Vinkmag ad

ٹی بی

بعض بیماریاں انسانی جان کے لئے شدید خطرے کا باعث ہوتی ہیں تاہم اگر بروقت تشخیص اور علاج ہوجائے توان سے نجات پائی جا سکتی ہے۔ ٹی بی کا شمار بھی انہی 10 مہلک ترین بیماریوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان ٹی بی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پانچویں نمبرپر ہے۔

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ٹی بی موروثی مرض ہے مگر ایسا نہیں۔ اس کا جینز سے تعلق بس اتنا ہے کہ کچھ جینز ٹی بی سے محفوظ رکھتے جبکہ کچھ جینیاتی بیماریاں اس کے امکانات کو بڑھاتی ہیں۔ یہ بنیادی طور پر انفیکشن ہے جو ایک جرثومے (Mycobacterium tuberculosis) کے ذریعے پھیلتا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق 2018 میں پاکستان میں پانچ لاکھ 65 ہزار افراد اس کے شکار ہوئے جن میں سے 80 فی صد پھیپھڑوں کی ٹی بی میں مبتلا تھے۔ گمان یہ ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی کیونکہ بعض جگہوں پرمریض رجسٹر ہی نہیں ہوتے۔ پھیپھڑوں کے علاوہ یہ لمف نوڈز، ہڈیوں، آنکھوں، گردوں ،دماغ، جگر اور تولیدی اعضاء کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔

ٹی بی کی اقسام

ٹی بی کی دو اقسام ہیں۔ فعال (latent) ٹی بی کے شکار افراد میں مرض کے جراثیم موجود تو ہوتے ہیں مگر اس مرض کی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ ایسے میں بیماری دوسروں تک منتقل نہیں ہوتی۔ غیرفعال (active) ٹی بی میں علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ ایسے میں بیماری دوسروں تک پھیل سکتی ہے۔

ٹی بی کی علامات

ٹی بی کے جراثیم جسم کے جس حصے کو متاثر کرتے ہیں، علامات بھی اسی کے مطابق ظاہر ہوتی ہیں۔ یہ زیادہ تر پھیپھڑوں پر حملہ کرتے ہیں۔ ایسے میں مریض کو خشک یا خون اور رطوبت کے ساتھ کھانسی ہوتی ہے۔ سینے میں درد، سانس لینے میں دقت، بھوک اوروزن میں کمی، رات کو پسینے آنا، تھکاوٹ اور بے چینی ہونا اور نشوونما متاثر ہونے کی شکایات کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔

کیا یہ انفیکشن مشترکہ برتنوں سے پھیلتا ہے؟

ٹی بی سے متعلق ایک بہت ہی عام مفروضہ یہ ہے کہ یہ بیماری متاثرہ شخص کے کپڑوں اور برتنوں کے استعمال اور ان سے ہاتھ ملانے سے پھیل سکتی ہے۔ یہ درست نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ فعال ٹی بی کے شکارمریض کی کھانسی، چھینک یا تھوک سے چھوٹے چھوٹے قطرے خارج ہوتے ہیں۔ یہ قطرے ہوا میں آٹھ یا کچھ زیادہ گھنٹوں تک موجود رہتے ہیں۔ جب صحت مند شخص اس ہوا میں سانس لیتا ہے تو یہ قطرے اس کے پھیپھڑوں میں داخل ہوجاتے ہیں اور وہ ٹی بی کا شکار ہوجاتا ہے۔

خطرے میں کون

یوں تو کسی کو بھی یہ انفیکشن ہوسکتا ہے مگر 12 سال سے کم اور 70 سال سے زائد عمر کے افراد اس سے کم متاثر ہوتے ہیں۔ مریض کے ساتھ رہنے والے، ہیلتھ کیئر ورکرز،قوت مدافعت کو دبانے والی ادویات کا استعمال کرنے والے اورایچ آئی وی یا قوت مدافعت کو کمزور کرنے والی دیگر بیماریوں میں مبتلا افراد میں اس کے امکانات زیادہ ہیں۔ ایچ آئی وی کے مریضوں میں غیرفعال ٹی بی قوت مدافعت کم ہونے کی وجہ سے فعال ہوسکتی ہے۔ اسی طرح تمباکونوش یا غذائی کمی کے شکار افراد اور بہت زیادہ ہجوم والی جگہوں (جہاں بنیادی طبی سہولیات بھی میسر نہ ہوں)میں رہنے والے بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔

مکمل علاج ممکن ہے

ٹی بی کے جراثیم علاج یا ادویات سے مزاحمت پیدا نہ کر لیں تو اس مرض کا مکمل علاج ممکن ہے ۔اس کے لئے دو مراحل میں مریض کو اینٹی بائیوٹکس دی جاتی ہیں جن کے دورانیے کا انحصار مریض کی کیفیت پر ہوتا ہے۔ عموماً علاج کے دو ہفتوں بعد انفیکشن پھیلنے کے امکانات ختم یا کم ہو جاتے ہیں۔

ٹی بی مکمل علاج کے بعد پہلے تین سال میں دوبارہ ہو سکتی ہے۔ اس لئے مریض کو چاہئے کہ علاج ادھورا نہ چھوڑے تاکہ مرض کو دوبارہ ہونے سے روکا جاسکے۔ یہ عمل ادویات سے مزاحمت، پیچیدگیاں اور منتقلی کے امکانات کو کم کرنے میں بھی مدد دے گا۔ مکمل علاج کے بعد فالو اَپ کی ضرورت نہیں ہوتی تاہم مریض کو علامات پر نظررکھنا ہوتی ہے اوراگر وہ دوبارہ ظاہرہوں تو وقت ضائع کیے بغیر ڈاکٹر سے رجوع کرنا ہوتا ہے۔

پیچیدگیاں

مریض بیک وقت بہت سی بیماریوں کا شکار ہو تو ٹی بی کی تشخیص میں تاخیر اور علاج میں مشکل ہو سکتی ہے۔ ایچ آئی وی انفیکشن، ذیابیطس، سی کے ڈی، کڈنی فیلور، کینسر اور غذائی قلت ان کی کچھ مثالیں ہیں۔ اس کے علاوہ علاج میں تاخیر، کمزور قوت مدافعت یا علاج سے مزاحمت کی صورت میں بینائی کھو سکتی ہے۔ دماغ کی ٹی بی ہو تو پیپ کے باعث دماغ میں سوجن پیدا ہوسکتی ہے اورمریض کو دورے پڑ سکتے ہیں۔ پھیپھڑوں کی ٹی بی ہو تو سانس کی نالیاں خراب ہونے، کھانسی میں خون آنے، چھاتی میں پیپ اور پھیپھڑوں کی حفاظت کرنے اور انہیں حرکت کرنے میں مدد دینے والے ٹشوز کے درمیان پیپ جمع ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔تولیدی اعضاء ٹی بی کا شکار ہوجائیں تو بانجھ پن کے امکانات ہوتے ہیں۔

بچاؤ کی تدابیر

ٹی بی سے تحفظ یا اس کے امکانات کو کم کرنے کے لئے ویکسی نیشن سب سے مؤثر ہے۔ ٹی بی کی ویکسین یعنی بی سی جی عموماً پیدائش کے 28 دن بعد لگائی جاتی ہے۔ کچھ ممالک میں 16 یا اس سے زائد عمر کے ہیلتھ کیئر سٹاف کو یہ ویکسین لازماً لگوانا ہوتی ہے۔ حمل اور کمزور قوت مدافعت کی صورت میں یہ تجویز نہیں کی جاتی۔

دیگر احتیاطی تدابیر یہ ہیں:

٭جن علاقوں میں یہ مرض وبائی صورت اختیار کر لے وہاں اس کی سکریننگ کرواتے رہیں۔

٭سرکاری سطح پر کچھ ایسی کوششیں کی جانی چاہئیں جن کی مدد سے ٹی بی کے ہر مریض کی علاج کی سہولیات تک رسائی ممکن ہو سکے۔

٭مرض سے متعلق معلومات حاصل کریں اور تواہمات نظرانداز کریں۔

٭اہل خانہ اور دوست احباب کو انفیکشن سے محفوظ رکھنے کے لئے ڈاکٹرکی تجویز کردہ مدت تک گھر کے اندر بھی ماسک پہنیں اور میل جول سے گریز کریں۔

٭کمرے میں ہوا کی آمدورفت کا بندوبست کریں۔

دنیا کی تقریباً ایک تہائی آبادی میں ٹی بی کے جراثیم موجود ہیں ان میں سے 10فی صد فعال جبکہ90 فی صد غیرفعال ٹی بی کے شکار ہیں جو فعال ہوسکتی ہے۔ مرض کی بڑھی ہوئی شرح کو روکنے کے لئے مذکورہ ہدایات پر عمل کریں اوراس سے متعلق آگاہی پھیلائیں۔

tuberculosis, how to prevent tb, who is at risk of tb, tb ka ilaj kya hai, tb kaisay phelti hai

Vinkmag ad

Read Previous

 کیا سحری میں زیادہ کھانے پینے سے روزہ اچھا گزرتا ہے؟

Read Next

کیا حاملہ خواتین روزہ رکھ سکتی ہیں؟ 

Leave a Reply

Most Popular