کدھر سے آیاکدھر گیا وہ

لڑکا اپنی گاڑی میں بیٹھا تھا ۔ چونکہ گرمی زیادہ تھی لہٰذا اس نے کارکا دروازہ کھلا چھوڑرکھا تھا۔ اس دوران ہاتھوں میں پستول لئے کچھ سرپھرے اوباش لڑکے وہاں سے گزرے جنہوں نے اس پر بلاوجہ گولیاں چلا دیں۔وہ خوش قسمت تھا کہ پانچ گولیوں میں سے صرف ایک گولی کا نشانہ بناجبکہ باقی خطا ہوکر کار میں لگیں۔ نوجوانوں کے ایسے گروہ امریکہ میں بہت دیکھنے میں آتے ہیں اور وہاں کی فلموں میں ایسے جرائم کو بڑھا چڑھا کر دکھایاجاتاہے۔ ایسی فلمیں وہاں مقبول بھی بہت ہیں۔ شفانیوز کے قارئین کیلئے ریٹائرڈ سرجن ڈاکٹرعبدالرحمٰن صاحبزادہ کی یاداشتوں پر مبنی سلسلہ مضامین


ایک روز میںدوپہر کے وقت ا پنے کلینک میںمریض دیکھنے میں مصروف تھا کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ میری اسسٹنٹ نے فون اٹینڈ کرنے کے بعد مجھے بتایا کہ ہسپتال کے ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ سے کال ہے۔ وہاں ایک مریض کو بہت تشویش ناک حالت میں لایا گیا تھا اور ایک سرجن کی سخت ضرورت تھی۔ اُس دن چونکہ میں آن کال ڈیوٹی پر تھا‘ لہٰذا مجھے بلایاگیا۔
میں نے اپنی اسسٹنٹ سے کہا کہ مریضوں کے ساتھ میری تمام ملاقاتیں منسوخ کر دے‘ اس لئے کہ مجھے ایمرجنسی کی نوعیت معلوم تھی اور نہ یہ علم تھا کہ مجھے کب تک ہسپتال میں مصروف رہنا پڑے گا۔ اس دن 10 مریض آنے تھے۔ ان میں سے کچھ آ چکے تھے اور انتظارگاہ میں اپنی باری کا انتظار کررہے تھے۔میں نے اُن سب سے معذرت کی اور ہسپتال روانہ ہوگیا۔
گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے میں نے ایمرجنسی کی نوعیت معلوم کی تو صرف اتنا پتہ چل سکا کہ ایک 18سالہ نوجوان کے پیٹ میں پستول کی گولی لگی ہے اوروہ شاک میں ہے۔ (طب کے تناظرمیں ’شاک‘ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں دل کی دھڑکن غیر متناسب ہوجاتی ہے اور جسمانی خلیوں کوخون کی کم فراہمی کی وجہ سے آکسیجن کم ملتی ہے۔ اس وجہ سے جسم میں نزع کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔) ایسی صورت میں حالات واقعتا نازک ہوتے ہیں اور تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
ہسپتال میرے دفتر کے قریب ہی تھا لہٰذا میں پانچ منٹ میں ایمرجنسی روم میں پہنچ گیا۔ ڈاکٹر اور نرسیں مریض کے کمرے میں مصروف تھےں اور خون کے بیگز مسلسل لائے جارہے تھے۔ مریض کو دونوں بازوﺅں میں آئی وی تھیراپی (انجکشن کے ذریعے رگوں میں براہ راست محلول پہچانا )کے ذریعے او نیگیٹو خون تیزی سے پہنچایا جارہاتھا۔
میں نے مریض کاسرسری سا جائزہ لیا۔وہ ایک سیاہ فام لڑکا تھا جس کی عمر بمشکل 16برس ہوگی۔ گولی اس کے پیٹ میں دائیں طرف لگی تھی اوروہاں صرف ایک ہی زخم تھا۔اس کا مطلب تھا کہ اُسے ایک ہی گولی لگی تھی جس نے پیٹ کے اندر خون کی بڑی رگ کو کاٹ دیاتھا۔
میں نے جلدی سے مریض کامعائنہ کیا۔اُس کی دائیں ٹانگ ٹھنڈی لگ رہی تھی۔ میں نے اندازہ لگایا کہ اسے پیڑو (Pelvis) میں گولی لگی ہوگی جس سے وہ رگ متاثر ہوئی ہو گی جو خون کو ٹانگ کی طرف لاتی ہے۔ اب اس ٹانگ میں خون کی گردش نہیں ہورہی تھی۔ یہ رگیں بہت بڑی ہوتی ہیں اور اگر اُنہیںچوٹ لگ جائے اور ان سے خون خارج ہونا شروع ہوجائے تو مریض زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا۔ میں نے ہسپتال کی نرسنگ سپروائزر سے کہا کہ وہ فوری طور پر آپریشن تھیٹر کے عملے کو تیار ہونے کی ہدایت کرے۔
دوبیگز خون لگانے اور ڈرپ لگانے کے باوجود مریض غنودگی کی حالت میں تھا اور اُسے پوری طرح سے ہوش نہ تھا۔گولی کس نے ماری اوراسے کیسے لگی؟ یہ معلوم کرنے کی فرصت ہی نہ تھی۔ ہم اُس کی جان بچانے میں مصروف تھے۔ خوش قسمتی سے اس وقت دن کے تین بجے تھے اور صرف ایک تھیٹر میں آرتھوپیڈک سرجن آپریشن کر رہاتھا۔ باقی تمام سرجنز کی سرجریاں ختم ہوچکی تھیں۔ عملے کی مستعدی کی وجہ سے تھیٹر10منٹ میں ہمارے لئے تیار ہوگیا اور ہم مریض کو سیدھا آپریشن روم لے گئے۔ہمیں مریض کانام بھی معلوم نہ تھا۔ان حالات میں ایسے افراد کو عارضی طور پرجان ڈو (John Doe)کا فرضی نام دے دیا جاتا ہے۔چونکہ اس کی حالت بہت نازک تھی اور وہ پوری طرح سے ہوش میں بھی نہ تھا لہٰذا اُسے زیادہ انستھیزیا دینے کی ضرورت بھی نہ پڑی۔
اگلے 10منٹ کے دوران میں نے اس کا پیٹ کھول دیا ۔ اندرکا معائنہ کرنے پر معلوم ہوا کہ اس کی آنت میں دوسوراخ تھے۔ ایک سوراخ اس جگہ جہاں سے گولی داخل ہوئی تھی اور دوسرا پچھلی طرف جہاں سے گولی نکلی تھی۔ گولی وہاں سے نکل کر پیڑو میں ایک بڑی آرٹری کوکاٹ کر پیچھے کہیں پھنسی پڑی تھی۔یہ نتیجہ ہم نے اس بات سے اخذ کیا کہ گولی کے اخراج کا کوئی زخم موجودنہ تھا۔ ایسے حالات میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ گولی کو فوری طور پر نکالاجائے۔لہٰذا ہم نے آنتوں کے زخموں پر ایک کپڑاڈال دیا۔ چونکہ رگ سے خون بہہ رہاتھا‘ اس لئے ہم نے ڈائی سکشن(disection)کرکے آرٹری کو نکالا۔
گولی نے آرٹری کو بہت نقصان پہنچا تھا۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اس وقت میں ان رگوں کو جوڑنے کی مہارت نہ رکھتاتھا۔ ایسے میں 15000کی آبادی پر مشتمل چھوٹے سے شہر میں میرا کام صرف یہ تھا کہ خون کو مزید ضائع نہ ہونے دوں اور اُسے کسی اور سپیشلسٹ کے پاس بھیج دوں جو آرٹری کو ٹھیک کرسکے۔ میں نے آرٹری کو عارضی طور پر کلیمپ لگاکر خون کا مزید ضائع ہونا بند کردیا ۔ اس کے بعدمیں نے اپنی توجہ آنت کے زخموں کی طرف مبذول کی اور ان کو ٹانکے لگا کر بند کردیا۔چونکہ انتڑیوں میں پاخانہ ہوتا ہے جو جراثیم سے بھرا ہوتاہے‘ اس لئے ایسے زخموں سے پاخانہ خارج ہو کر انفیکشن کا خطرہ بڑھادیتا ہے۔ اس کیس میں بھی ایسا ہی ہواتھا۔ انتڑیوں کی مرمت کے بعد ہم نے اس حصے کو اچھی طرح سے صاف کیا۔
اب حالات قابو میں تھے۔ خون ضائع ہونا ختم ہوتے ہی اس کا بلڈ پریشر اور دیگر علامتیں بہتر ہونا شروع ہوگئیں اور جان جانے کا فوری خطرہ ٹل گیا۔میں نے اس رگ کو کلیمپ سے بالکل بند کردیاتھا‘ اس لئے کہ اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ تاہم اس کی وجہ سے اس کی دائیں ٹانگ میں خون کی گردش بالکل ختم ہوچکی تھی لہٰذا وہ ٹانگ مزید ٹھنڈی پڑ گئی۔ اس سے یہ ضرور ہوا کہ ایمرجنسی عارضی طور پر ٹل گئی اور مریض کی حالت سنبھل گئی۔ اس کے باوجود ہمیں پریشانی یہ تھی کہ اگر اُس رگ کو جلدی مرمت نہ کیاگیا تو اس کی دائیں ٹانگ کو کولہے کے قریب سے کاٹنا پڑے گا۔ ایک جوان آدمی کیلئے اتنی کم عمری میں ٹانگ کھونا ناقابل تلافی نقصان ہے۔ یوں اگرچہ فوری ایمرجنسی ٹل گئی تھی لیکن ٹانگ کو بچانے کی ایمرجنسی باقی تھی۔ ہمارے پاس صرف چند گھنٹے تھے جن کے دوران ٹانگ کے سارے ٹشوز مر جانے تھے۔میں نے نرسوں سے اس کی ٹانگ پر برف رکھنے کو کہا ‘ اس کے پیٹ کے زخم کو بند کیا اور اسے یونیورسٹی ہسپتال بھیج دیا۔برف ڈالنے سے ٹانگ قدرے زیادہ وقت تک بغیر خون کے بچ سکتی ہے۔
مریض کو ہیلی کاپٹر کی مدد سے دوسرے ہسپتال لے جایاگیا جو ہم سے 40میل کے فاصلے پر برمنگھم میں تھا۔ہیلی کاپٹر 10سے 15 منٹ میں وہاں پہنچ گیا۔ اُن لوگوں نے اس کی رگ کی مرمت کی جس پر مزید چھے گھنٹے لگے۔آپریشن کے بعد اس کی ٹانگ کئی دنوں تک سُوجی رہی اور وہ ہسپتال میں چھے ہفتے رہا۔ اس دوران اس کے زخم میں انفیکشن بھی ہوالیکن خوش قسمتی سے کامیاب علاج کی بدولت وہ ٹھیک ہوگیا۔
وہاں کے ڈاکٹروں نے مجھے بتایا کہ یہ لڑکا اپنی گاڑی میں بیٹھا تھا ۔ چونکہ گرمی زیادہ تھی لہٰذا اس نے کارکا دروازہ کھلا چھوڑرکھا تھا۔ اس دوران ہاتھوں میں پستول لئے کچھ سرپھرے اوباش لڑکے وہاں سے گزرے جنہوں نے اس پر بلاوجہ گولیاں چلا دیں۔ گاڑی کا دروازہ چونکہ کھلا تھا لہٰذا گولی اس کے پیڑو میں لگی ۔وہ خوش قسمت تھا کہ پانچ گولیوں میں سے صرف ایک گولی کا نشانہ بناجبکہ باقی خطا ہوکر کار میں لگیں۔ نوجوانوں کے ایسے گروہ امریکہ میں بہت دیکھنے میں آتے ہیں اور وہاں کی فلموں میں ایسے جرائم کو بڑھا چڑھا کر دکھایاجاتاہے۔ ایسی فلمیں وہاں مقبول بھی بہت ہیں۔
جان ڈو کی جان بچانے پر ہمارے ہسپتال کے 50ہزار اور یونیورسٹی ہسپتال کے کم از کم ڈھائی لاکھ ڈالر خرچ ہوئے۔مجھے یقین ہے کہ کسی شخص یا ہسپتال کو اس سے ایک دمڑی بھی نہ ملی ہوگی۔ مجھے بھی کوئی معاوضہ نہ ملا۔مزید یہ کہ اس دن میں اپنے 10مریض بھی نہ دیکھ سکا۔ یوں ایک دن کی آمدن ضائع ہوگئی تھی تاہم مجھے اس بات پر تسلی تھی کہ میں نے ایک نوجوان کی قیمتی جان بچانے میں حصہ لیاتھا۔ اس کی جان یقیناً قیمتی تھی اور دوہسپتالوں کے اخراجات اور ڈاکٹروں کی فیسوں کو ملا کر تقریباً ساڑھے تین لاکھ ڈالر سے زیادہ کی ہوگی۔میرے اکثر مریض مجھے کہیں نہ کہیں مل جاتے ہیں لیکن اس مریض کو میں نے زندگی میںپھر کبھی نہ دیکھا۔وہ جہاں ہو‘ اللہ اسے خوش رکھے۔

Vinkmag ad

Read Previous

کیسے بچیں… کھیل میں چوٹ

Read Next

بابرکت, صحت بخش اور نفع بخش درخت

Leave a Reply

Most Popular