Vinkmag ad

والدین آنکھیں کھلی رکھیں… بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی

زیرنظر مضمون میں جس اہم موضوع پر بات کرنے لگاہوں ‘وہ ایک ایسی برائی ہے جو دنیا کے ہر معاشرے میں بڑے پیمانے پر پائی جاتی ہے۔تاہم مخصوص معاشرتی اقدارکی وجہ سے اس پر کھُل کر بات نہیں کی جاتی ۔میری مراد بچوں کے ساتھ جنسی بدفعلی سے ہے۔ یہ ایک مشکل موضوع ہے جس پر بات چیت کرناعار سمجھا جاتا ہے، تاہم یہ کام اتنا ہی ضروری بھی ہے ۔ریٹائرڈ سرجن
ڈاکٹر عبدالرحمٰن صاحبزادہ کی ایک چشم کشا تحریر

چند ماہ قبل بلھے شاہ کی دھرتی قصور سے بچوں کے ساتھ زیادتی کی خبروں نے ملک کے طول و عرض میں لوگوں کے دل دہلادئیے۔یہ معاملات ایک ایسے ملک میں پیش آئے جہاں بظاہر اسلامی اقدار کا بہت احترام پایا جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ صورت حال صرف قصور تک محدود نہیں بلکہ ملک کے کونے کونے میں ایسے اندوہناک واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ایسے معصوم ومظلوم بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا‘ اس لئے کہ وہ اس کا کسی سے ذکر نہیں کرتے۔ اور اگر واقعہ بڑوں یا والدین کے سامنے آ بھی جائے تو بدنامی اور رسوائی کے ڈر سے اُسے دبادیاجاتا ہے۔
اگرچہ قصور سے ان خبروں کے پھیلنے کے بعد کئی تجزیہ کاروں نے اس موضوع پربات چیت اور بحث کی لیکن اُن کے طرز عمل سے صاف ظاہر ہورہاتھا کہ وہ بھی جھجک محسوس کرتے ہیں اورکھل کر بات نہیں کر تے۔یہ ایک مشکل موضوع ہے جس پر بات چیت کرنا اور لکھنا عار سمجھا جاتا ہے، تاہم یہ کام اتنا ہی ضروری بھی ہے ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ پالتو جانوروں کے نومولود بچے بہت محدود مدت کے لئے اپنی ماں کی نگرانی کے محتاج ہوتے ہیں۔وہ ان کی حفاظت کرتی ہے اور شروع شروع میں انہیں اپنادودھ پلاتی ہے۔ان کے بچے چند ہی دنوں میں چلنے پھرنے کے قابل ہوجاتے ہیں جس کے بعد وہ انہیں آزاد چھوڑ دیتی ہے ۔جانوروں کے مقابلے میں انسان کا بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کی ساری ضروریات اور لوازمات کا مکمل انحصار بہت لمبے عرصے تک ماں باپ پررہتا ہے۔انہیں پورا کرنا ایک محنت طلب اور مشکل کام ہے ۔ اگر ماں کے دل میںممتااور باپ کے دل میں شفقت کا جذبہ بدرجہ اتم نہ ہوتا تو لوگ اس اہم ذمہ داری سے کنی کتراتے ۔
ایک طرف بچوں کی جسمانی صحت اور زندگی کی نشوونما کے لئے بہت محنت کی ضرورت ہوتی ہے تو دوسری طرف ان کی نفسیاتی اور روحانی صحت کی طرف بھی پوری تندہی سے توجہ لازمی ہوتی ہے۔اس میں بچوں کی جنسی رہنمائی کا معاملہ بھی بہت نازک اور اہم ہے ۔کچھ والدین اس معاملے میںغفلت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ نتیجتاً ان کے بچے انجانے خطرات میں گھر جاتے ہیں اور بلوغت میں قدم رکھنے کے بعد غلط طرزز ندگی اختیارکرلیتے ہیں۔
چھوٹے بچے چونکہ جنسی معاملات سے بے خبر ہوتے ہیں‘ اس لیے بعض بڑے انہیں ورغلا اور ڈرا دھمکا کر اپنی ہوس کا نشانہ بنالیتے ہیں۔ ایسے افراد زیادہ تر مرد اور بڑی عمر کے لڑکے ہی ہوتے ہیں لیکن عورتیںبھی اس میں ملوث پائی گئی ہیں۔اس لئے گھر کے بڑے اور والدین ہونے کی حیثیت سے ہم پر لازم ہے کہ بچوں کی کڑی نگرانی کریں اور اُنہیں کسی کی ہوس کا شکار نہ ہونے دیں۔
بچوں پر بری نظر رکھنے والے افراد وہ تمام حربے استعمال کرتے ہیں جن کی مدد سے وہ انہیں اپنی طرف مائل کرسکیں۔ وہ انہیں ٹافیوں اور مٹھائیوں کا لالچ دیتے ہیں‘روپے پیسے کی سخاوت دکھاتے ہیںاور اچھے کھلونوں‘کپڑوں اور کھانوںسے نوازتے ہیں۔وہ انہیں ضرورت سے زیادہ اپنی توجہ کا مرکز بنالیتے ہیں ۔یہ افراد کسی نہ کسی بہانے سے بچے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں ۔وہ انہیں کبھی پارک میں گھمانے پھرانے کیلئے لے جاتے ہیں تو کبھی میچ یا فلم دیکھنے کی دعوت دےتے ہیں۔ میلے ٹھیلے یا نمائش کا موقع ہو تو وہاں جانے پربھی مصر ہوتے ہیں۔وہ والدین اور گھر کے دیگرافراد کے ساتھ گہرے تعلقات استوار کر لیتے ہیں تاکہ انہیں اس خاص بچے کا قرب حاصل ہو اور خاندان کے افراد انہیں اجنبی نہ سمجھیں۔ اکثر جنسی شکاری‘بچوں کے ساتھ پیار‘ ہمدردی اور نرمی سے پیش آتے ہیں۔ وہ انہیں کسی قسم کا درد یا اذیت دینے سے گریز کرتے ہیں تاکہ بچہ گھبراکر بھڑک نہ اٹھے ۔
ہمارے جسم کے درمیانے حصے میں کئی ایسی جگہیں ہیں جنہیں آرام سے چھونے یاسہلانے سے جنسی لذت محسوس ہوتی ہے۔یہ لوگ بچوں کے پرائیویٹ اعضا کے ساتھ کھیلتے ہیں۔وہ اپنے آپ کو ننگا کرکے بچوں کے تجسس کو مزید بھڑکاتے ہیں اورانہیں شہوت انگیز تصویریں اور فلمیں دکھاتے ہیں۔میں نے بحیثیت ڈاکٹر چند ایسے بچوں سے سوال کیا کہ انہوں نے زیادتی کرنے والے افراد کے ساتھ تعاون کیوں کیا اور اپنے بڑوں کو بتایا کیوں نہیں‘تواُن کا جواب تھا کہ اس سہلانے میں انہیں لذت محسوس ہوتی تھی۔
بعض افراد نے انہیں دھمکیاں دیں کہ اگر انہوں نے کسی پر یہ راز فاش کردیاتو اُن کی خیر نہیں ہوگی۔ بعض اوقات وہ مظلوم بچوں ہی کو موردالزام قراردے دیتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ اگر انہوں نے کسی کو بتایا تو ہم کہیںگے کہ یہ سارا عمل انہی کے اُکسانے اور اصرارپر شروع ہوا ۔ ایسے میں بچے والدین کو کچھ نہیں بتاتے اور اگر بتائیں تو بہت سی صورتوں میں والدین ان پر اعتماد نہیں کرتے اور انہیں کو موردالزام ٹھہراتے ہیں۔
امریکہ اور مغربی ممالک میں طلاق کا تناسب 50فی صد سے بھی تجاوز کرگیا ہے اور بدقسمتی سے ہمارے ہاں بھی اس کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ مطلقہ خواتین اپنے بچوں کے ہمراہ جب دوبارہ شادی کرکے نئے شوہر کے ساتھ رہنے لگتی ہیں توان کے بچوں کو سوتیلے افراد سے واسطہ پڑنے لگتا ہے۔ان کے ہاتھوں بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔
یاد رکھیں کہ جنسی زیادتیاں کرنے والوں میں قریبی دوست اور رشتہ داریہاں تک کہ والدین‘ماموں‘چچا‘ پھوپھیاں اورخالائیں بھی ملوث ہو سکتی ہیں ۔یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں میں اجنبی افراد بمشکل 10سے 15فی صد ہوتے ہیں جبکہ 80سے90فی صد صورتوں میں بچہ انہیں اچھی طرح سے جانتا ہوتاہے۔ان میں شادی شدہ‘ غیر شادی شدہ اور مطلقہ کی کوئی تمیز نہیں۔ دین دار اور دنیا دار‘ دونوں طرح کے افراد اس میں ملوث پائے گئے ہیں۔
کسی کے چہرے کو دیکھ کر یہ معلوم نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ایسا کر سکتاہے یا نہیں‘ اس لئے کہ دلوں کے حال صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ ہمیں چاہئے کہ چوکنے رہیں اور متوازن طریقے سے حالات کا جائزہ لیتے رہیں۔ ہر ایک کو قدرے شک کی نگاہ سے دیکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اس شک وشبہے کو حد سے بڑھنے بھی نہ دیں‘ اس لئے کہ اس کی الگ سے خرابیاں ہیں۔
آخر میں یہی کہناچاہوں گا کہ بچوںکے ساتھ جنسی بدفعلی ایک زندہ حقیقت ہے جو کہ ہر ملک اور معاشرے میں پائی جاتی ہے۔اس سے نہ تو درس گاہیں اور سکول محفوظ ہیں اور نہ ہی مندر‘مساجد اور کلیسا بچے ہوئے ہیں۔ بچوں کو ابتدائی سالوں میں تربیت کے لئے گہری نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔جس طرح جنگل یا سمندر میں جنگلی جانور اور مچھلیاں اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھ کر انہیں شکاریوں سے محفوظ رکھتی ہیں‘ اسی طرح ہم انسانوں کا بھی فرض ہے کہ اپنے بچوں کو کسی شکاری کی جنسی ہوس کا شکار نہ بننے دیں۔یہیبچے ہمارے ملک اور قوم کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ انہیں اچھے طریقے سے پروان چڑھانا ہمارا اہم ترین فریضہ ہے۔


Vinkmag ad

Read Previous

صحت مند بالوں کے راز

Read Next

اورنج فرنچ ٹوسٹ

Leave a Reply

Most Popular