Vinkmag ad

ڈپریشن خوش رہیں‘خوشیاں بانٹیں

    دنیا بہت ہی حسین ہے لےکن اس کے حسن اور رعنائیوں سے صرف اسی وقت محظوظ ہو ا جا سکتا ہے جب صحت اچھی ہو۔ بصورتِ دےگر یہ دنیا بے رونق اور بے کیف محسوس ہونے لگتی ہے ۔ باہر کا موسم اسی وقت اچھا لگتا ہے جب اندر کا موسم خوشگوار ہو اور اندر کے موسم کی خوشگوارےت کا تعلق عمومی صحت سے بھی ہے ۔ یہاں یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ آخر یہ’صحت‘ ہے کیااور کیا اس کی کوئی جامع تعریف بھی ہے ؟اقوام متحدہ کا عالمی ادارہ صحت اس سوال کا جواب کچھ یوں دےتا ہے :
”صحت صرف بیماری کے نہ ہونے یا جسمانی ضعف کا نام نہےں بلکہ ایسی کیفیت ہے جس میں ایک فرد خود کو جسمانی‘ ذہنی اور سماجی سطح پر بہترمحسوس کرے ۔“
اس سے معلوم ہوا کہ جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ ذہنی آسودگی اور سماجی میل جول بھی مکمل صحت کے لازمی اجزاءہیں۔

زندگی میں بہت سے مراحل اور مواقع ایسے بھی آتے ہیں جب انسان ذہنی تناﺅ کا شکار ہوجاتاہے۔ہمارے ہاں لوگ ہر ذہنی تناﺅ کو ڈپریشن کا نام دے دیتے ہیں جو غلط ہے ۔ڈپریشن کی تشخیص کے لےے ایک خاص معیارِ اصول(Criterion) ہوتا ہے جس کی بنےاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوئی فرد اس مرض کا شکار ہے یا نہیں۔ مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر کسی فرد میں یہ کیفیت لمبے عرصے یا کم از کم دو ہفتوں تک برقرار رہے تو پھر اسے ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہئے ۔بعض اوقات صرف کونسلنگ سے اس کی علامات بہتر ہو جاتی ہیں جبکہ کچھ صورتوں میں اسے ادویات کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔

ڈپریشن ہوتا کیوں ہے
لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیںکہ ڈپریشن کیوںہوتا ہے؟اس مرض کی وجوہات تلاش کرتے وقت سماجی،نفسیاتی اور حیاتیاتی‘تینوں پہلوﺅں کو سامنے رکھا جاتا ہے۔اگر کسی شخص کے خاندان میںیہ بیماری موجود ہو تو اس میں بھی موروثی طور پر ڈپریشن کا خدشہ ہوتاہے۔ کسی بڑی بیماری مثلاًذیابیطس،ہائی بلڈ پریشر اور تھائی رائیڈازم میں مبتلا افراد یانشے کے عادی لوگوں میں یہ بیماری عام ہے۔ یہ مرض کی حیاتیاتی وجوہات ہیں جن کے باعث ڈپریشن ہو سکتا ہے۔
مختلف سماجی مسائل بھی اس کا سبب بن سکتے ہیں جن میں کسی فرد کا مقروض ہوجانا، قانونی مسائل میں پھنس جانا، تعلقات میں ناہمواری کا شکار ہوجانا اور بچوں کی فکر وغیرہ نمایاں ہیں۔ اگر یہ مسائل ان سے نپٹنے کی صلاحیت پر حاوی آجائیں توفرد کو ڈپریشن ہو سکتا ہے ۔ بعض نفسیاتی وجوہات بھی اس کا سبب بن سکتی ہیں ۔مثلاً بعض لوگ بہت حساس ہوتے ہیں اورہر چیزکو اعلیٰ معےار پر دےکھنے کے عادی ہوتے ہےں۔جب وہ اس سطح کو حاصل نہیں کرپاتے تو ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگوں میں مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے لہٰذا وہ جلد اس مرض کا شکار ہوجا تے ہیں۔

مرض کی علامات
اگر کسی فرد مےں درج ذیل علامات ہوں تو اس بات کا امکان ہے کہ اسے ڈپرےشن کا مرض لاحق ہو چکاہے:
٭مسلسل اداس یا غمگین رہنا۔
٭بے کیفی اوربے لطفی کاشکاررہنا۔
٭کسی بات یا اردگرد کے ماحول میں دلچسپی محسوس نہ ہونا۔
٭قوت فیصلہ میںکمی اوراحساس کمتری محسوس کرنا۔
٭دل اور دماغ پر بوجھ ہونااورہروقت تھکاوٹ کااحساس رہنا۔
٭زندگی بے مقصد وبے معنی محسوس ہونا۔
٭خودکشی کے خیالات کا آنا یاعملاً اس کی کوشش کرنا۔
٭مختلف جسمانی عوارض کاشکاررہنا۔
٭کام میں دل نہ لگنا۔
٭لوگوں کے ساتھ میل جول سے کترانا۔
٭بھوک کا مٹ جانا‘ منہ کا ذائقہ تلخ ہونا۔
٭نیند نہ آنا یا بے آرام وبے سکون نیند آنا۔
٭معمولی باتوں پر غصہ آجانا‘چڑچڑپن پید اہونا۔
٭رونا یا رونے کو جی چاہنا۔
٭زندگی کے ہرمعاملے میں صرف تاریک پہلو پر سوچنا۔

خواتین میں ڈپریشن
اگر چہ خواتین مردوں کی نسبت اپنے جذبات کا اظہار زیادہ کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اُن کے مقابلے میں ڈپریشن کا زیادہ شکارہوتی ہیں۔اس کے پیچھے کئی معاشرتی پہلو بھی ہیں ۔مثلاً انہیں گھریلو اور پیشہ ورانہ زندگی میں مختلف مسائل اور استحصال کا سامنا کرنا پڑ تاہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ وہ فطری طور پرمردوں سے مختلف ہوتی ہیں۔خواتین کے کچھ ہارمونز مردوں سے مختلف ہوتے ہیں اور مختلف صورتوں مثلاً حمل اور زچگی وغیرہ میںان کا تناسب بھی بدلتا رہتا ہے اور وہ حساس بھی زیادہ ہوتی ہیں‘ اس لےے انہیں ڈپریشن کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

مرض کا علاج
ڈپرےشن کے علاج کےلئے مندرجہ ذیل طریقے اختےار کئے جاتے ہیں:
علاج بذرےعہ سائیکوتھیراپی :
اس طریقہ علاج میں مریض کی شخصیت‘اس کو لاحق بیماریوں اور مسائل کا ادراک کرکے ان کے حل کی کوششیں کی جاتی ہیں ۔اس مےں ادوےات کی بجائے گفتگو کا سہارا لےا جاتا ہے۔یہ طریقہ علاج ہلکے ڈپرےشن میں زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے۔

ادویات سے علاج:
مخصوص ادویات دماغ میں خاص رطوبتوں اور مادوں پر اثرانداز ہو کر ڈپرےشن کودورکرتی ہیں۔اس لئے ڈپرےشن کے موثر علاج کے لئے بعض اوقات ان کا سہارا لینا پڑتاہے۔ ان کا غیرضروری استعمال کئی طبی مسائل کا باعث بنتا ہے‘اس لئے انہےں اس شعبہ کے ماہر ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر قطعاً استعمال نہیںکرنا چاہیے۔

بچاو کی تدابیر
٭زندگی میں چھوٹی موٹی تبدیلیاں خوشگوار ثابت ہو تی ہےں۔ ڈپریشن سے بچاو¿ کے لےے انہےں اختےار کرنا چاہئے۔
٭متوازن خوراک اور ورزش کا خیال رکھنا چاہئے‘ اس لئے کہ یہ
ذہنی تناﺅ کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
٭دوسروں سے اپنی بات شیئر کریں۔اپنا دکھ کسی سے بیان نہ کرنے سے وہ بڑھتارہتا ہے۔خوشی اور غم‘ دونوں صورتوں میں اس کا اظہار لازم ہے کیونکہ ایسا کرنے سے غم کم ہوتاہے اور خوشی بڑھتی ہے۔
٭سیر و تفریح اورکھیل کودبھی صحت اور موڈپر مثبت اثرات مرتب کرتے ہےں۔ اس لےے اسے بھی اپنے معمول میں لازماًشامل کریں۔
اس مرض سے بچنے ےا اس کی شدت کو کم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ زندگی میں سادگی اور قناعت کوشعاربنایاجائے۔بلاوجہ کی مقابلہ بازی‘ہوس اور ہنگامہ خیزی سے اجتناب کیاجائے۔اعلیٰ انسانی اور مذہبی اقدارکو اپنایاجائے‘انسانی رشتوں‘ دوست واحباب اور خاندان کے ساتھ مل جل کر اورمحبت سے رہا جائے۔حسدورقابت کے جذبات اس مرض کو بڑھا سکتے ہیں لہٰذا ان سے اجتناب کیا جائے ۔     ہمیں چاہئے کہ دکھ درد میں ایک دوسرے کاسہارابنیںمطمئن اور خوش وخرم زندگی گزاریں۔زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو ادنیٰ نہ سمجھیں‘ اُن سے بھرپور لطف اندوز ہوں اور ان نعمتوں کا شکر ادا کریں۔ خودخوش رہیں اور دوسروں میں بھی خوشیاں بانٹیں۔

Vinkmag ad

Read Previous

سگریٹ کا دھواں! بچنے والوں کوتو بچائیے

Read Next

تشنج ‘ ہلکا مت لیجئے

Most Popular