Vinkmag ad

بخار کیا ہے؟

بخار ان چند وجوہات میں سے ایک ہے جن کی بنا پر لوگ سب سے زیادہ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔ اس کے باوجود لوگوں کی اکثریت نہیں جانتی کہ اصل میں بخار کیا ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ تھرما میٹر وہ طبی آلہ ہے جو کلینکوں کے علاوہ گھروں میں بھی سب سے زیادہ پایاجاتا ہے۔ 

بخار میں متضاد رویے

بخار کے بارے میں عمومی خیال یہ ہے کہ وہ بے سکونی پیدا کرنے کے علاوہ خطرناک بھی ہے۔ اسی لیے اگر بچے کو ہو جائے تو والدین کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر کہے کہ دوا کی ضرورت نہیں تو وہ مطمئن نہیں ہوتے۔ وہ کسی ایسے ڈاکٹر کے پاس چلے جاتے ہیں جو انہیں کچھ نہ کچھ دوا کے طور پر دے دے۔ اگر وی ایسا نہ کرے تو خود ہی دوا لے کر بچے کو دے دیتے ہیں۔

دوسری طرف لوگوں کو کئی ماہ تک ہلکا ہلکا بخار رہتا ہے لیکن وہ ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتے۔ وہ اسے تب تک ٹالتے رہتے ہیں  جب تک بستر سے نہیں لگ جاتے۔ یہ خطرناک ہے، اس لیے کہ اس کا سبب کوئی سنگین مرض بھی ہو سکتاہے۔ 

بخار ہے کیا 

اس سلسلے میں پہلا سوال یہ ہے کہ بخار کیا ہے؟ بظاہر اس کا جواب بڑا سادہ اور آسان ہے۔ اور وہ یہ کہ جب ہمیں اپناجسم گرم محسوس ہو تو یہ بخار ہے۔ شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد کے میڈیکل سپیشلسٹ ڈاکٹر واجد یار اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے مطابق:
”بخار محسوس ہونے اور بخار ہونے میں فرق ہے۔ اگر جسم گرم محسوس ہو رہا ہو تب بھی ہم اسے تھرما میٹر کی تصڈیق کے بغیر بخار تسلیم نہیں کریں گے۔”

انسانی جسم کا نارمل ٹمپریچر 97 سے 98 ڈگری ہے۔ یہ دن بھرتھوڑا بہت اوپر نیچے ہوتا رہتا ہے۔ اگر وہ 98.6 ہو تو اسے بخار مانا جائے گا۔

بخار میں جسم گرم کیوں

اگلا سوال یہ ہے کہ بخار میں ہمارا جسم گرم کیوں ہوجاتا ہے؟ اس کے جواب میں الائیڈ ہسپتال فیصل آباد کے میڈیکل سپیشلسٹ ڈاکٹر عامرحسین کہتے ہیں:
”بیکٹیریا کا حملہ ہو تو جسم کا مدافعتی نظام خون میں پائروجنز پیدا کرتا ہے۔ اسی لیے بخار کو تکنیکی زبان میں ‘پائریکسیا’ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پائیروجنز ہائپوتھیلمس کے درجہ حرارت میں رد وبدل کا باعث بنتے ہیں۔”
شفا کالج آف میڈیسن اسلام آباد کے پروفیسر ڈاکٹرغلام حیدر خالد اس کی مزید وضاحت یوں کرتے ہیں:

”ہمارا جسم معمول کے کام 98.4 ڈگری پرہی بہتر طور پر انجام دے سکتا ہے۔ اسے اس خاص ٹمپریچر پر رکھنے کے لیے ہمارے دماغ میں ہائپو تھیلمس کی شکل میں ایک تھرمو سٹیٹ لگا ہوتا ہے۔ پائیروجنز کی وجہ سے ہائپو تھیلمس کا تھرمو سٹیٹ زیادہ سطح پر سیٹ ہوجاتا ہے۔ اب وہ نئی سطح کو نارمل سمجھ کر جسم کو اس پر لانے کے لیے سرگرمیاں شروع کردیتا ہے۔ یوں ہمارا ٹمپریچر بڑھ جاتا ہے۔‘‘

جب بخار چڑھ رہا ہو تو ہمیں سردی لگتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جسم کو اپنا ٹمپریچر بڑھانا ہوتا ہے۔اس کے برعکس جب بخار اتر رہا ہو تو ہمیں گرمی لگتی ہے اور پسینے آتے ہیں تاکہ اضافی ٹمپریچرختم کیا جا سکے۔

بخار میں ہمیں کمزوری بھی محسوس ہوتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ توانائی جسم کو گرم کرنے میں استعمال ہو جاتی ہے۔

بخار کی پیمائش

بخار معلوم کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ تھرما میٹر زبان کے نیچے رکھا جائے۔ بغل کے نیچے تھرما میٹر رکھنا زیادہ مفید نہیں۔ اس کے باوجود کلینکوں میں یہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس کا سبب شاید یہ ہے کہ ایک ہی تھرما میٹر بار بار لوگوں کے منہ میں رکھنا اور ہر بار اسے جراثیم سے پاک کرنا مشکل ہوتا ہے۔
ایک اور طریقہ مقعد یعنی پاخانے کے مقام میں تھرما میٹر رکھناہے۔ یہ اس وقت کیا جاتا ہے جب جسم کا ٹمپریچر بہت کم ہو۔ مثلاً اگر کوئی شخص ٹھنڈے پانی میں گر گیا ہو اور عام طریقے سے اس کا ٹمپریچر نہ لیا جا سکتا ہو۔

ڈاکٹر غلام حیدر خالد کے مطابق پیشانی پر مخصوص سٹرپ رکھنا بھی درست نہیں۔ بغل اور پیشانی محض جلد کی بیرونی سطح کا ٹمپریچر دیتے ہیں۔ جلد پر موسم سمیت کئی عوامل اثرانداز ہوتے ہیں۔ لہٰذا درست طریقہ اسے زبان کے نیچے رکھنا یا مقعد میں داخل کرنا ہے۔ زبان کے نیچے رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس سے پانچ منٹ پہلے کوئی ٹھنڈی یا گرم چیز نہ کھائی یا پی گئی ہو۔ 

بخار میں خود علاجی 

جانز ہاپکنز چلڈرن سینٹر (امریکہ) میں ایک سروے کے مطابق 19 فی صد والدین سمجھتے ہیں کہ معمولی بخار بھی دوروں کا سبب بن سکتا ہے۔ تقریباً 98 فی صد والدین بچے کا بخار 102 تک پہنچنے سے پہلے ہی دوا دے دیتے ہیں۔

اگر بخار 101 یا اس سے کم ہو، بچہ بے چینی محسوس نہ کرے اور اسے کبھی دورے نہ پڑے ہوں تو عموماً دواؤں سے علاج ضروری نہیں ہوتا۔ اگر وہ کھا پی رہا ہے، پوری نیند لے رہا ہے اور کھیلتا بھی ہے تو اْسے علاج کی ضرورت نہیں۔ ہلکے بخار کے علاج کے لیے کمرے کا ٹمپریچر معتدل رکھیں۔ اسے ہلکے کپڑے پہنائیں ورنہ گرمائش بخار کو تیز کر سکتی ہے۔ بچے کو پانی، جوس اورسوپ زیادہ پلائیں کیونکہ بخار ڈی ہائیڈریشن کا باعث بن سکتا ہے۔

جب بخار 102 سے زیادہ ہو تو دوا دی جا سکتی ہے۔ تاہم یہ اتنی مقدار میں دی جائے جتنی لیبل پر لکھی ہے۔

اگر ایک دوا سے آرام نہ آ رہا ہو تو بعض لوگ خود ہی کوئی دوسری دوا لے لیتے ہیں۔ ایسا نہیں کرنا چاہئے اور ڈاکٹر کے پاس آنا چاہئے۔ ڈینگی بخار کی علامات عام بخار جیسی ہی ہوتی ہیں۔ اگر اس میں غلطی سے بروفین لے لی جائے تو یہ جان لیوا بھی ہو سکتی ہے ۔اس کی وجہ سے خون بہنا، الٹیاں اور معدے میں شدید تکلیف جیسے مسائل سامنے آ سکتے ہیں۔ پیناڈول ڈاکٹری نسخے کے بغیر لی جا سکتی ہے۔ تاہم اسے بھی ایک حد کے اندرہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
نزلہ زکام اگر بخار کے ساتھ ہو تو اس کا مطلب انفیکشن ہے۔ اس کی وجہ سے سر میں درد اور جسمانی کمزوری ہوتی ہے۔

سنگین مرض کی علامت

بہت سے لوگ بخارکو بیماری سمجھتے ہیں حالانکہ وہ بیماری کی علامت ہے:
’’نشانی(symptom) وہ ہے جو مریض ڈاکٹر کو بتاتا ہے۔ مثلاً وہ کہتا ہے کہ میرا جسم تپ رہا ہے۔ اس کے برعکس علامت (sign) کا فیصلہ ڈاکٹر کرتا ہے.
اگر کسی شخص کو مسلسل ٹمپریچر ہو تو یہ خطرناک بات ہے. اسے نظر انداز کرنے کے بجائے اس کی وجہ معلوم کرنی چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ٹائیفائیڈ، ملیریا، ٹی بی، گلے کی خرابی، کینسر، آرتھرائٹس، رسولی، خون کے سرطان حتیٰ کہ ایڈزکی طرف اشارہ بھی ہو سکتا ہے۔ بخار مسلسل اور شدید ہو، اس کے ساتھ پیٹ یا سینے میں درد یا پٹھوں میں کھچاؤ ہو تو بلاتاخیر معالج سے رابطہ کریں۔

 

Vinkmag ad

Read Previous

موٹاپے سے بچائو کچھ اہم ٹِپس

Read Next

حمل کی آخری سہہ ماہی کہیں ایسا نہ ہوجائے

Leave a Reply

Most Popular