Vinkmag ad

المیوں کا المیہ

1200سے زائد افراد کا دو ہفتوں میں جاں بحق ہوجانا چھوٹا سانحہ نہیں ہے ۔گرمی کی قاتل لہر سے سندھ کے مختلف علاقوں اور خاص طور پر کراچی میں مرنے والے فقط ایک عددنہیں تھے ۔یہ افراد کسی کے ماں باپ‘ دادا دادی یا پھر کسی کے بچے تھے۔یہ جیون ساتھی ، روزی روٹی کمانے والے، کہانیاں سنانے والے اور دوست تھے۔یہ وہ فنکار تھے جوزندگی کہلائے جانے والے سیٹ پر مختلف کردار ادا کررہے تھے ۔اب یہ لوگ نہیں رہے اور وہ کردار بھی جو یہ لوگ نبھا رہے تھے۔ان کے ساتھ ان سے متعلقہ کاسٹ کی آرزوئیں بھی مرگئی ہیں۔اب بہت سارے ڈرامے اپنی تکمیل نہیں دیکھ پائیں گے۔بہت ساری کہانیاں ایک اہم کردار کے مرجانے کے بعد دوبارہ لکھی اور ترتیب دی جائیں گی۔سو یہ ہے وہ سفر جو دو سنگ میلوں یعنی زندگی اور موت پر مشتمل ہے۔ جو شخص اس دنیا میں آیا‘ اسے ایک دن مرناہے۔ممکن ہے کہ کسی کی موت اس کے پس ماندگان کے لیے شاید موت سے بھی بڑھ کر کوئی چیز ہو، تاہم زندگی کا سفر جاری رہتا ہے اور کوئی اور آکر ان کا خلاء پر کردیتا ہے، کسی اور لمحے میں ایک اور خلا پیدا کرنے کیلئے۔یہ ہے زندگی! کبھی نہیں رکتی اور اس کا سفر جاری رہتا ہے۔
زندگی سے متعلق اس تلخ حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ تاہم زندگی کے کچھ مخصوص اہداف کے حصول کیلئے اس کے اس خاص وصف کے حوالے سے دو طرح کے نقطہ نظر موجود ہیں۔ مہذب اور روشن خیال معاشروں میں زندگی کا غیر یقینی پن اور موت کی ناگزیریت لوگوں کو سسٹم بنانے پر ابھارتی ہے ۔یہ سسٹم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ جب غمزدہ خاندان اپنے پیاروں کی ناگہانی موت کا صدمہ سہنے کی تگ و دو میں ہوں تو ان کی دیگر ضروریات پوری کی جا سکیں۔یہ سسٹم اس بات کو یقینی بنا تے ہیںکہ’ کسی کی بھی تمثیل ادھوری نہ رہ جائے ‘ ۔

ایسے میں رجعت پسند نقطہ نظر رکھنے والے اپنے حال میں مست معاشرے تقدیر پرستی میں پناہ لینے لگتے ہیں ۔ جب ایک معاشرہ خوشی خوشی یہ طے کرلے کہ اس نے کچھ نہیں کرنا تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کے تارو پود قریب قریب بکھرچکے ہیں ۔ یہ بے عملی انسانی وقار کے خلاف ہے ۔لیکن بدقسمتی سے یہی وہ چیز ہے جو ہم نے کراچی میں دیکھی ۔ جب ہمارے مردہ خانے لاشوں سے بھر گئے تو پھرہر طرف سرگرمیاں دکھائی دینے لگیں جن کا زیادہ ترحصہ مذمتوں،سیاسی شعبدہ بازی اور الزام تراشیوں پرمشتمل تھا۔کچھ مثبت ہوتا ہوا کم ہی دکھائی دیا۔
موت ایک سانحہ ہے، لیکن ایک ناگزیر حقیقت بھی ۔اور یہ پہلوکسی نہ کسی حد تک ہر شخص کے ذہن میں ہوتا ہے ۔ یہ درد انگیز ہے لیکن یہ درد ایسا ہے جو زندگی کے رواں دواں ہونے پر وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوجاتا ہے۔ تاہم سانحوں کا سانحہ حادثاتی یا ناگہانی موت کے شکار افراد کے لواحقین کے ساتھ غیر حساس برتائو اور اس طرح کے سانحات کی پیش بندی کے حوالے سے لاتعلقی والا رویہ ہے۔

ہم اپنی سوسائٹی میں اس سے پہلے بھی یہ دیکھ چکے ہیں۔اب ہم کراچی میں اسے دوبارہ دیکھ رہے ہیں۔مرکزی اور صوبائی حکومتیں‘ سیاسی جماعتیں اور سرکاری ادارے ، سب ذمہ داری کا بوجھ ایک دوسرے پرڈالنے میں مصروف ہیں۔ماحولیاتی تبدیلیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے مستقبل میں اس جیسے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے دور رس اقدامات کے بارے میں کوئی بھی بات نہیں کر رہا۔کوئی بھی کراچی میں تعمیرات اور اس شہرکی گلیوں میں درختوں کی بے لگام کٹائی پر بات نہیں کر رہا۔
ہمیں مذمتوں‘ بیانات اور الزام تراشیوں کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا۔یہ انحطاط پذیر اورغیر انسانی رویہ ہے ۔ دکھوں کے مارے خاندان ایک طرف اپنے پیاروں کے کھو جانے کا نقصان برداشت کر رہے ہیں تو دوسری طرف اجتماعی قبروں میں دفن ان نعشوں کیلئے پر تصنع ہمدردیوں اوراس ہمدردی کے نام نہاد جرات مندانہ اظہار کو بھی سہہ رہے ہیں۔ یہ المیوں کا المیہ ہے جوتاحد نظر خاتمے کی نشانی کے بغیر زندہ افراد کو متاثر کر رہا ہے ۔

Vinkmag ad

Read Previous

افطاری میں کون سا شربت بنائیں

Read Next

دورانِ حمل اوربعد کی ورزشیں

Most Popular