کیرئیر کے انتخاب میں تذبذب

بچپن کی یادوں کو دہراتے ہوئے نوجوان کا کہنا تھا کہ اسے اُن دنوں ٹیلی وژن پر نشر ہونے والا ایک ڈرامہ بہت پسند تھا جس کا مرکزی خیال ٹیپو سلطان کی زندگی سے ماخوذ تھا۔ اس کردار سے متاثر ہو کر اس نے عزم کیا کہ اسے مستقبل میںایک جرأت مند سپاہی (warrior) کی زندگی گزارنا ہے۔
کچھ دن ہی گزرے تھے کہ اس نے ٹیلی وژن پر ایک کیمیکل انجینئر کو مختلف ٹیوبز میں رنگ برنگے کیمیکلز کے ساتھ تجربات کرتے ہوئے دیکھا۔ اسے تجسس پیدا ہوا تو اس نے بڑی بہن سے پوچھا کہ وہ شخص کیا کر رہا ہے ۔جب تفصیل معلوم ہوئی تواسے کیمیکل انجینئرنگ میں دلچسپی پیدا ہوگئی۔اب اس نے فیصلہ کیا کہ اسے تو اسی میدان میں جانا ہے ۔

بچپن لڑکپن اورپھر نوعمری میں تبدیل ہوا۔ ایف ایس سی ہوچکی تھی اور یہ تعلیم کا وہ مرحلہ ہوتا ہے جب کیرئیر سے متعلق فیصلہ کرنا اور اس سلسلے میں پہلا باقاعدہ قدم اٹھاناہوتا ہے ۔اسے یہ طے کرنا تھا کہ اسے کہاں اور کس مضمون میں داخلہ لینا ہے ۔

والدین کی طرف سے تو اس پر کوئی دبائو نہ تھا لیکن جب اس نے اپنے اردگردلوگوں سے بات کی تو معلوم ہوا کہ سب ہی انجینئر یا ڈاکٹر بننا چاہتے ہیں ۔ اس کے اکثر دوستوں کے والدین کی بھی یہی خواہش تھی۔ انجینئرنگ کی بھی بہت سی ذیلی شاخیں ہیں اور اس کے قریبی لوگوں کا کہنا تھا کہ مکینکل انجینئرنگ سب سے زیادہ اہم ہے۔چونکہ ایف ایس سی میں اس کے مناسب نمبر آگئے تھے لہٰذااس کے لئے ایک اچھی اور مشہوریونیورسٹی میں اس مضمون میں داخلہ بھی ممکن تھا ۔معروضی حالات میں اسے لگا کہ یہی سب سے بہتر فیصلہ ہے چنانچہ اس نے اس میںداخلہ لے لیا۔
چند ہی روزمیں اسے اندازہ ہوا کہ بھیڑچال کی بنیاد پراس نے داخلہ تولے لیا ہے لیکن اس میں اس کا دل نہیں لگ رہا۔ انہی دنوں ٹیلی وژن پر مختلف سیاسی اورسماجی موضوعات پر ہونے والے پروگراموں میں اس نے اینکرز کی گفتگو سنی تو ان کی معلومات ‘ اندازِ بیان اور اعتماد سے بہت متاثر ہوا۔ اب اس کے دل میں یہ خواہش جنم لینے لگی کہ انجینئرنگ کی ڈگری اپنی جگہ،لیکن اصل میں تو اسے اینکرپرسن بنناچاہیے۔
اور پھر یہ خواہش بھی کچھ عرصے کے بعد دم توڑ گئی۔

ہوایوں کہ شہر سے دور پہاڑی علاقے میں نوجوانوں کے لیے منعقدہ ایک کیمپ میں اسے کچھ ترغیبی مقررین (motivational speakers) کو سننے اور ان میں سے کچھ کے ساتھ ملاقات کا موقع ملا ۔ان میں سے ہر ایک کی شخصیت متاثرکن تھی جن کی تقاریر اور گفتگوئوں نے اس کے ذہن پرگہرا اثر چھوڑا۔اب نوجوان نے فیصلہ کیا کہ اسے بھی ترغیبی مقرر بننا ہے ۔
اس دوران اس نے انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کر لی تھی ۔ ملازمت کے لیے کئی انٹرویوز ہوئے اور بالآخراسے ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں معقول جاب بھی مل گئی۔کام آسان تھااور شرائط کار بھی مناسب تھیں۔ مزیدبرآںکمپنی کے بڑے نام کی وجہ سے بھی یہ ایک باعزت ملازمت تصور کی جاسکتی تھی لیکن نوجوان کے بقول اس کی طبیعت کو اطمینان نہ تھا۔ چنانچہ جونہی مارکیٹنگ ریسرچ کی دنیا میں موقع ملا تو نوجوان نے انجینئرنگ کی فیلڈ چھوڑ کر اس میدان کواختیار کرلیا۔

’’آئندہ کیا ہوگا‘ اس بارے میں ابھی کچھ کہنا مشکل ہے تاہم اس وقت تو میں اپنی فیلڈ کو انجوائے کررہاہوں۔‘‘ نوجوان نے ایک سوال کے جواب میں کہا ۔

نوجوان خوش قسمت تھا کہ زندگی کے سفر میں آنے والی متعدد اور متنوع خواہشات کے باوجود وہ بالآخرایک سمت اختیار کرنے میں کامیاب ہوگیا۔اس کی ایک وجہ اسے اپنے گھر سے ملنے والی راہنمائی اور تعاون بھی تھا۔
بہت سے نوجوانوں کے لیے یہ فیصلہ اتنا آسان نہیں ہوتاکہ مستقبل میں انہیںکون سا کیرئیراختیار کرنا ہے ۔وہ مختلف اور متضاد راہوں پر چلتے اور الجھے رہتے ہیں اور اسی میں بہت سا وقت گزرجاتا ہے۔ایسے میں مواقع محدود ہوں تو الجھن اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔اس سلسلے میں ایک اہم مسئلہ خاندان کے بڑوں کا دبائو بھی ہوتا ہے جو بچوں کو اپنی خواہش کے مطا بق بہت کچھ بنانا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب معاشرے میں بعض مخصوص میدانوں کے لیے دوڑلگی ہوتی ہے۔ یوں ذاتی رجحانات اور حقیقی استعداد کی بنیاد پر رہنمائی اور مشاورت ملنے کی بجائے بچوں کے ذہن پر دوسروںکی خواہشات پوری کرنے کادبائو بڑھتا چلا جاتا ہے۔ فیصلہ تو کوئی نہ کوئی ہو ہی جاتا ہے لیکن اگر اس میں والدین اور بچوں کے درمیان ہم آہنگی نہ ہو تو یہ صورت ایک ہی نہیں ‘دونوں فریقوں کے لیے ذہنی الجھنوں، فرسٹریشن اور محرومیوں کو جنم دیتی ہے ۔ایسے میںنو جوان بالعموم عملی زندگی میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر پاتے اور انتہائی صورت میں شدید منفی نفسیاتی اثرات اور رویوں کابھی شکار ہوجاتے ہیں۔

Vinkmag ad

Read Previous

اپنے تصورات درست کیجئے

Read Next

آرگن ٹاک… ’’ گردے‘‘ سے ملئے!!!

Leave a Reply

Most Popular