اونچائی کا خوف

لوگوں کی اکثریت سر سبزوشاداب پہاڑی مقامات کی سیر کرنا ‘ وہاں کسی اونچی جگہ پر کھڑے ہو کر دلفریب وادیوں کا نظارہ کرنایا کسی بلندعمارت کی چھت پر کھڑے ہو کر شہر میں پھیلی عمارات ‘ رواں دواں گاڑیوں اورپیدل چلتے لوگوں کو دیکھنا پسند کرتی ہے ۔بعض لوگ گہری کھائیوں پرتنے ہوئے رسوں پر چلتے اور کسی بلند مینار یا کھمبے پرانتہائی خطرناک کرتب بڑے سکون کے ساتھ دکھا رہے ہوتے ہیں۔ تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اونچی عمارتوں تودور کی بات، بالکونی پر کھڑے ہونے، چھوٹے کنارے کی چھت پر جانے اوربلندی پر جاتے جھولوں پر بیٹھنے سے بھی کتراتے ہیں۔

اونچی جگہوں کا خوف عام حالات میں کوئی زیادہ بڑا مسئلہ نہیں تاہم جب یہ روز مرہ کی زندگی کو متا ثر کرنے لگے تو پھر یہ تشویشناک بات ہے ۔ مثلاً اگرایک شخص کی ملازمت کسی ایسے دفتر میں ہے جو اونچی عمارت کی آخری منزل پر واقع ہے اور اس خوف کی وجہ سے وہ دفترنہ جا سکے تو پھریہ فوبیا ہے جس کا حل نکالنا ضروری ہے ۔مختلف لوگ مختلف طرح کے خوف میں مبتلا ہوتے ہیں تاہم اونچی جگہوں کا خوف ، جانوروں کے خوف کے بعد سب سے زیاد ہ پایا جانے والا ڈر ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق پانچ فی صد لوگ اس میںمبتلا ہیں۔
عملی اظہار کی صورتیں

خوف کی دیگر اقسام کی طرح اس قسم کااظہار بھی تین طرح سے (جسمانی، ذہنی اور کرداری) ہوتا ہے۔
پریشان کن سوچیں
ایسے افراد کو جونہی ان جگہوں پر جانے کا معاملہ پیش آتا ہے‘ ان کی پریشانی شروع ہو جاتی ہے ۔ایسے میں وہ گھنٹوںبیٹھ کریہ سوچتے رہتے ہیں کہ وہ اس جگہ کا سامنا کیسے کریں گے ۔ اس جگہ کا پریشان کن تصورہمیشہ ان کے ذہنوں میں گھومتا رہتا ہے جس سے ا ن کے پٹھوں میں کھچائو آنے لگتا ہے اورجسم تھکا تھکاسا محسوس ہوتا ہے۔
بلندی کے خوف میں مبتلا فرد کے ذہن میں عموماً جو پریشان کن خیالات آتے ہیں‘ وہ مندرجہ ذیل ہیں:
’’میں اونچی جگہ سے خود بخود کناروں پر چلا جائوں گا، پھر وہاں سے بے اختیاری طور پر چھلانگ لگا دوں۔مجھے وہاں شدید چکر آئیں گے اور میں گر جائوں گا۔کوئی مجھے دھکا دے گا جس سے میں نیچے لڑھک جائوں گا۔میرا توازن بگڑے گاجس سے خودپر کنٹرول ختم ہو جائے گااور میں بے ہوش ہو جائوں گا جس کی وجہ سے وہاں سے نیچے گر جائوں گا۔اچانک چھت گر جائے گا یا کوئی حادثہ پیش آ جائے گا۔ میرا پائوں پھسل جائے گا۔ اونچی جگہ پر میری پریشان کن حالت سب کو نظر آئے گی اور لوگ میرا مذاق اڑائیں گے۔ میر ا دل کام کرنا چھوڑ دے گا جس سے میری موت واقع ہو جائے گی وغیرہ۔‘‘

جسمانی علامات کا اظہار
جب اس طرح کی منفی سوچیں گھیر لیں تو فرد کی پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ایسی جگہوں پر جانے سے ہر ممکن حد تک بچے۔ اگر اس سے فرار ممکن نہ ہو تو اس پرشدید خوف طاری ہو جاتا ہے۔
خوف حقیقت میں اس چیز کا سامنا کرتے وقت پیدا ہونے والی کیفیت کا نا م ہے جس میں کچھ جسمانی علامات مثلاً دل کا تیزی سے دھڑکھنا، پسینے آنااور چہرے کا فق ہو جانا وغیرہ ظاہر ہوتی ہیں ۔ اس کی شدید ترین حالت شدید گھبرا ہٹ کا طاری ہونا ہے جس میں فرد بے ہوش ہو جاتا ہے یااسے دم گھٹنے کا احساس ہوتا ہے ۔یہ ساری علامات اگرچہ تکلیف دہ ہوتی ہیںمگرحقیقت میں وہ اتنی خطرناک نہیں ہوتیں جتنا فرد ان کے بارے میں سوچ رہا ہوتا ہے۔ اگرانہیں حوصلے سے برداشت کیا جائے تو کچھ وقت کے بعد وہ خود ہی کم ہو جاتی ہیں۔

کرداری انداز : ایسے میں فرد خود کو محفوظ کر نے کی کوششیں کرنے لگتا ہے جن میں چھت کے کناروںپر نہ جانا ، دوسروں کو اونچائی پرجانے سے سختی سے منع کرنا، شدید غصے کا اظہار کرنا، جنگلے یا ساتھ موجود افراد کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیناوغیرہ شامل ہیں۔ایسے افراد اونچی جگہ پر کھڑے افراد کو دیکھنا بھی چھوڑدیتے ہیں۔
علاج کیا ،نجات کیسے
فرار کی حکمت عملی انہیں وقتی طور پر اس کیفیت سے بچا لیتی ہے مگراس سے یہ خوف ان کے دلوں میں مستقلاً بیٹھ جاتا ہے جسے نکالنا مشکل ہو جاتا ہے۔اگر یہ خوف آپ کی زندگی کو متاثر کر رہا ہے تو پھرآپ کے لئے اس سے نکلنے کی جدوجہد کرنا اشد ضروری ہے ۔
کسی ساتھی کا ساتھ
اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ذہن میں بٹھانا ہے کہ ان جگہوں کا سامنا کرنے کے علاوہ آپ کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔اس کے لیے آپ کو حوصلے، محنت اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہو گی۔ اگرآپ کو شروع میں اس کا اکیلے سامنا کرنا مشکل لگے تو اپنے کسی ایسے قریبی دوست، بھائی یابہن وغیرہ کو ساتھ ملا لیںجسے خود ان جگہوں کا خوف نہ ہو اور وہ آپ کو ان جگہوں سے دور رکھنے میں ساتھ دینے کی بجائے ان کا سامنا کرنے میں آپ کی مدد کرے ۔

فہرست کی تیاری
اگلا مرحلہ ان اونچی جگہوں کی فہرست بنانا ہے جن سے آپ کو خوف آتا ہے۔مثال کے طور پر سیڑھیوں پر چڑھنے کا خوف، چھت، بالکونی، کنارے، اوپر چلنے، بیٹھنے اور دیکھنے سے خوف وغیرہ ۔
درجہ بندی کا مرحلہ
فہرست بنانے کے بعد خوف کی شدت کی بنیاد پر ان کی درجہ بندی کریں اور انہیں 1سے 100 کے درمیان 10 کے فرق سے نمبر دیں۔جس اونچی جگہ سے کم سے کم خوف آتا ہے‘ اسے 10 سے 20 کے درجے میں رکھیںپھر اس طرح خوف میں اضافے کے ساتھ درجہ بڑھاتے جائیں۔اگر درجہ دینا مشکل لگے تو ایک دفعہ ان جگہوں کا سامنا کر لیں پھر آپ بہتر درجہ بندی کر سکیں گے۔
ہدف کا تعین
درجہ بندی کرنے کے بعد یہ ہدف طے کریں کہ اگلے کتنے دنوں میں کتنی دفعہ ان جگہوں پر جائیں گے اور کتنی دیر تک وہاں کھڑے رہیں گے ۔ اس کے لیے سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ آپ درمیانے خوف( جسے آپ نے40یا 50کا درجہ دیا ہے )کا سامنا کرتے ہوئے اس وقت تک وہاں کھڑے رہیں جب تک آپ کی جسمانی حالت پرسکون نہ ہو جائے۔ پہلے ہدف کی تکمیل کے بعد اگلے ہدف کی طرف بڑھ جائیں۔
راہ فرار ‘ ہرگزنہیں
خوف کا سامنا کرنے کے دوران اہم بات یہ ہے کہ آپ نے راہ فرارکسی صورت اختیار نہیں کرنی اورآپ یہ اس وقت تک نہیں کر سکیں گے جب تک آپ اس منفی سوچوں کو ٹھیک نہ کرلیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایسی جگہوں کے بارے میں سوچتے ہی آپ کے ذہن میںجو خیال ذہن میں آ ئے‘ اسے لکھ لیں اوریہ عزم کریں کہ خوف کا سامنا کرتے وقت اس کی صداقت کو پرکھیں گے ۔جب عملاً اس سے گزریں تو دوبارہ چیک کریں کہ اس میں کتنی سچائی تھی۔ یعنی آپ کو خوف تھا کہ کنارے پر کھڑے ہونے سے آپ نیچے گرپڑیں گے یا بے ہوش ہو جائیں گے ۔کیا واقعتاً ایسا ہوا یا یہ محض خیال تھا۔

خود کو شاباش دیں
خوف کا کامیابی سے سامنا کرنے کے بعد خودکو شاباش ضرور دیں کہ آپ نے اس کے ایک درجے پر قابو پا لیا ہے۔ امید ہی نہیں‘ یقین رکھیںکہ آپ اپنے اس خوف پر مکمل قابو پا لیں گے ۔

Vinkmag ad

Read Previous

جب زہرسرایت کر جائے

Read Next

انگور گر کھٹے نہ ہوں

Leave a Reply

Most Popular