتا اور وہیں بیٹھے بیٹھے پی لیتا ہوں ۔ گاڑی میں بھی سگریٹ پیتا ہوں لیکن کوشش کرتا ہوں کہ کھڑکی کاشیشہ نیچے کرلوں تاکہ دھواں باہر نکل جائے۔ “
طارق کی امی بھی اپنے شوہر کی سگریٹ نوشی سے نالاں ہیں‘ تاہم وہ اس پرانہیں با اصرار منع نہیں کرتیں:
”سگریٹ کے دھوئیں کو برداشت کرنا میرے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ جب میرے شوہر زیادہ سگریٹ پیتے ہیں تو میں دوسرے کمرے میں چلی جاتی ہوں ۔میں انہیں منع تو کرتی ہوں لیکن اس پر زیادہ اصرارنہیں کرتی‘ اس لئے کہ اس سے گھرمیںلڑائی شروع ہوجاتی ہے۔ “
شفانیوز سے گفتگو کے دوران میاں بیوی میں باہم بحث و تکرار شروع ہوگئی ۔ بیوی کا کہنا تھا کہ وہ انہیں سمجھاتی ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتے جبکہ شوہر کا کہناتھا کہ بیوی نے اس پر سرسری بات توضرور کی لیکن کبھی اس پر زور نہیں دیا۔ان کا کہنا تھا کہ وہ آئندہ اسے زیادہ سنجیدہ لیں گے۔ یہ بحث ہر گھر‘ پبلک ٹرانسپورٹ اور عوامی جگہ پر ہونی چاہئے۔
بقائی یونیورسٹی کراچی کے اسسٹنٹ پروفیسر اور امراض سینہ کے ماہر ڈاکٹر ظفر یاب کا کہنا ہے:”جب ایک شخص سگریٹ پیتا ہے تووہ بالعموم تین سے پانچ سیکنڈز تک سانس روکتا ہے اور پھر باہر نکال دیتا ہے ۔ایسے میں وہ نقصان دہ کیمیکلز اندر کم رکھتاہے اور باہر زیادہ نکالتا ہے جو اس کے گرد بیٹھے لوگوں کے پھیپھڑوں میں چلے جاتے ہیں۔ یوں سگریٹ نہ پینے والے لیکن سگریٹ نوشوں کے حلقے میں بیٹھنے والوں کیلئے بھی اس کا نقصان اتنا ہی ہے جتنا سگریٹ پینے والوں کیلئے ہے۔ اگرسگریٹ نوشی بندجگہوں مثلاً بیڈروم‘ ڈرائنگ روم ‘ ہوٹل یا گاڑی وغیرہ میں ہو تو اس کا نقصان زیادہ ہوتا ہے۔“
ان کے بقول ان کے پاس کچھ مریض ایسے بھی آتے ہیں جو سگریٹ نہیں پیتے لیکن ان کے پھیپھڑوں میں وہ امراض پائے جاتے ہیں جن کاتعلق سگریٹ نوشی سے ہے۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ وہ سگریٹ پینے والے کی صحبت میں زیادہ رہتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیابھر میں ہر سال ہونے والی 60لاکھ اموات کا تعلق تمباکو نوشی سے ہے۔ ان میں سے50 لاکھ سے زیاد ہ لوگ خود تمباکو نوشی کرتے ہیں جبکہ تقریباًچھ لاکھ دوسروں کی تمباکو نوشی کے نتےجے میں پیدا ہونے والے دھوئیں کاشکار ہوتے ہیں۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ”انسداد تمباکو نوشی اور سگریٹ نہ پینے والوں کی صحت کے تحفظ کے آرڈنینس مجریہ 2002ئ“ کے ذریعے اس کے سدباب کی کوشش کی گئی ہے۔ اس قانون کے تحت پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی پر پابندی لگا دی گئی ہے لہٰذا اب ہوائی اڈوں ‘ تعلیمی اداروں‘ ہسپتالوں‘ کام کی جگہوں‘ پارکوں اور پبلک ٹرانسپورٹ وغیرہ میں سگریٹ نوشی قانوناً جرم ہے۔ یہ قانون سازی یقیناً خوش آئند ہے لیکن اس کی خلاف ورزی کے مناظر آئے روز ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں۔ اس کی ایک جھلک راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی ثریا خان کی گفتگو میں نظر آتی ہے جو ایک نجی ادارے میں ملازمت کرتی ہیں:
” ایک دفعہ میں ویگن میںاسلام آباد سے گجرات جارہی تھی ۔ گاڑی کو چلے ابھی تقریباً 15منٹ ہی ہوئے تھے کہ ڈرائیور نے سگریٹ سلگا لیا ۔ سردیوں کاموسم تھا اور کھڑکیوں کے شیشے بند تھے جس سے دھواںگاڑی میں جمع ہونے لگا۔ میں نے دھوئیں سے بچنے کے لیے دوپٹے سے منہ ڈھانپ لیا۔ ایک نوجوان نے ڈرائیور سے کہا کہ ’آپ مہربانی فرما کر سگریٹ بند کردیں۔ ‘ ڈرائیور نے ایک نہ سنی اورسگریٹ پیتا رہا۔ جب اس نے دوسرا سگریٹ سلگایا تو کچھ اور لوگوں نے بھی اس پر احتجاج کیا ۔اس پر ڈرائیور بھڑک اٹھا’ہمیں صبح سے شام تک گاڑی چلانا ہوتی ہے۔ پھر ہم سگریٹ بھی نہ پئیں؟ اگر کسی کو مسئلہ ہے تو شیشہ کھول لے یا یہیں اتر جائے۔‘ڈرائیور کے اس رویے پرایک نوجوان اٹھااورلڑنے پرتل گیالیکن باقی لوگوں نے اسے سمجھابجھا کر بٹھا دیا کہ ’ جانے دو‘ کوئی فرق نہیں پڑتا! یہ لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ “
عوامی جگہوں پر تمباکو نوشی کرنے کے رویے کو برداشت کرنے کی بجائے اس کے خلاف آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے ۔ترقی ےافتہ ممالک میںانسانی حقوق کے تحفظ کا اکثر ذکر کیا جاتا ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگاکہ یہ حقوق انہیں پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کئے گئے بلکہ ان کے لئے لوگوں نے طویل جدو جہد کی ہے۔ اگر ہمیں حقوق حاصل کرنا ہیں تو اسی راستے پر چلنا ہوگا۔ خواتین اور بچے اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ اگر وہ اس مسئلے پر ڈٹ جائیں تو ہمارے گھر حقیقی معنوں میں ”گھر “بن سکیں گے۔

Vinkmag ad

Read Previous

ٹیکنالوجی ‘نشہ نہیں ضرورت

Read Next

ڈپریشن خوش رہیں‘خوشیاں بانٹیں

Most Popular