Vinkmag ad

تشنج ‘ ہلکا مت لیجئے

    کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے کہ ہمارے اردگرد قدرت کاایک غیرمرئی نظام موجود ہے جو مختلف حوالوں سے ہماری سمت بدلتا رہتا ہے اور بساوقات کچھ موہوم سے خطروں‘ کوتاہیوں اوربھولی بسری لیکن اہم باتوں کے بارے میں آگاہ کرتا رہتا ہے۔چند دنوں سے مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے احمد کے بارے میں مجھ سے کوئی بھول ہو رہی ہے۔ وہ میرے پاس ہی تھا ۔میں نے اسے گود میں لیا اور اس کے ماتھے پر بوسہ دے کر اس کے بال سنوارنے لگی۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ اس کی تشنج (Tetanus) کی ویکسی نیشن ابھی باقی ہے۔ میں نے حسن سے بات کی تو کہنے لگے کہ کل بچوں کو پارک لے چلیں گے اورپرسوں ہسپتال جائیں گے۔

بچے پارک کا سن کر بہت خوش ہوئے ۔بہت عرصے بعد وہاں جا کر مجھے بھی بہت اچھا لگ رہاتھا۔ بچے تو جھولوں کی طرف یوں بھاگے جیسے ابھی ابھی قید سے چھوٹے ہوں۔ جب وہ کھیل کھیل کرتھک گئے تو ہم نے گھر واپس جانے کا فیصلہ کیا۔پارک سے باہر آنے کے بعد جب ہم گاڑی کی طرف بڑحے تو احمد اس کی طرف بھاگا اور بری طرح سے سڑک پر گر گیا۔ اس کے ہاتھوں پر اچھی خاصی خراشیں آگئیں۔ میں تو بڑی پریشان ہوئی۔ حسن نے کہا کہ اگر کوئی شخص سڑک پر گر جائے اور اسے کوئی چوٹ لگے یا خراش آجائے تو اسے تشنج کا ٹیکہ ضرور لگوانا چاہئے۔ یہ احتیاط اس وقت زیادہ کرنی چاہئے جب سڑک پر جانوروں کے گوبر کی موجودگی کے امکانات زیادہ ہوں۔احمد کی تو ابھی ویکسی نیشن بھی نہیں ہوئی تھی۔
مجھے بڑا تجسس ہوا کہ یہ تشنج اصل میں ہے کیا‘کیوں ہوتا ہے اور اس کا ٹیکہ نہ لگوایا جائے تو اس کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں؟ ڈاکٹر کے پاس مریضوں کا ہجوم تھا لہٰذا اس سے تفصیلاً بات ممکن نہ تھی۔ بعد میں شیخ زید ہسپتال لاہور کی جنرل فزیشن ڈاکٹر سعدیہ رحیم سے بات کی تو انہوں نے بڑے تحمل سے اورجامع انداز میں میرے ہر سوال کا جواب دیا۔ وہ کہنے لگیں کہ تشنج ایک سنجیدہ نوعیت کی بیماری ہے جسے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس کا سبب ایک ایسا بیکٹیریا ہے جو مٹی میں موجود ہوتا ہے اورہمارے ماحول میں بکثرت پایاجاتا ہے:
”یہ بیکٹیریا ایسے زخم ‘ کَٹ یا خراش کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے جو زمین پر گرنے سے لگیں۔ یہ جانوروں کے فضلے اور کسی زنگ آلود شے مثلاً سوئی، کیل، آلودہ سرنج یا لوہے کی کسی اور چیز کے جسم میں داخل ہونے سے بھی پھیلتا ہے۔“

علامتیں اور اشارے
ڈاکٹر سعدیہ کے مطابق زخم کے ذریعے بیکٹیریا کے جسم میں داخل ہونے اورمرض کی ابتدائی علامات نمودار ہونے میںچند دنوں سے کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔ عموماً اس کی بنیادی علامت جبڑوں کا جڑجانا (locked jaw)ہے۔ اگلے مرحلے میں یہ اکڑاﺅ گردن‘ کندھوں اور پھر بتدریج باقی جسم میں بھی منتقل ہوجاتا ہے۔ سانس لینے اور نگلنے میں دشواری‘ بخار‘ پسینہ‘ بلڈ پریشر کا بڑھنا‘ دل کی تیز دھڑکن‘ شدید حالت میں جھٹکے اور اعصابی نظام بھی بری طرح متاثر ہوسکتا ہے۔

حمل ،زچگی اور تشنج
اگرخواتین کو تشنج کی ویکسی نیشن نہ کرائی گئی ہو تو انہیں یہ مرض دوران حمل بھی ہوسکتا ہے اورحمل کے چھ ہفتے بعد بھی انہیں اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ ایسی ماﺅں کے ہاں جنم لینے والے بچے بھی تشنج کی زد میںہوتے ہیں۔ پاکستان کا شماران آٹھ ممالک میں ہوتا ہے جہاں ہر سال بہت سے نوزائےدہ بچے اس مرض کی وجہ سے فوت ہوجاتے ہیں۔
ترقی پذیر ممالک میں تشنج کی ایک بڑی وجہ دوران زچگی آلودہ اوزاروں کااستعمال بھی ہے۔کراچی سے تعلق رکھنے والی ماہر زچہ و بچہ ڈاکٹر نصرت نثار کے مطابق اسقاط حمل اور ڈی اینڈ سی (dilation and curettage) یعنی رحم مادرکی صفائی کے دوران غیر محفوظ اورغیر صحت مند اوزاروں کا استعمال یا ناڑو کا مکمل طور پر ٹھیک نہ ہونا بھی اس بیماری کا باعث بن سکتا ہے۔
تشنج اور علاج
ڈاکٹرسعدیہ کے مطابق ڈاکٹری معائنے کے ذریعے اس کی تشخیص ممکن ہے اور اس کیلئے لیبارٹری ٹیسٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ علاج کے تناظر میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ زمین پر گرنے کی وجہ سے اگر خراش آئے یا زخم لگے تو اس جگہ کو فوراًصابن اور نیم گرم پانی سے دھولیں اور تشنج کا ٹیکہ ضرور لگوائیں۔
ڈاکٹر نصرت نثار کہتی ہیں کہ اس کی ویکسی نیشن بہت ضروری ہے جو پیدائش کے بعد دوماہ کی عمر سے شروع ہوجاتی ہے اور عموماً پانچ سال کی عمر تک مکمل ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد 10سال کی عمر میں اور پھر 11سال بعد اس کا ایک ٹیکہ لگوایاجاتا ہے
ان کا کہنا ہے کہ اس مرض سے بچاﺅ کیلئے ماہرین زچہ بچہ اور لیڈی ہیلتھ وزیٹرز کو دوران زچگی اور خصوصاً ناڑو (umbilical cord)کو الگ کرتے وقت استعمال ہونے والے آلات کے آلودگی سے پاک ہونے پر خصوصی توجہ دینی چاہئے۔ مزید براں تمام حاملہ خواتین کو حمل کی دوسری سہ ماہی میں تشنج کا انجکشن ضرور لگوانا چاہیے ‘خواہ انہوں نے اس سے قبل اس کی ویکسی نیشن ہی کیوں نہ کروائی ہوئی ہو ۔

اگر کسی مریض میں مرض کی علامات شدید طور پر ظاہر ہوناشروع ہو جائیں تو اسے آئی سی یو (انتہائی نگہداشت یونٹ ) میں لے جانے کی ضرورت پڑسکتی ہے جہاں اسے پہلے اینٹی بائیوٹکس اورپھر اعصاب کو پرسکون رکھنے کے لئے ادویات دی جاتی ہیں۔ بعض صورتوں میں اسے مصنوعی سانس دینے کی ضرورت بھی پڑتی ہے۔
لاعلمی کم از کم صحت کے تناظر میں رحمت نہیں، زحمت ہے لہٰذا ماﺅں کو چاہئے کہ بچوںکی صحت سے متعلق مصدقہ معلومات جہاں سے ملیں، لیتی رہیں۔ اس کے علاوہ انہیں ان بیماریوں کی ویکسی نیشن لازماً کروائیں جو خطرناک ہیں اور جو ہمارے ہاں زیادہ عام ہیں۔
جب سے ماں بنی ہوں‘ تب سے مجھے تو اپنی ماں کی بہت قدر آئی ہے اور یہ لفظ لکھتے وقت بھی میری آنکھیں نم ہو رہی ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اپنی ماﺅں کی آج‘ اس وقت قدر کریں جب وہ ہمارے پاس ہیں۔اس وقت رونے دھونے اور انہیں یاد کرنے کا کیا فائدہ جب وہ ہمارے پاس نہ رہیں۔آج اپنے ماں باپ کو نظر انداز کرنے والے بچے‘ کل خود بھی اپنے بچوں کے ہاتھوں نظر انداز ہوسکتے ہیں۔کہتے ہیں کہ جو بوﺅ گے‘ وہی کاٹو گے۔ آج اچھا بیج ڈالیں‘ کل یقیناًاچھا پھل پائیں گے۔

Vinkmag ad

Read Previous

ڈپریشن خوش رہیں‘خوشیاں بانٹیں

Read Next

جب بال بنیں وبال

Most Popular