معصوم ذہنوں کا تناﺅ، نجات کیسے
بچپن جسے کبھی خوشیوں‘ بے فکری اور شرارتوں کا زمانہ کہا جاتا تھا‘ آج کل بھاری بستوں‘ اچھے نمبر لینے کے دباﺅ‘ والدین کی بہت زیادہ توقعات‘ جسمانی کھیل کود کے کم ہوتے مواقع اور ٹیکنالوجی تک بلا روک ٹوک رسائی کی بدولت کہیں کھوسا گیا ہے۔
آج کا بچہ صبح سویرے اٹھ کر نیم بیداری کی حالت میں ناشتہ کرتا اور بھاگم بھاگ سکول پہنچتا ہے جہاں تھکا دینے والے 6 سے سات گھنٹے گزارنے کے بعد گھرواپس لوٹتا اورہوم ورک میں مصروف ہوجاتا ہے۔ اگرفراغت کے چند لمحات میسر آجائیں تو وہ ٹی وی‘ کمپیوٹراور موبائل فونز کی نذر ہو جاتے ہیں۔ یوں وہ دیر سے سوتے ہیں اور نیند کی کمی کی وجہ سے اگلا دن اونگھتے ہوئے گزارتے ہیں۔ اس طرز زندگی کے نتیجے میں بچوں کی اکثریت ذہنی دباﺅ کا شکار رہتی ہے۔
بچوں میں ذہنی تناﺅ کے کچھ اہم اسباب اوران میں والدین کی ذمہ داریاں درج ذیل ہیں :
بچوں کے لئے وقت نہیں
بچوں کے بہت سے نفسیاتی اور سماجی مسائل کا ایک سبب یہ ہے کہ والدین اپنی زندگیوں میں اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ ان کے پاس اپنے بچوں کے لئے وقت ہی نہیں جس کی وجہ سے ان دونوں میں خاص طرح کا کمیونی کیشن گیپ پیدا ہوگیا ہے۔ اس وجہ سے بچے والدین کے ساتھ اپنے مسائل کھل کر بیان نہیں کر پاتے اورنتیجتاً ذہنی تناﺅ کا شکار رہتے ہیں ۔ جس طرح بچوں کی جسمانی، ذہنی اور معاشی ضروریات کا خیال رکھنا والدین کا اولین فرض ہے، اسی طرح ان کے ساتھ وقت گزارنا اور ان کی دلچسپیوں میں حصہ لینا بھی ان کے فرائض میں شامل ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ جن گھروں میں والدین اور بچوں کے درمیان خوشگوار تعلقات ہوتے ہیں‘ ان کے بچوں میں ذہنی تناﺅ کم پایا جاتا ہے ۔
یک طرفہ نہیں‘ مشترکہ حل
والدین کی بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ بچے ناسمجھ ہوتے ہیں لہٰذا ان کو راہ راست پر رکھنے کے لئے سختی ضروری ہے ۔ ایسے میں وہ کسی بات یا فیصلے کی منطق بتانے اور سمجھانے پر وقت ضائع کرنے کی بجائے محض آرڈر جاری کرتے ہیں اور بچوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اسے من و عن تسلیم کریں۔ بچوں کو چونکہ اس کے پیچھے اصل مقصد کی سمجھ نہیں آرہی ہوتی لہٰذا وہ پوری دلجمعی سے اس پر عمل نہیں کرپاتے۔ یوں والدین اصرار کرنے اور بعض اوقات سزا دینے کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرپاتے اور بچہ بھی ذہنی تناﺅ کا شکار رہتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ حوصلے اور صبر کے ساتھ بچے سے بات کریں۔
اگر ممکن ہو تو اس کے ایک یا دوکاموں کو کچھ عرصے کے لئے موخر کردیں۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اس معاملے میں اپنی رائے دیں اور بچے سے پوچھیں کہ اس کام میں کس طرح آسانی پیدا کی جاسکتی ہے اور پھر یک طرفہ طور پر نہیں بلکہ مشترکہ طور پر مسائل کا حل نکالیں۔
احساسا ت کا خیال
بچے پھول کی مانند ہوتے ہیں اور اگر انہیں ہر بات پر روک ٹوک کی جاتی رہے تو وہ مرجھا سے جاتے ہیں اور ان کی شخصیت نکھرنے کے بجائے ماند پڑ جاتی ہے ۔ بڑوں کی طرح بچوں کے بھی جذبات اوراحساسات ہوتے ہیں اوراگرانہیں ٹھیس پہنچے تو بڑوں کی طرح انہیں بھی تکلیف ہوتی ہے اور وہ بھی اضطراب کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مسلسل اس کیفیت میں رہنے والے بچے ذہنی دباﺅ حتیٰ کہ ڈپریشن کے بھی شکار ہو جاتے ہیں۔ والدین کو چاہئے کہ ایسے جملوں اور رویوں سے پرہیز کریں جو ان کے احساسات اور جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا سبب بنیں ۔
رویوں میں تبدیلی پہچانیں
والدین کو چاہئے کہ اپنے بچے کے رویے اور کردار میں آنے والی تبدیلیوں پر نظر رکھیں مثلاً اگر وہ جھگڑالو اور چڑچڑاہوتا جارہا ہے‘ اکیلے رہنے کو ترجیح دینے لگا ہے ‘ روزمرہ کے کاموں میں اس کی دلچسپی برائے نام رہ گئی ہے‘ بڑوں کا کہنا نہیں مانتا یا دوسرے بچوں کو تنگ کرنے سے اسے تسکین ہوتی ہے تو اسے نظر انداز مت کریں ۔ ایسے مشاہدات کی روشنی میںاس سے تفصیلی گفتگو کریں۔ اس کی بات سنیں اورمسائل کا تجزیہ کر کے حل نکالنے کی کوشش کریں۔
تعریف کریں اور سراہیں
تعریف ہر ایک کو اچھی لگتی ہے اور خوبیوں پربچے کی تعریف کی جائے تو وہ خوشی خوشی اپنے کام کرنے لگتا ہے ۔ اس لئے والدین کو چاہئے کہ بچے کی ذات کو سراہیں‘ اس کی شخصیت کے اچھے پہلوﺅں کو پہچانیں اور ان کی تعریف کریں۔ یوں بچہ اپنے بارے میں اچھا محسوس کرے گا اور اس کی اٹھان پرسکون اور پراعتماد شخص کے طور پر ہوگی ۔
تبدیلی کے لئے تیارکریں
بچوں کی روٹین یا ان کی زندگی میں کوئی بڑی تبدیلی آرہی ہو تو انہیں اس کے بارے میں اعتماد میں لیں مثلاً اگر آپ نئے گھر میں منتقل ہورہے ہیں‘ بچے کا داخلہ کسی نئے سکول میں کروانا ہے یا بچے کو علاج کی ضرورت ہے تواچانک اقدام کی بجائے پہلے اسے ذہنی طور پر تیار کریں۔ اسے بتائیں کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں ۔ بچے کی زندگی یا صحت پر اس کے مثبت اثرات کو اجاگر کریں تاکہ وہ اس تبدیلی کے ساتھ خوشی کے احساس کو وابستہ کر سکے۔ بہت سے بچوں کے لئے یہ تبدیلی سرپرائز ہوتی ہے اور چونکہ وہ ذہنی طور پر اس کے لئے تیار نہیں ہوتے لہٰذا پریشانی‘ تناﺅ یامایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
کھیلنے کے مواقع فراہم کریں
صحت مند جسم کے لئے متوازن خوراک کے ساتھ جسمانی سرگرمیاں بھی ضروری ہیں ۔ اس لئے بچے کو ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ روزانہ کم از کم چالیس منٹ سے ایک گھنٹے تک اسے کھلے میدان میں کھیلنے کا موقع دیں۔ اس سے نہ صرف اس کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں ابھریں گی بلکہ وہ ذہنی دباؤ سے بھی بچیں گے ‘ اس لئے کہ یہ ثابت شدہ بات ہے کہ جسمانی سرگرمیاں ذہنی تناﺅ کم کرتی ہیں۔
ذہنی دباؤ اگر ایک حد میں رہے تو یہ ایک مثبت چیز ہے‘ اس لئے کہ یہ انسان کو مقابلہ کرنے اورڈٹ جانے پر مجبور کرتا ہے۔ بچوں کو بتانا چاہئے کہ کبھی کبھی خوف، اکیلا پن، اکتاہٹ اور ذہنی دباؤ¿ محسوس کرنا فطری اور صحت مندانہ فعل ہے اور یہ کہ وہ خود بھی ان کیفیات سے گزرتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے پت جھڑ کے بعد درختوں کی شاخیں ہرے پتوں کی نئی پوشاکیں پہننے کے لئے تیار ہو جاتی ہیں ۔ انسان جب ایسی کیفیات سے کامیابی سے گزرجاتا ہے تو زندگی میں درپیش بڑے مسائل سے نپٹنے کی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے۔ بچوں کی اس انداز میں تربیت کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ زندگی کے مشکل مراحل سے بھی نہایت آسانی اور مہارت سے گزرنے کا ہنر سیکھ لیں گے ۔
خود کرنے کے کام
ذہنی تناﺅ کو کم کرنے کے لئے کچھ کام خود بھی کئے جا سکتے ہیں:
مثبت پہلوﺅں پر توجہ دیں
جب آپ کسی خاص ماحول‘ حالات‘ رویے یا واقعے کی وجہ سے مایوسی یا ذہنی تناؤ کا شکار ہوں تو اس وقت اپنے دماغ میں آنے والے منفی خیالات کو تھوڑی دیر کے لئے ایک طرف رکھیں اور اس سے وابستہ مثبت خیالات کو ایک کاغذ پر لکھ لیں۔ مثلاً اگر آپ کے ٹیسٹ میں نمبر اچھے نہیں آئے تو منفی طور پر سوچنے کی بجائے یہ سوچیں کہ کب آپ ایسے ہی حالات میں بہتر نتائج دکھا پائے اور اگلی بار آپ کیسے پورے نمبر حاصل کر سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے آپ کا دھیان بٹ جائے گا اورآپ نہ صرف ذہنی تناﺅ سے نجات پائیں گے بلکہ مثبت توانائی بھی حاصل کرلیں گے ۔
ورزش کی عادت اپنائیں
روزانہ کم سے کم 40 منٹ تک کوئی بھی جسمانی سرگرمی ضرور کریں۔ ایسا کرنے سے آپ کے دماغ میں ایسے کیمیائی مادوں کا اخراج ہوگا جو آپ کو ہشاش بشاش رکھنے کے ساتھ ساتھ آپ کے ذہن کو منفی خیالات سے پاک رکھنے میں بھی مدددے گا۔
کھلی فضامیں گہری سانس
جب بھی آپ ذہنی تناؤ کا شکار ہوں تو آپ کھلی فضا میں جاکر گہری سانس لیں اور اس عمل کو تب تک دہراتے رہیں جب تک آپ بہتر محسوس نہیں کرتے ۔ ایسا کرنے سے دماغ کو زیادہ مقدار میں آکسیجن ملتی ہے جس سے ذہنی دہاؤ سے نجات ملتی ہے۔
anxiety in children, mental health of kids, importance of emotional health, emotional health, parenting, what should parents do to improve a child’s emotional health,
