بے قابو اجنبی ہاتھ

بے قابو اجنبی ہاتھ

ایک خاتون اپنی خواب گاہ میں پڑی بے ترتیب چیزوں کو درست کرنے کے بعد بستر کی طرف بڑھتی اوراس کی چادر ٹھیک کرتی ہے۔ جب وہ تکیے کی طرف بڑھنے لگتی ہے تو اچانک اس کا بایاں ہاتھ چادرکا کونا پکڑکر کھینچ لیتا ہے۔ خاتون حیرت، پریشانی اورخوف کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کبھی چادرتو کبھی بائیں ہاتھ کو دیکھتی ہے۔ بے یقینی کی کیفیت میں وہ ایک دفعہ پھرچادردرست کرتی ہے لیکن بایاں ہاتھ اسے پھرخراب کر دیتا ہے۔ خاتون گھبراہٹ میں لمبے لمبے سانس لینے لگتی ہے۔ وہ کولرکی طرف بڑھتی اورگلاس میں پانی ڈالتی ہے۔ ابھی گلاس منہ سے لگایا ہی ہوتا ہے کہ دوسرا ہاتھ اس سے گلاس لے لیتا ہے اوروہ دیکھتی رہ جاتی ہے۔ وہ دوا کھانے کے لئےبوتل کھولتی ہے تودوسرا ہاتھ جھٹکے سے ساری گولیاں نیچے گرا دیتا ہے۔ خاتون باہرنکلنے کے لئے دروازے کا ہینڈل پکڑتی ہے تو باغی ہاتھ اس کی کلائی پکڑ لیتا ہے۔

بظاہر یہ سب کچھ انہونی، دورکی کوڑی یا کوئی فلمی سین لگتا ہے، لیکن حقیقت میں بھی ایسا ممکن ہے۔ اس کا سبب ایک بہت ہی کم پایا جانے والا اعصابی مرض اےایچ ایس یعنی ایلئن ہینڈ سینڈروم کہتے ہیں۔ اس موضوع پر2017 میں تامل زبان میں ایک کامیڈی فلم بھی بنائی گئی۔ ڈاکٹر سٹرینج لو (Dr.Strangelove) کے نام سے 1964 میں ایک فلم بنائی گئی جس کا موضوع امریکہ اورسویت یونین کے درمیان ممکنہ ایٹمی جنگ کا خوف تھا۔ فلم میں صدرامریکہ کے سائنسی مشیرڈاکٹرسٹرینج لو کا ایک ہاتھ خودکارطریقے سے نازی جرمن اندازمیں سلیوٹ کرتا ہے۔ تمام ترکوشش کے باوجود وہ اپنے ہاتھ کو اس حرکت سے روک نہیں پاتا۔

جب مرض کا باقاعدہ نام رکھنے کا مرحلہ آیا توڈاکٹرسٹرینج لوسینڈروم کا نام تجویزہوا لیکن اس کی منظوری نہ ہو سکی۔ تاہم غیررسمی طورپریہ نام اب بھی استعمال ہوتا ہے۔ 1972 میں فرانسیسی ماہرین اعصابی امراض ،سرج برائیون اورجیڈی نیک نے اس کے لئے اجنبی ہاتھ  کی اصطلاح استعمال کی۔ اس کے بعد اسے’’ اے ایچ ایس‘‘ کہا جانے لگا۔

مرض کا پہلا کیس

میڈیکل لٹریچر میں اس مرض سے متعلق پہلا کیس 1908 میں جرمنی میں سامنے آیا۔ اس کا تذکرہ معروف نیورو سائیکاٹرسٹ کرٹ گولڈسٹائن نے ایک ریسرچ پیپرمیں کیا۔ نیوروسائیکاٹرسٹ کے مطابق دائیں ہاتھ سے کام کرنے والی ایک 57 سالہ خاتون کو فالج ہوا جس سے ان کے جسم کا بایاں حصہ متاثرہوا۔ جب وہ گولڈ سٹائن کے پاس آئیں توجزوی طورپرصحت یاب ہو چکی تھیں۔ تاہم ان کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہوگیا کہ کبھی کبھی انہیں لگتا کہ ان کا بایاں ہاتھ کسی دوسرے فرد کے کنٹرول میں ہے۔ مریضہ کے الفاظ میں

 جب میں کسی خاص مقصد کے لئے بائیں ہاتھ کو حرکت دینا چاہوں تووہ یوں اجنبی بن جاتا ہے جیسے اس کا مجھ سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ مثلاً جب میں اس ہاتھ سے کسی چیزکو پکڑنے کے بعد چھوڑنا چاہوں تووہ اس سے انکارکردیتا ہے۔ کبھی کبھی وہ اچانک حرکت میں آتا ہے اورمیری خواہش یا ضرورت کے بغیرہی میرا چہرہ پونچھتا یا آنکھوں کو ملتا ہے۔ میرے ساتھ ایسا ہروقت نہیں بلکہ کبھی کبھارہوتا ہے۔ جب میں بول کراس ہاتھ کوہدایت دیتی ہوں تووہ اس پرعمل کرتا ہے لیکن اس طرح کی شعوری کوشش کے ساتھ اس کی حرکت غیرارادی حرکت کے برعکس بہت آہستہ ہوتی ہے۔

کیا متاثرہ ہاتھ نقصان پہنچا سکتا ہے؟

کچھ کیسز میں اس اجنبی ہاتھ نے فرد کونقصان پہنچانے کی بھی کوشش کی۔ مثلاً ایک خاتون نے شکایت کی کہ اس کا ایک ہاتھ کبھی کبھی اس کا گلا پکڑ لیتا ہے۔ اسی طرح ایک 65 سالہ خاتون پیانوبجایا کرتی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں یہ کام چھوڑنا پڑا، اس لئے کہ ان کا ایک ہاتھ بعض اوقات اس کام میں تعاون نہیں کرتا تھا۔ ایک اور 45 سالہ شخص نے اپنا قصہ یوں سنایا

ایک دفعہ جب رفع حاجت کے لئے ٹوائلٹ میں بیٹھا تواچانک یوں لگا جیسے کسی نے میری آنکھوں پرہاتھ رکھ لئے ہوں۔ میں نے سوچا کہ شاید دروازہ کچھ کھلا رہ گیا ہے اورباہر کھیلتے بچوں میں سے کسی نے شرارتاً ایسا کیا ہے۔ لیکن یہ دیکھ کرمجھے شدید حیرت ہوئی کہ یہ میرا اپنا ہاتھ تھا۔

وجہ کیا ہے

یہ مسئلہ بالعموم بائیں یا اس ہاتھ میں ہوتا ہے جونسبتاً کم استعمال ہوتا ہے۔ اگراس کی وجوہات پربات کی جائے تو اس کا ایک سبب وہ امراض ہیں جنہیں اعصابی طورپرتنزل پذیرکہا جاتا ہے۔ الزائمرز، پارکنسنزاوردماغی شریان کا پھیلاؤ اس کی کچھ مثالیں ہیں۔ موخرالذکرمیں شریان کی کمزوردیواریں غبارے کی طرح پھول جاتی ہیں۔ کچھ لوگوں کوفالج کی وجہ سے اس کا سامنا ہوسکتا ہے۔ اس کا تعلق دماغ کی ایسی سرجری سے بھی ہے جس میں اس کے دونوں نصف کروں کو ملانے والی نس (corpus callosum)کٹ جائے۔یہ نس دونوں نصف کروں کے درمیان پیغام رسانی کو ممکن بناتی ہے۔ مرگی کے علاج کے طورپرکی جانے والی سرجری بھی اسے متاثر کرسکتی ہے۔

گولڈ سٹائن نے اے ایچ ایس کے اولین کیس کی بنیاد پروضاحت کی کہ مریض اپنی حرکات کو منظم طریقے سے کیونکرسرانجام نہیں دے پاتا ۔اس میں انہوں نےشکل اورحجم کی پرکھ کی اہلیت، قوت ارادی اوراعلیٰ درجے کے ادراک کے ساتھ دماغی ڈھانچے کے تعلق پرگفتگو کی۔ انہوں نے اس معاملے پربھی بات کی کہ جسمانی حرکات کس طرح انجام پاتی ہیں۔ واضح رہے کہ یہ مکمل طور پراعصابی مرض ہے اور اس کا نفسیاتی بیماریوں سے کوئی تعلق نہیں۔ چونکہ یہ مرض بہت ہی کم پایاجاتا ہے لہٰذا اس سے آگہی نہ رکھنے والے معالج بعض اوقات اسے نفسیاتی مسائل کے ساتھ جوڑ دیتےہیں جو مریض کے لئے بے چینی اور بسا اوقات اشتعال کا باعث بنتا ہے۔

علاج کیا ہے

جن لوگوں کو یہ مسئلہ فالج کی وجہ سے ہوا ہو، ان کی یہ کیفیت کچھ عرصے بعد ٹھیک ہوجاتی ہے۔ تاہم اس کا سبب اگراعصابی تنزل پذیر بیماریاں ہوں توپھراس کا علاج ممکن نہیں ہوتا۔ البتہ کچھ کوششوں سے علامت کی شدت اوردورانئے میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ مثلاًبعض لوگ ایسے وقت میں اپنے باغی ہاتھ کو ٹانگوں میں دبا لیتے ہیں یا اس پر بیٹھ جاتے ہیں۔ اسی طرح بعض افراد کو یہ طریقہ بھی مفید لگتاہے کہ اس ہاتھ میں کوئی چیز پکڑ لی جائے تاکہ وہ کوئی اور کام نہ کر سکے۔ پٹھوں کو کنٹرول کرنے والی، رویوں کی اور ادراکی  تھیراپی اور نسیں بلاک کرنے جیسے طریقوں سے بھی اس میں مدد ملتی ہے۔

 

Vinkmag ad

Read Previous

فوڈ پوائزننگ

Read Next

زچگی کے بعد کتنا آرام کریں

Leave a Reply

Most Popular