رحم مادر میں یا پیدائش کے وقت بناوٹ کے اعتبار سے پیدا ہونے والے تمام نقائص پیدائشی نقائص کہلاتے ہیں۔ یہ تبدیلیاں وضع قطع کو ہی نہیں، افعال کو بھی متاثر کرتی ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 80 لاکھ بچے کسی نہ کسی نقص کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں تقریباً 2 لاکھ 95 ہزار پیدائش کے 28 دن بعد فوت ہو جاتے ہیں۔ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو ان میں اکثر ڈاؤن سینڈروم، دل اور نیورل ٹیوب (دماغ اور حرام مغز کی ابتدائی شکل) کے مسائل میں مبتلا ہوتے ہیں۔
زیادہ عام پیدائشی نقائص
شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کے ماہر امراض بچگان ڈاکٹر یاسر مسعود کے مطابق ہمارے ہاں زیادہ تر بچوں کا تالو یا ہونٹ آدھا کٹا ہوتا ہے یا مکمل غائب ہوتا ہے۔ بعض بچوں کے دماغ میں پانی جمع ہو جاتا ہے اور کمر پر پھوڑے جیسے مسائل بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ اکثر اوقات یہ اکٹھے ہی ظاہر ہوتے ہیں۔ آدھے تالو یا ہونٹ والے بچوں کو دودھ پینے میں دقت ہوتی ہے۔ ان کے لیے مخصوص فیڈر موجود ہیں۔
بعض بچوں کو دل میں سوراخ، پھیپھڑوں کی بیماریوں یا انتڑیوں میں رکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے۔ ان صورتوں میں فوری سرجری کروانی پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ جو مسائل سامنے آتے ہیں ان میں ہاتھ پاؤں کی انگلیاں نہ بنی ہونا، زیادہ ہونا اور پاؤں مڑے ہونا شامل ہیں۔ ان میں انتظار کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً ہونٹ کو تین ماہ بعد اور تالو کو نو ماہ کے قریب ٹھیک کیا جاتا ہے۔
پیدائش کے وقت سینڈرومز میں ڈاؤن سینڈروم کی شرح نسبتاً زیادہ ہے۔ اس سے متاثرہ بچوں کی ایک مخصوص شکل ہوتی ہے اور انہیں دل، معدے اور انتڑیوں کے مسائل درپیش ہوتے ہیں۔
پیدائشی نقائص کیوں ہوتے ہیں
شفا نیشنل ہسپتال فیصل آباد کی ماہر امراض نسواں ڈاکٹر عالیہ حفیظ کے مطابق ایسے 50 فی صد مسائل کی بنیادی وجہ معلوم نہیں ہو پاتی۔ تاہم جینیاتی مسائل، غذائی کمی، تمباکونوشی، مخصوص ادویات کا استعمال (مرگی، ایکنی اور کینسر وغیرہ)، انفیکشنز اور ماں کی عمر اس ضمن میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ عموماً 35 سال کے بعد حمل ٹھہرنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ ٹھہر جائے تو اسقاط حمل اور پیدائشی نقائص کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
کیا پیدائشی نقائص یا جینیاتی امراض کی رحم مادر میں تشخیص ممکن ہے؟
پہلے تین ماہ میں بچے کے اعضاء بن رہے ہوتے ہیں لہٰذا عموماً یہ مسائل اسی دوران پیش آتے ہیں تاہم یہ اگلی سہ ماہیوں میں بھی ہو سکتے ہیں۔ شفا انٹرنیشنل ہسپتال کی ماہر امراض نسواں ڈاکٹر ہما تسلیم کہتی ہیں کہ جینیاتی نقائص کی تشخیص کے لیے حمل کے 8 سے 10 ہفتوں میں سی وی ایس (chronic villus sampling) کی جاتی ہے۔ اس میں ماں اور بچے کے درمیان بننے والی نالی سے خلیے لے کر جائزہ لیا جاتا ہے۔

پھر 11 سے 13 ہفتوں کے دوران ایک سکین ہوتا ہےجسے این ٹی (nuchal translucency) کہتے ہیں۔ اس میں جنین کی گردن کی جلد کے نیچے پائے جانے والے مواد کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ یہ معمول سے زیادہ ہو تو بچہ ڈاؤن سینڈروم اور امراض قلب کا شکار ہو سکتا ہے۔
اسی طرح حرام مغز کے مسائل (مثلاً کمر میں پھوڑے)، بچے کا سر معمول سے چھوٹا یا بڑا ہونا یا اس کے اندر پانی جمع ہونا جیسے مسائل کی تشخیص الٹرا ساؤنڈ سے ہو جاتی ہے۔ بچے میں امراض قلب کی تشخیص ہو تو زچگی ایسے ہسپتال میں ہونی چاہیے جہاں بچوں کا کارڈیئک سرجن موجود ہو۔ اس کے علاوہ خون کے ٹیسٹوں سے انفیکشن کا پتا لگایا جا سکتا ہے۔
حاملہ خاتون روبیلا اور خسرہ کی شکار ہو تو بچوں کی سماعت اور بصارت متاثر ہو سکتی ہے یا کوئی دوسرا نقص ضرور ہوتا ہے۔ ان امراض کی پیچیدگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں 9 ماہ سے 15 سال کے بچوں کی ویکسی نیشن مہم بھی چلائی گئی۔ اس دوران کئی والدین نے آگہی نہ ہونے اور بے جا تحفظات کے باعث بچوں کی ویکسی نیشن سے انکار کر دیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صحت کے بارے میں آگہی کس قدر ضروری ہے۔
پیدائشی نقائص کے امکانات کو کیسے کم کریں
٭ حاملہ خواتین ڈاکٹر کو اپنی میڈیکل ہسٹری ضرور بتائیں۔
٭ خاندان میں شادیوں کے تسلسل سے پیدائشی امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے لہٰذا ان سے ممکنہ حد تک اجتناب کریں۔
٭ شادی سے قبل مرد اور خاتون تھیلیسیمیا کا تشخیصی ٹیسٹ کروائیں۔ یہ مثبت آئے تو ان کے مریض آپس میں شادیاں نہ کریں یا حمل سے اجتناب کریں۔ اگر وہ ٹھہر جائے تو 140 دنوں سے پہلے اسقاط حمل کو جائز قرار دیا گیا ہے۔ یہ فتویٰ جامعہ دارالعلوم کراچی کے مفتی محمد تقی عثمانی کی جانب سے دیا گیا ہے۔
٭ حاملہ خواتین شراب نوشی اور تمباکو نوشی سے گریز کریں۔ اس جگہ سے بھی دور رہیں جہاں سگریٹ پیا جا رہا ہو۔
٭ ایچ بی الیکٹروفوریسز (hemoglobin electrophoresis) ٹیسٹ کروائیں۔ خاتون کا یہ ٹیسٹ مثبت آئے تو شوہر بھی کروائے۔ یہ شادی سے قبل ہونا چاہیے تاہم اگر کسی نے نہیں کروایا تو حمل سے پہلے لازمی کروائے۔
٭ حمل ٹھہرنے سے تین ماہ قبل فولک ایسڈ لینا شروع کر دیں۔ یہ آسان اور نسبتاً کم قیمت پر دستیاب سپلیمنٹ رحم مادر میں بچوں کی نشوونما کے لیے ضروری ہے۔
٭ پہلے سے ذیابیطس کی شکار خواتین حمل ٹھہرنے سے تین ماہ قبل اپنی شوگر کو قابو کریں اور اس دوران بھی خیال رکھیں۔
٭ روبیلا، جرمن خسرہ اور کن پیڑے کی ویکسین (MMR) نہیں لگوائی تو فوری طور پر لگوائیں۔ ویکسین لگوانے اور حمل ٹھہرنے میں تین ماہ کا وقفہ ہونا چاہیے۔ کوئی خاتون اس کے بغیر حاملہ ہو جائے تو پھر زچگی کے بعد بچے کو دودھ پلائے اور پھر ویکسین لگوائے۔

خوراک کے حوالے سے احتیاطیں
٭ حمل میں کچھ خاص قسم کی مچھلیوں اور آدھے یا کم پکے ہوئے کھانوں مثلاً سٹیک (steak)سے پرہیز کریں۔
٭ اپنی خوراک میں فولک ایسڈ شامل کریں۔ فولک ایسڈ نیورل ٹیوب میں نقص پیدا ہونے سے بچاتا ہے۔ یہ سبز پتوں والی سبزیوں اور گائے کی کلیجی میں پایا جاتا ہے۔ دوران حمل اس کے لیے سپلیمنٹ بھی تجویز کیے جاتے ہیں۔
٭ آئرن تھیلیسیمیا سے بچاؤ میں مدد دے گا۔ اسے گوشت، دالوں اور سبزیوں سے لیا جا سکتا ہے۔ سبزیوں اور گوشت کو ملا کر کھائیں۔
٭ کیلشیم اعصاب، پٹھوں اور دل کی نشوونما میں مدد دیتا ہے۔ یہ دودھ اور دودھ سے بنی اشیاء، خشک میوہ جات (مثلاً بادام) اور تخم بالنگا سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
٭ پروٹین بچے کے خلیوں اور اعضاء کی نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ گوشت میں نسبتاً معیاری پروٹین پائی جاتی ہے تاہم اسے دالوں سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
اس صورت حال کا سامنا ہو تو میاں بیوی ایک دوسرے کا سہارا بنیں۔ ایسے تصورات بھی پائے جاتے ہیں کہ بچوں میں پیدائشی نقائص کا سبب والدین کا گناہگار ہونا ہے۔ ایسے لوگوں کی منفی، بے بنیاد اور جلی کٹی باتوں پر دھیان نہ دیں۔ ان معاشرتی رویوں کو بدلنے میں سب کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہیے۔