Vinkmag ad

قدرت کی قدرت جانے …

زندگی میں بہت سے واقعات بظاہر اتفاقات نظر آتے ہیں لیکن وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو ان کے پیچھے قدرت کی ایک خاص حکمت اور منصوبہ بندی محسوس ہوتی ہے۔بسا اوقات زندگی ایک ڈرامہ لگتی ہے جس میں ہمیں مخصوص کردار سونپے گئے ہیں اور اکثر صورتوں میں ان پر ہمارا کنٹرول نہیں ہوتا۔ ریٹائرڈ سرجن ڈاکٹر عبدالرحمٰن صاحبزادہ کی ایک دلچسپ تحریر


ولیم (فرضی نام) میرا دوست بھی تھا اور مریض بھی۔ وہ میرے پاس مختلف طبی مسائل کے علاج کے لئے آیا کرتا تھا ۔ بائیں آنکھ کا ایک عارضہ اس کے لئے بہت عرصے سے تکلیف اور پریشانی کا سبب بنا ہوا تھا۔ میں نے اُسے امریکی ریاست ایلاباما کے شہر جیسپر (Jasper) سے 40میل دور ایک بڑی یونیورسٹی سے ملحق میڈیکل کالج کے ایک پروفیسر ڈاکٹر کے پاس بھیج دیا۔ یہ یونیورسٹی ریاست کے سب سے بڑے شہر برمنگھم (یہ کئی امریکی ریاستوں کے شہروں کانام ہے) میں واقع ہے۔
علاج کے باوجود ولیم کی آنکھ میں تکلیف بڑھتی گئی اور آخرکار اس کا شفاف حصہ جسے قرنیہ (cornea) یا پردہ چشم کہتے ہیں، دُھندلاپڑگیا۔ اس کا علاج نئے قرنیہ کی پیوندکاری سے ہی ممکن تھا۔اس طرح کی پیوند کاریاں بہت عرصے سے اورکامیابی سے کی جارہی ہیں لیکن دنیا بھر میں اس کی مانگ بہت زیادہ ہے۔ اس لئے بہت سے مریضوں کوڈونرز کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور صورت حال ’ایک انار، سوبیمار‘ کی سی رہتی ہے۔ عطیہ دہندگان بالعموم ایسے جواں سال افراد ہوتے ہیں جن کا کسی حادثے میں انتقال ہو چکا ہوتا ہے اور انہوں نے اپناقرنیہ عطیہ کرنے کی وصیت کر رکھی ہوتی ہے۔
ولیم کوجب ویٹنگ لسٹ پر ڈالاگیا تو اُس نے فون پرمجھے یہ خوشخبری سنائی کہ اس کی باری جلد آنے والی ہے۔ پھر وہ گھڑی آن پہنچی جب ڈاکٹر کی سیکرٹری نے ولیم کو فون پر بتادیا کہ وہ تیار رہے، اس لئے کہ اسے کسی بھی وقت ہسپتال میں آپریشن کے لئے بلایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق اُسے برمنگھم یااس کے قریب ہی رہنا تھا تاکہ بلاوے کی صورت میں وقت ضائع نہ ہو، ورنہ وہ اپنی باری کھوبیٹھے گا۔اس کی گفتگو میں گرمجوشی صاف جھلکتی تھی ۔میں بھی اپنے دوست اور مریض کی نابینا آنکھ میں روشنی اور دیکھنے کی صلاحیت لوٹ آنے کا متمنی تھا۔
میں نے جب فون کا ریسیوررکھا تو میرے دل میں متضاد قسم کے خیالات اور احساسات جنم لینے لگے۔ مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ ولیم ایک بار پھر دونوں آنکھوں سے دیکھنے لگے گا۔ دونوں آنکھوں کا ایک جیسا فعال ہونا گہرائی اور فاصلے کا اندازہ لگانے میں اہم کردارادا کرتا ہے۔ اسے ہم مجسمی بصارت (stereoscopic vision) کہتے ہیں جس میں ہمیں چیزیں تین اطراف (three dimensions) یعنی لمبائی، چوڑائی اور گہرائی میںنظر آتی ہیں۔ اگر صرف دیکھنے کی بات ہو تو اس کے لئے ایک ہی آنکھ کافی ہوتی ہے جونابینا پن سے بہرحال کئی گنابہتر ہے۔ شاید اسی لئے اندھوں میں کانا، راجہ تصور ہوتا ہے۔
فلموں میں پردہ سکرین پر جو تصویریں ہم دیکھتے ہیں، وہ ہموار سطح پر پیش کی جاتی ہیں لیکن ہمارا دماغ ہمیں وہ ’تھری ڈی‘ کے طور پر دکھاتا ہے۔ اگرہم سینما ہال میں بیٹھے تھری ڈی فلم دیکھ رہے ہوں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم خود بھی فلم کے سین کا حصہ ہیں۔ اس مثال سے مجسمی بصارت کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مجھے ایک طرف یہ یقین تھا کہ ولیم کی سرجری کامیاب رہے گی تو دوسری طرف قرنیہ کے عطیہ دہندہ کے بارے میں بھی فکرکھائے جا رہی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ وہ بیچارہ، اپنی ماں کی آنکھوں کا تارا یا خاندان کا کوئی اہم فرد ہوگا۔ وہ جیتا جاگتا‘پوری طرح سے صحت مند اورچلتا پھرتا ہوگا کہ اچانک کسی حادثے کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ اس کی موت سے میرے مریض اور دوست ولیم اپنی آنکھوں کی روشنی حاصل کرے گا۔ ڈاکٹروں اور سرجنوںکے لئے یہ معمول کی بات ہوتی ہے لیکن نہ جانے کیوں اس وقت یہ خیال اوراحساس میرے دل و دماغ میں چپک کر رہ گیا۔ میری کیفیت کچھ عجیب سی تھی اوراُس رات ان احساسات کی وجہ سے مجھے دیر تک نیند نہ آسکی۔
دنیا بھرکی طرح امریکہ میں بھی ٹریفک کے حادثات ہرروز ہوتے ہیں لیکن اختتام ہفتہ پر اُن کی شرح میں اضافہ ہوجاتاہے۔ اگر اس کے ساتھ ایک چھٹی اورشامل ہو جائے تو حادثات بھی مزید بڑھ جاتے ہیں اورسینکڑوں افراد اپنی جانیں کھوبیٹھتے ہیں یا بُری طرح زخمی ہوجاتے ہیں۔ اس کا سبب ایسے مواقع پر ٹریفک کا بہت زیادہ بڑھ جانا ہے۔ بعض لوگ نشے کی حالت میں گاڑیاں چلاتے ہیں جو حادثات کا باعث بنتا ہے۔ ولیم کو ’میموریل ڈے وِیک اینڈ‘ پر ویٹنگ لسٹ میں ڈالاگیا تھا۔ امریکہ میں ہر سال یہ دن، مئی کے آخری سوموار کوان لوگوں کی یاد میں قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے جنہوں نے مسلح افواج میں سروس کے دوران وفات پائی ہو۔
اتوار کی صبح 10 بجے ولیم کے گھر فون کی گھنٹی بجی۔ کال ہسپتال سے ہی تھی جس کا اسے شدت سے انتظارتھا۔اسے بتایا گیا کہ قرنیہ کا انتظام ہو گیا ہے۔ یہ ایک 24سالہ نوجوان کا تھا جس نے ہفتے اور اتوار کی درمیانی رات اپنے دوستوں کے ساتھ پارٹی میں گزاری تھی۔ اس نے بیئر کے کئی جام خالی کئے تھے اور نشے کی حالت میں گھر واپس لوٹ رہا تھا کہ اس کی گاڑی ایک درخت سے ٹکراگئی۔ اُسے گہری اورشدید چوٹیں آئیں۔ تقریباً تین گھنٹے پہلے اسے ایمرجنسی رُوم میں لایاگیاتھا۔ڈاکٹروں نے اُسے بچانے کی بھرپور کوششیں کیں لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لا کر جاں بحق ہوگیا۔ ایسی کہانیاں امریکی معاشرے میں بہت عام ہیںاور ویک اینڈز پر ان میں خاصا اضافہ ہو جاتا ہے۔
جواں سال مریض کی موت کے بعد اس کے لواحقین نے قرنیہ عطیہ کرنے پر رضامندی ظاہر کردی۔ ولیم کا مسئلہ حل ہوچکا تھا اور اس کی دیرینہ خواہش پوری ہونے کو تھی۔ وہ ہسپتال پہنچا اور اگلے دوگھنٹوں کے دوران اُس کا آپریشن ہوگیا۔ جب وہ ہوش میں آیا تو اس کی بیوی اس کے سرہانے کرسی پر بیٹھی تھی۔ ولیم کی بائیں آنکھ اور چہرے کے ایک طرف دبیز پٹی بندھی ہوئی تھی۔ اگلے دن اسے ہسپتال سے ڈسچارج کردیاگیا۔
آپریشن کے بعد ولیم اپنے ماہر امراض چشم کے زیر علاج رہااور اس کی بحالی صحت معمول کے مطابق ہوئی۔ اس کے بعد اس کی بینائی بتدریج بہتر ہوتی گئی اور تین ماہ کے بعد عینکوں کی مدد سے اس کی یہ آنکھ، دوسری آنکھ کی طرح نارمل حالت میں آچکی تھی۔
بظاہر یہ ایک معمول کا واقعہ ہے لیکن اس نے میرے دل میں کچھ عجیب سے احساسات اور جذبات پیدا کئے تھے جو بحیثیت سرجن میرے لئے نیا تجربہ تھا۔ ولیم کا لاشعوری طور پر کسی کے مرنے کا انتظارکرنا جس کے قرنیہ کو وہ استعمال کر سکے، کوئی معمولی بات نہ تھی۔ کار کا حادثہ ڈونر کی اپنی لاپرواہی کی بنا پر ہوا تھا اور اس میں ولیم کا کوئی قصور نہ تھا، تاہم اس کی غلطی اور نتیجتاًاس حادثے کی وجہ سے ایک اور شخص کی آنکھ کی بینائی بحال ہوگئی۔ قدرت کے کھیل بھی نرالے ہیں۔
مجھے جواں سال موت کا بہت دُکھ ہوا اور اس کے لواحقین سے غائبانہ طور پر دلی ہمدردی بھی تھی۔زندگی بھی ایک عجیب ڈرامہ ہے جس میں ہم انسان اداکاروں کی طرح اپنے وہ کردار ادا کرتے چلے جاتے ہیں جن پر ہمارا کنٹرول نہیں ہوتا۔ابراہیم ذوق کا ایک شعر ہے:
لائی حیات آئے، قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے
پاکستان میں اکثر سڑکیں خراب اور ٹریفک خطرناک ہے۔ انسانی زندگی بہت قیمتی ہے۔اس لئے جب بھی سفر کا معاملہ ہو،آپ خواہ پیدل ہوں یا سوار،سائیکل پر ہوںیا موٹرسائیکل پر یا کار میں، محتاط انداز سے چلیں۔خداسب کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔ (آمین)

Vinkmag ad

Read Previous

زیکا وائرس حقیقت کم ‘فسانہ زیادہ

Read Next

ٹیکنالوجی کا جن

Leave a Reply

Most Popular