صابن کا سفر

دیوتائوں کو منانے کے لئے جانوروں کی قربانی کا رواج کم و بیش ہر تہذیب میں رہا ہے۔روما کی عظیم سلطنت کا ’’ کوہ سیپو‘‘ ایک قربان گاہ کے طور پربھی مشہورتھا جہاں جانوروں کی قربانی کے بعد لوگ گوشت کھاتے اور اس کا کچھ حصہ اپنے ساتھ بھی لے جاتے۔سرگرمی کے اختتام پر جانوروں کی ہڈیاں‘ چربی اورجلی ہوئی لکڑی کی راکھ وہیں چھوڑ دی جاتی۔ بارش کا پانی چٹانوںکی صفائی کا قدرتی نظام تھا جو حیوانی چربی اور راکھ کے آمیزے کواپنے ساتھ لیے دریائے ٹِبر(tiber river) میں اتر جاتا۔ ہمارے دیہی معاشرے کی طرح وہاں کی خواتین بھی پہاڑ کے دامن میں کپڑے دھونے آیا کرتی تھیں۔ بار بار رگڑنے کے باوجود جب ایک خاتون قابلِ اطمینان حد تک کپڑوں کو صاف نہ کر پائی تو اس نے کوہ سیپو سے اترنے والے آمیزے کو اس مقصد کے لئے استعمال کیا ۔حیرت انگیز طور پراس کے کپڑے اچھی طرح سے دھل گئے۔ آمیزے کی اس غیر معمولی صلاحیت سے باقی خواتین بھی متاثر ہوئیں اوراس کااستعمال بڑھنے لگا۔ اب کوہ سیپو کی مناسبت سے اس نو دریافت شدہ مادے کو ’’سوپ‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا جو آج بھی مستعمل ہے۔دوسری طرف مورخین کا ایک گروہ ’’سوپ‘‘کی اس کہانی سے اختلاف کرتا ہے۔ اس کی دلیل ہے کہ حیوانی چربی اور جلی لکڑی کی راکھ صرف کوہ سیپو پر ہی نہ پائی جاتی تھی۔ ان کے نزدیک سیپو ایک لاطینی لفظ ہے جو شاید جرمن یا کیلٹِک(Celtic) سے لیا گیا اور حیوانی چربی یا چکنائی کا ہم معنی ہے۔طہارت اور دیگر مقاصدکے لئے مختلف مختلف چیزوں کا استعمال مختلف ادوار میں بھلے ہوتا رہا لیکن ماہرین کی اکثریت لفظ ’’سوپ‘‘ کا ماخذ سیپو پہاڑ ہی کو سمجھتی ہے۔

صابن کی دریافت سے قبل روم سمیت دنیا کے مختلف حصوں کے باشندے اپنے جسم کو پسینے اور میل سے نجات دلانے کے لئے اسے جھانویں سے رگڑتے تھے۔دنیا بھر میں اپنے ملکوتی حسن کی وجہ سے مشہور ملکہ قلوپطرہ نہانے کے لئے گھوڑی کا دودھ‘ شہد اور خاص قسم کے تیل استعمال کیا کرتی۔ یہ تمام چیزیں خوبصورتی میں اضافے کے لئے توشاید معاون ہوں لیکن صفائی سے ان کا تعلق نہیں تھا۔ صفائی کے لئے وہ عمدہ قسم کی ریت استعمال کرتی جو رگڑ کر اس کے جسم سے پسینے اور میل کو دورکر دیتی۔ میل کچیل اور پسینے کو دور کرنے کے لئے ایسے مادے کی ضرورت بہرحال تھی جو رگڑ کر اسے دور کر دے جبکہ آج کا صابن مختلف فارمولے پر کام کرتا ہے۔ صابن جب پانی کے ساتھ تعامل کرتا ہے تو اس میں اس طرح سے رچ بس جاتا ہے کہ اسے قطروں کی شکل میں نہیں رہنے دیتا۔ صابن کے مالیکیولوں کا سر پانی کو اپنی طرف کھینچتا ہے جبکہ دم پانی کو پرے دھکیلتی ہے۔جب اسے جسم یا کپڑوں پر ملا جائے تو اس کے مالیکیولوں کا نچلا حصہ میل وغیرہ کے ساتھ چپک جاتا ہے جبکہ اوپر کا حصہ پانی کے ساتھ جڑ جاتا ہے۔ اس طرح یہ مالیکیول پانی اور میل کے درمیان معلق ہو جاتے ہیں۔ جب پانی اس پر سے بہایا جاتا ہے تو وہ صابن اور میل‘ دونوں کو بہا کر ساتھ لے جاتا ہے۔ اس میں رگڑ کی قوت کہیں استعمال نہیں ہوتی۔ صابن سازی کے ابتدائی ایام میں حیوانی چربی اس کاایک لازمی جزو تھا جبکہ آج کل اس کی جگہ نباتاتی تیل استعمال ہوتا ہے جو زیادہ جلد دوست اور پرآسائش ہے۔ اس میں بالعموم 80 فی صد چکنائی اور 20فی صد کوکونٹ آئل اور جھاگ پیدا کرنے والے کیمیائی مادے ہوتے ہیں۔
صابن کو موجودہ نام دیئے جانے کی بحث سے قطع نظر‘ اس کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ 2800 قبل مسیح کی بابلی تہذیب کے کھنڈرات سے ایسے مرتبان ملے ہیں جن میں صابن کی طرح کا محلول موجود تھا۔ 2200 ق م میں بھی پانی‘ الکلی اور موٹی دار چینی سے صابن جیسا مواد تیار کیا جاتا تھا۔ 1500 ق م کے مصری باشندے اس مقصد کے لئے حیوانی تیل ‘ الکلی اور نمک استعمال کرتے تھے۔ اس دور کے باشندوں میں باقاعدگی سے نہانے کا رواج تھا۔ ساتویں صدی کے آغاز میں فلسطین کے شہرنابلوس اور عراق کے شہروں کو فہ اوربصرہ میں بھی صابن تیار ہوتا تھا‘ اگرچہ اس کا استعمال نہانے کی بجائے ہیئر ڈریسنگ کے لئے تھا۔ آج کا صابن بھی اس تاریخی عربی صابن کا جانشین ہے جو خوشبودار اور رنگدار ہونے کے علاوہ ٹھوس اور مائع‘ دونوں شکلوں میں دستیاب تھا۔ تاریخی طور پر یہ جانوروں کی چربی اور الکلی کے طاقتور محلول سے تیار ہوتا تھا۔

عربوں کے ہاں طہارت کے لئے نہانے کا تصور موجود تھا جبکہ یورپ میں غسل صفائی کی بجائے ایک سکون آور سماجی سرگرمی تھا۔ نفاست پسند ملکہ الزبتھ کے بارے میں مشہور تھا کہ ضرورت ہو یا نہ ہو، وہ ہر تین ماہ بعد ضرور غسل کیا کرتی تھی۔ 1399ء کے انگلستان میں ہنری چہارم نے اپنے دربار کے امراء کو حکم دیا کہ وہ اپنی ملازمت کے دوران کم از کم ایک بار ضرور پانی کے ٹب میں اتریں۔ جب یہ ثابت ہوا کہ ماضی کی بہت سی وبائیں صفائی کے ناقص تصورات اور انتظامات کی وجہ سے پھیلیں تو ذاتی صفائی کے تصور نے زور پکڑا اور صابن دھڑا دھڑ تیار ہونے لگا۔ انگلینڈ اور فرانس میں اس کے منافع بخش ہونے کا ادراک تھا لہٰذا اس پر بھاری ٹیکس عائد کئے گئے۔ ایسے میں صرف شاہی خاندان کے افراد اور امراء ہی اس سے استفادہ کر سکتے تھے۔ کئی عالمی راہنما بھی اسے تحفے کے طور پر ایک دوسرے کو پیش کرتے تھے۔ ایک فرانسیسی کیمیادان نکولس لی بلینک(Nicolas Leblanc) نے لکڑی کی راکھ اور نمک سے سستا صابن تیار کرنے کا فارمولا دریافت کیا جس سے یہ ذرا کم آمدنی والے افراد تک بھی پہنچ گیا۔ 1852ء میں صابن پر ٹیکس واپس لے لیا گیا اور پھر گھروں کے اندر پانی کی سپلائی کے نظام کے ساتھ ہی صابن بھی عام لوگوں تک پہنچ گیا ۔

امریکہ و یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد چیزیں بڑے اور تجارتی پیمانے پر مشینوں کے ذریعے تیار ہونے لگیں۔ 1789ء میں اینڈریوپیئر ز نے اچھی کوالٹی کا شفاف صابن تیار کرنا شروع کیا لیکن اس حوالے سے امریکہ میں پہلی کمپنی تیار کرنے کا سہرا ولیم کولگیٹ کے سر ہے جس نے 1806 میںکولگیٹ کمپنی کی بنیاد رکھی۔ اس نے ایک بہت بڑی کیتلی تیار کروائی جس میں 45 ہزار پائونڈ صابن تیار کیا جا سکتا تھا۔ اس کے بعد ولیم پراکٹر اور جیمز گیم بل نے کمپنی بنائی۔ صابن کو باہم ملانے والی مشین کاآپریٹر ایک دن اسے کھلا چھوڑ کر لنچ کرنے چلا گیا جس کی وجہ سے بڑی مقدار میں ہوا اس میں داخل ہو گئی۔ اس غلطی کی وجہ سے تیار ہونے والے صابن میں پانی میں تیرنے کی صلاحیت بھی تھی ۔اس کے علاوہ جانسن کمپنی کھجور اور زیتون کے تیل سے صابن تیار کر رہی تھی جو اس قدر مقبول ہوا کہ انہوں نے کمپنی کا نام ہی ’’ پامولائیو‘‘ رکھ دیا۔ انگلینڈ کی لیوربرادرز نے اپنا سٹاف امریکہ بھیجا جس نے وہاں لائف بوائے تیار کیا جو زیادہ نہ بک سکا۔ اس میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں اور جسم کی بدبو کو بنیاد بنا کراس کی مارکیٹنگ کی گئی جو کامیاب رہی۔ آج ان ناموں سے جو صابن استعمال ہو رہے ہیں‘ان کے فارمولے ابتدائی فارمولوں سے بہت مختلف ہیں لیکن ان کی جڑیں بہرحال ابتدائی دریافتوں میںہی پیوست ہیںاور تاریخی تسلسل نے ہی انہیں جدید شکل دی ہے۔

Vinkmag ad

Read Previous

تندوری مچھلی Tandori Fish

Read Next

روسٹ چکن رولز Roast Chicken Rolls

Leave a Reply

Most Popular