Vinkmag ad

زیکا وائرس حقیقت کم ‘فسانہ زیادہ

سوائن فلو کے بعد ’زیکا وائرس‘ سے متعلق خبریں بھی سنسنی خیز انداز میں اور مرچ مسالے لگا کر شائع کی جارہی ہیں۔ ان میں کہیں تھوڑی بہت حقیقت بھی ہے اور کہیں دُور کو کوڑیاں لا کر لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ زیکا وائرس کیا ہے، کیسے پھیلتا ہے اور اس کی پیچیدگیوں کی کہانیوں میں کتنی حقیقت ہے اور کہاں محض زیب داستاں کے لئے مبالغہ آمیزی سے کام لیا گیا ہے؟دیکھئے باچا خان میڈیکل کمپلیکس صوابی کے ماہر متعدی امراض اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹرامجد محبوب سے گفتگو کی روشنی میں تحریر کردہ اس مضمون میں


مچھر بظاہر ایک چھوٹی سی مخلوق ہے لیکن اس نے تاریخ کے مختلف ادوار میں بڑے بڑوں کے ناک میں دم کئے رکھا ہے ۔چند سال قبل اس کی ایک قسم ’ڈینگی‘ نے پاکستان میں بحرانی صورت حال پیدا کردی تھی ۔ آج کل برازیل سے نمودار ہونے والے ’زیکا وائرس‘ کے حامل مچھروں کی دہشت دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے اور اس کے ساتھ بہت سے سچے جھوٹے تصورات وابستہ کئے جارہے ہیں ۔
تاریخی تناظرمیں
یہ وائرس سب سے پہلے1947ءمیں یوگنڈا میں تشخیص ہوا۔ اس وقت ماہرین زرد بخار پر تحقیق کے تناظرمیں یوگنڈا کے ’زیکا ‘نامی جنگل میں بندروں پر تجربات کر رہے تھے کہ حادثاتی طور پریہ وائرس دریافت ہوگیا۔اس جنگل کے نام پر اس وائرس کا نام ’زیکا وائرس‘ رکھا گیا۔ انسانوں میں اس کی شناخت سب سے پہلے 1952ءمیں یوگنڈا اور پھر تنزانیہ میں ہوئی۔

zika
پاکستان میں 1977ءمیں ایک سٹڈی ہوئی جس کا مقصد یہاں پائے جانے والے وائرسوں کی شناخت کرنا تھا ۔لیبارٹری ٹیسٹوں میں جانوروں اور انسانوں کے خون میں ایسی اینٹی باڈیز سامنے آئیں جو زیکاوائرس کے ردعمل میں پیدا ہوئی تھیں۔یہ سٹڈی 1983ءمیں باقاعدہ شائع بھی کی گئی ۔ہمارے ہاں اخبارات میں یہ بات شائع ہوئی ہے کہ پاکستان میں زیکاوائرس کے شواہد نہیں ملے حالانکہ سائنسی اعتبار سے یہ بیان حقائق کے منافی ہے۔ اگر یہ وائرس یہاں بیماری پیدا نہیں کر سکا تواس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہاں اس کے خلاف قوت مدافعت موجود ہے ۔1977ءمیں بھارت، انڈونیشیاءاور ملائشیاءمیں بھی سٹڈیز ہوئیں جن سے معلوم ہوا کہ یہ وائرس ان ممالک میں بھی بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا ہے ۔اس کے بعد طویل عرصے تک خاموشی رہی اور 2007ءمیں چھوٹے پیمانے پر اس نے وبا ءکی صورت اختیار کی ۔ اس کا پہلا کیس مائیکرونیشیا (Micronesia) میں ظاہر ہوا جس کے بعد یہ فرنچ (French Polynesia)میں بھی پھیل گیا۔مئی 2015ءمیں اس نے برازیل میں سر اٹھایااور آج کل دنیا بھر کے میڈیا میں اس کا بہت چرچا ہے ۔
مرض کی علامات
یہ انفیکشن 14سے16اقسام کے مچھروں سے ہو سکتا ہے تاہم ان میں زیادہ معروف ایڈیز ایجپٹائی(aedes aegypti) ہے ۔یہ مچھر کئی قسم کے وائرسوں کے پھیلاﺅ کا سبب بنتا ہے جن میں ہمارے ہاں بد نام زمانہ ڈینگی وائرس بھی شامل ہے ۔
زیکا بخار ایک وائرل انفیکشن ہے جس کی علامات معمولی نوعیت کی ہیں۔اس میںجلد پر دھپڑ سے نمودارہوتے ہیں اور ہلکا سا بخار ہوتا ہے ۔چونکہ اس وائرس کی علامات بہت ہلکی پھلکی ہوتی ہیں لہٰذا اس کی تشخیص کی طرف لوگ کم جاتے ہیں۔ برازیل میں بھی جب اس مرض کی علامات نمودار ہوئیں تو باقی وائرسز سے متعلق ٹیسٹ کئے گئے جو نارمل آئے۔ آخر میں انہوںنے زیکاٹیسٹ کیا تو یہ پازیٹو آگیا۔
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جن علاقوں میں ڈینگی یا مچھر کی پھیلائی گئی دیگر بیماریاں موجود ہوں، ان میں کسی فردمیں یہ علامات نمودار ہوں تو ایک امکان یہ بھی ہے کہ اس میں زیکا وائرس موجود ہو۔اس وقت پاکستان میں اس ٹیسٹ کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایسے میں سیمپل این آئی ایچ(اسلام آباد) بھیجا جاتا ہے جو اپنے ذرائع سے اسے ٹیسٹ کرواتا ہے ۔
کیاپیچیدگیاں حقیقی ہیں
ڈینگی کے برعکس زیکابخار میں شدید قسم کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں ۔ یہ وائرس تقریباًہفتے بھرزندہ رہنے کے بعد غیر موثر ہوجاتا ہے اوراگر10یا11دن بعد خون کا ٹیسٹ کیا جائے تو اس میں اس کے خلاف اینٹی باڈیز تو ملیں گی لیکن وائرس ختم ہو چکا ہو گا۔
زیکا وائرس نے برازیل میں ہزارہا لوگوں کو متاثر کیا ہے لیکن وہاں ابھی تک صرف تین اموات کا تعلق اس کے ساتھ بتایا گیاہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ جان لیوا بیماری نہیں ہے ۔اس مرض کی وجہ سے پیداشدہ جن دوپیچیدگیوں کا بہت ذکر کیا جارہا ہے ان میں سے ایک ’مائیکرو سی فیلی‘(microcephaly) اور دوسری’ گولین بارے سینڈروم‘ (Guillain-Barré syndrome) ہے۔
’مائیکرو سی فیلی‘ میں دوران حمل بچوں کے دماغ کی نشوونما ٹھیک طرح سے نہیں ہو پاتی جس کی وجہ سے ان کے سر چھوٹے رہ جاتے ہیں۔ پاکستان میں اس کی مثال وہ لوگ ہیں جنہیں ’شاہ دولے‘ کہا جاتا ہے ۔’گولین بارے سینڈروم‘ میں بازوﺅں اور ٹانگوں میں کمزوری آ جاتی ہے اور صورت حال بعض اوقات اتنی شدید ہو جاتی ہے کہ مریض کو وینٹی لیٹر پر ڈالنے کی ضرورت پڑجاتی ہے ۔
زیکابخار کا سبب بننے والے وائرسوں کے گروپ کے ایک اور وائرس ویسٹ نائل (West Nile Virus) کو بھی شروع میں بہت ہلکا سمجھا گیا اوربہت بعد میں علم ہوا کہ اس کی پیچیدگیاں شدید نوعیت کی ہیں۔اس لئے ہم نہیں جانتے کہ کل زیکاوائرس کی کون کون سی پیچیدگیاں نمودار ہو جائیں گی لیکن آج کی بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا دونوں پیچیدگیوں کا زیکا سے تعلق ہوناسائنسی طور پرثابت نہیں ہے ۔ جوڑوں میں درد کو بھی اس کی ایک وجہ بتایا جا رہا ہے حالانکہ اس کا تعلق بھی ایک اور مرض چِکن گنیا (Chikungunya) سے ہے ۔ اگرچہ پیچیدگیاں جس علاقے میں پیدا ہوئیں، وہاں زیکا وائرس بھی موجود تھا لیکن ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ان کا سبب وہ وائرس تھا۔
زیکا کے بارے میںخوف کی بڑی وجہ میڈیا ہے جوغیرمصدقہ انفارمیشن پھیلا رہا ہے ۔جن لوگوں کو معاملے کی سائنسی سمجھ بوجھ نہیں، وہ اپنی دلچسپی کی چیزیں اٹھاتے اور پھر انہیں سنسنی خیز انداز میں پیش کردیتے ہیں۔برازیل اور امریکہ میں اس سے خوف کا سبب یہ ہے کہ وہاں لوگوںکے جسموں میں اس کے خلاف قوت مدافعت نہیں تھی لہٰذا وہ اس کے شکار ہو گئے ۔ہمارے ہاں یہ وائرس موجود ہے لیکن یہ مرض نہیں پھیلا ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ چونکہ یہ وائرس ڈینگی بخار پھیلانے والے مچھر کی وجہ سے پھیلتا ہے لہٰذا یہاں لوگوں میں اس کے خلاف قوت مدافعت موجود ہے ۔
حفاظی تدابیر
زیکا وائرس اگرچہ بہت پرانا ہے لیکن چونکہ اس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر بیماریاں نہیں پھیلیں، اس لئے اس کے خلاف ویکسین یا ادویات دستیاب نہیں ہیں ۔اس لئے اس سے بچاﺅ کی سب سے موثر صورت اس کا سبب بننے والے عامل یعنی مچھر پر کنٹرول ہے ۔
ڈینگی سے بچاﺅ کے لئے جو اقدامات کئے جاتے ہیں، وہی زیکا کے خلاف بھی موثرہیں۔یہ اقدامات دو سطحوں پر کئے جانے ضروری ہیں ۔ان میں سے پہلا ماحول کا تحفظ ہے جس میں حکومت ، کمیونٹی اور اداروں کا کردار زیادہ اہم ہے۔دوسری سطح پر ہمیں اپنے آپ کو اس مچھر سے بچانا ہے ۔اس کے لئے ہمیں چاہئے کہ دروازوں اور کھڑکیوں پر جالیاں لگوائیں، گھر کے اندر اور باہر پانی مت جمع ہونے دیں ،مکمل بازوﺅں والی قمیص پہنیں اور مچھردانیاں یا مچھر بھگانے والے لوشن استعما ل کریں۔حکومتیں اپنی سطح پر کام کریں اور لوگوں کو اپنی سطح پر کام کرناچاہئے ۔ ( م ز ا)

Vinkmag ad

Read Previous

ذہنی دباو‘ کیسے بچیں

Read Next

قدرت کی قدرت جانے …

Leave a Reply

Most Popular