سوائن فلو حقیقی خطرہ یا محض سنسنی خیزی

میڈیا میں سوائن فلو پھیلنے اور اس کی وجہ سے اموات کی خبریں ایک دفعہ پھر نمایاں طور پر شائع اور نشر ہورہی ہیں۔اس کی وجہ سے ذہنوں میں بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں اوربہت سے لوگوں میں خوف و ہراس بھی پایا جاتا ہے۔ سوائن فلو کیا ہے، یہ کیسے پھیلتا ہے اور اس سے بچاو¿کے لئے کیا کرناچاہئے؟اتفاق ہسپتال لاہورمیں شعبہ متعدی امراض (Infectious Diseases)کے ماہر ڈاکٹر نوید راشد ان تمام سوالات کے جوابات دے رہے ہیں (انٹرویو: محمد زاہد ایوبی) 


یہ بتائیے کہ سوائن فلو کیا ہے اور سوائن یعنی خنزیر سے اس کا کیا تعلق ہے؟
سوائن فلو بھی عام فلو کی طرح وائرس سے پھیلتا ہے۔قارئین کے لئے یہ بات شاید دلچسپی کی حامل ہو کہ فلو وائرس انسانوں کے علاوہ جانوروں اور پرندوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ مخصوص موسموں میں نزلہ زکام کی شکایت بڑھ جاتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ فلو کا باعث بننے والا وائرس ان موسموں میں زیادہ متحرک ہوجاتا ہے۔ باقی موسموں میں وہ انسانوں سے پرندوں اورجانوروں کو منتقل ہوجاتاہے۔ یہ وہاں پڑارہتا ہے اور اگلے موسم میں پھر اپنا کام شروع کر دیتا ہے۔ انسانوں سے جانوروں میں منتقلی کے دوران اس کی جینیاتی خصوصیات تبدیل ہوجاتی ہیں۔ اس طرح پیداشدہ وائرس، عام وائرس کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ طاقتور ہو تا ہے۔تاریخ میں کئی دفعہ ایسی وبائیں پھیلیں جن کا سبب اسی قسم کے وائرس تھے۔ اس کی ایک مثال 1918-19ءکے دوران پھیلنے والا ہسپانوی نزلہ(Spanish flue) ہے جس میںجنگ عظیم اول سے بھی زیادہ جانیں ضائع ہوئیں۔ سوائن فلو کی کہانی بھی اس سے ملتی جلتی ہے۔ اپریل2009ءمیں یہ پہلی دفعہ میکسیکو(امریکہ) میں سامنے آیا۔جب اس کا سبب بننے والے وائرس کا جائزہ لیاگیاتو معلوم ہوا کہ اس کی خصوصیات سوائن(خنزیر) میںپائے جانے والے وائرس سے ملتی جلتی ہیں۔ اس طرح اس کا نام ’سوائن فلو‘پڑ گیا ۔

٭یہ وبائی صورت کیسے اختیار کر گیا؟
٭٭میکسیکو سے یہ امریکہ بھر میں پھیلا جس کے بعد یہ دنیاکے مختلف حصوں میں منتقل ہو گیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آج کے دور میں رابطے زیادہ آسان اور تیز ہوگئے ہیںاور لوگوں کا ایک ملک سے دوسرے میں آنا جانا بہت بڑھ گیا ہے۔جب یہ دنیا بھر میں پھیل گیا تو اسے موسمی زکام قرار دے دیا گیا۔ اس کے خلاف ویکسین بھی بن گئی جو بکثرت استعمال ہونے لگی۔ امریکہ میں یہ مرض کوئی بڑا خطرہ نہیں رہا تاہم دنیا کے بہت سے حصوں میں یہ اب بھی اسی طرح نقصان پہنچا رہاہے جیسے یہ بالکل نیا وائرس ہو۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ممالک میں لوگوں کے جسم اس کے خلاف دفاع کے لئے تیار نہیں۔پاکستان میں بھی یہی صورت حال ہے۔
٭کیا سوائن فلو کاخطرہ بیرون ملک سے آنے والوں یا ان سے ملنے کے لئے جانے والوں کو ہے یا یہ کسی کوبھی ہو سکتا ہے؟
٭٭اگر آپ مجھ یہ سوال2009ءمیں پوچھتے تومیںکہتا کہ اگر آپ میکسیکو سے آئے ہیں تو میں آپ کے فلو کو سوائن فلوہی سمجھوں گا۔ 2010ءکے بعد سے یہ وائرس دنیا بھر میں موجود ہے۔ اس نے وسیع پیمانے پر پھیلاﺅ سے آگے بڑھ کروبائی اور پھر عالمگیر وبائی (pandemic) صورت اختیار کی اور اب یہ مرض بعد از عالمگیر وباء( post pandemic) کے درجے میں ہے یعنی دنیا میں ہر جگہ پایا جاتا ہے ۔ اس لئے اب اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ آپ نے بیرون ملک سفر کیاہے یا نہیں۔

٭اس سے اتنا زیادہ خوف کیوں پھیلا؟
٭٭ جب کوئی بیماری ہم پر حملہ آور ہوتی ہے تو ہمارا جسم اس کے جراثیم کے خلاف اینٹی باڈیز بنالیتا ہے۔ اگلی دفعہ جب وہ جراثیم حملہ آور ہوتے ہیں تو یہ اینٹی باڈیز انہیں ختم کردیتی ہیں۔ سوائن فلو چونکہ ایک نیا وائرس تھا جس کے خلاف لوگوں میں قوت مدافعت نہیں تھی لہٰذا وہ اس کا مقابلہ نہ کرسکے۔ اس لئے وباءپھیلتی گئی اور اموات ہوتی گئیں۔ یہی خوف کی بنیادی وجہ تھی۔ ایک سال گزرنے کے بعد اس وائرس کے ساتھ وہی کچھ ہوا جو عام وائرسوں کے ساتھ ہوتا ہے، یعنی اس کے خلاف اینٹی باڈیز موجود تھیں ۔اس طرح اس نے نسبتاً کم نقصان پہنچایا۔

٭ایک تاثر یہ ہے کہ پاکستان میں اس کا خطرہ اتنا زیادہ نہیں جتنا اس کا خوف پایا جاتا ہے ۔آپ کیا کہیں گے؟
٭٭ہمارے ہاں ہرنزلہ زکام کو سوائن فلو کے تناظر میں ٹیسٹ نہیں کیا جاتا۔ اس لئے یقین سے کہنا مشکل ہے کہ یہاں اس کی حقیقی شرح کیا ہے ۔ پاکستان میں اس کا وہی مریض ہسپتال میں آتا ہے جس کا مرض بہت زیادہ بگڑچکا ہو۔ جب ٹیسٹ کیا جاتا ہے تومعلوم ہوتا ہے کہ وہ سوائن فلو ہے اور جب اس کی موت ہوتی ہے تو خوف پھیل جاتا ہے اور تاثر یہ بنتا ہے کہ سوائن فلو موت کادوسرا نام ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں(انڈیا/پاکستان)یہ ایسے ہی موثر ہے جیسے پہلی دفعہ آیاہو۔اس لئے اس کا خوف بے جا بھی نہیں ہے۔لاہور‘ راولپنڈی‘ملتان‘بہاولنگراور مظفرگڑھ میں اس کے کئی مریض رپورٹ ہوئے ہیں۔

٭اس وائرس کی منتقلی کا ذریعہ کیا ہے ؟
٭٭یہ وائرس صرف سانس کے ذریعے اور چھوٹے قطروں کی مدد سے پھیلتا ہے۔جب اس وائرس کا حامل فرد چھینکتا‘ بات کرتایا کھانستا ہے تو یہ دوسروں تک منتقل ہو جاتا ہے۔

٭یہ بتائیے کہ اس میں اور عام فلو وائرس میںکیا فرق ہے؟
٭٭عام فلو چند دن تک موثر رہنے کے بعد ختم ہو جاتا ہے جبکہ یہ فلو نمونیا اور دوسری پیچیدگیوں کا باعث بنتا ہے۔ عام وائرس بچوں اور بزرگوں پر زیادہ حملہ آورہوتا ہے‘ اس لئے کہ ان کی قوت مدافعت نسبتاًکمزور ہوتی ہے۔دوسری طرف دلچسپ بات یہ ہے کہ سوائن فلو نوجوانوں اور صحت مندافراد کو زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی حقیقی اور حتمی وجہ تو معلوم نہیں لیکن ایک خیال یہ ہے کہ بزرگوں نے چونکہ زندگی کی بہت سی بہاریں دیکھی ہوتی ہیں اور انہیں بہت دفعہ نزلہ زکام ہوا ہوتا ہے،اس لئے ان کے جسموں میں کچھ ایسی اینٹی باڈیز بھی پیداہوجاتی ہیںجو انہیں کسی حد تک اس سے محفوظ کردیتی ہیں ۔اس وائرس اور عام فلو کے وائرس میں ایک اورفرق یہ ہے کہ اس کا وائرس سال کے کسی بھی حصے میں حملہ آور ہو سکتا ہے۔

٭ سوائن فلو کی علامات کیا ہیں؟
٭٭فلو عام ہو یا سوائن‘بالعموم ان کی علامات میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔تاہم عالمی ادارہ صحت، سی ڈی سی اورنگہداشت صحت سے متعلق دیگر اداروں نے کچھ علامات بتائی ہیں جن کی مدد سے اس کی تشخیص آسان ہوجاتی ہے۔ ان علامات میں بخار کے ساتھ تھکاوٹ‘ جسم کا دُکھنا (جس میں ہڈیوں اور پٹھوں کی دُکھن بھی شامل ہے)‘گلا خراب ہونا‘ سرمیں درد‘ کھانسی اور بعض اوقات متلی اور پیچش لگنا بھی شامل ہیں۔ اگربخار کے ساتھ ان میں سے کچھ علامات ظاہر ہوں اور وہ تین دن تک برقرار رہیں تو فزیشنز کو چاہیے کہ وہ سوائن فلو کے امکان کو بھی لازماًمد نظر رکھیں۔

٭عام فلو بھی ہفتہ لے ہی لیتا ہے۔ پھر اسے سوائن فلو سے الگ کیسے کیا جائے گا؟
٭٭اس میں مرکزی حیثیت بخار کی ہے۔اگر کسی کو ویسے چھینکیں آرہی ہیں لیکن ساتھ بخار نہیں تو اس بات کا صفر امکان ہے کہ اسے سوائن فلو ہو۔ بخار کے ساتھ گلہ خراب یا کمزوری ہو، تب سوائن فلو کا امکان ہوتا ہے۔

٭اس سے بچاو¿ کے لئے کیا کیا جا سکتا ہے ؟
٭٭اگرکسی فرد میں بخار کے ساتھ مذکورہ بالا علامات پائی جائیں تواسے سوائن فلو کا خدشہ ہو سکتا ہے ۔ ایسے افراد کوچاہیے کہ ماسک استعمال کرےں۔

٭کیا اس کے لئے خاص قسم کے ماسک کی ضرورت ہوتی ہے ؟
٭٭ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ٹشوپیپر کی طرح کا عام ماسک اس کے لئے کافی ہے۔ اگر خدانخواستہ آپ کو یہ مرض لگا ہوا ہو تو اپنے اردگرد چھے فٹ کی حدود میں کسی کو مت آنے دیں۔ اگر یہ وائرس کسی چیز مثلاً فرش، دروازے کے ہینڈل یا جانور وغیرہ پر بیٹھ جائے تو یہ 24گھنٹے تک موثر رہتا ہے اور کسی دوسرے فرد میں منتقل ہو کر اسے بیمار کر سکتا ہے۔ اس لئے اس وائرس کو منہ سے نکلتے ہی قابو کریں اوراسے کسی ایسی جگہ ضائع کریں جہاں سے یہ دوسروں تک نہ پہنچ سکے ۔اگر کھانسی ہو تومنہ پر کپڑارکھیں‘ ہاتھ کی پشت پر کھانسیں یا کہنی کی اندرونی سطح سے منہ کو ڈھانپ لیں۔ حاملہ خواتین‘بچے‘ بزرگ اور شوگر اور دل کے مریض خاص طور پراحتیاط کریں۔

٭کیااس کی ویکسین پاکستان میں دستیاب ہے؟
٭٭پاکستان میں فلو کی ویکسی نیشن کا رواج بہت ہی کم ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں لوگ اس کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ہر سال کے لئے نئی ویکسین تیار ہوتی ہے جس میں نئے فلو وائرسوں کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔2009ءمیں سوائن فلو کے پھیلاﺅکے بعد اگلے سال کی ویکسی

ن میں اس سے بچاﺅ کا انتظام بھی شامل کیا گیا۔ آج کل پاکستان میں انفلوئنزا کی جو نئی ویکسین لگ رہی ہے‘ اس میں اس سے بچاﺅ کی صلاحیت شامل ہے۔ اس لئے میںتجویز کروں گا کہ لوگ ہرسال فلو کی ویکسین ضرور لگوالیا کریں۔
٭ہمارے ہاںلاکھوں کی آبادی میں چند لوگوں کو سوائن فلو ہوتا ہے۔کیا اس کے باوجود سبھی لوگ اس کی ویکسین لگوائیں؟
٭٭اگر کسی کو ویکسین سے ری ایکشن ہوتا ہو تووہ اس سے اجتناب کرے‘ورنہ سب لوگ اسے لگوائیں۔ میڈیکل سٹاف مثلاً ڈاکٹر، نرسیں، ٹیکنیشنزاور وارڈ بوائز وغیرہ کے علاوہ بیمار لوگ اسے ترجیحاً لگوائیں۔یاد رہے کہ ویکسین لگوانے کے باوجود انفلوئنزا ہوسکتا ہے‘ اس لئے کہ وائرس کی بہت سی قسمیں ہیں، تاہم اس کا امکان اور شدت کم ہوگی۔یہ ویکسین اتنی مہنگی نہیں ہے۔ اگرسال میں 547روپے اس پر خرچ کر لئے جائیں تو یہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں۔

٭ایک تاثریہ ہے کہ ویکسین انڈسٹری اس کی ضرورت کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کرتی ہے ؟
٭٭میں تو سائنسی بنیاد پر بات کروں گا اوراعدادو شماریہی بتاتے ہیں کہ اس کی مدد سے فلو پر قابو پانے میں بہت مددملی ہے۔

٭ اگر یہ مرض ہو جائے تو کیا کرنا چاہئے؟
٭٭اگر مریض بہت زیادہ تکلیف میں نہ ہو توترقی یافتہ ملکوں میں یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ مریض گھر پر ہی رہے اور فون پرڈاکٹر سے مشورہ کرے تاکہ اس کا مرض دوسروں تک نہ پھیلنے پائے۔ وہاں عملہ گھر میں آکربلغم کا سیمپل لے جاتا ہے اور مریض کو وہیں ادویہ فراہم کر دی جاتی ہیں ۔اگر مریض ہسپتال آئے تو اسے چاہیے کہ آتے ہی ڈاکٹر کو بتادے کہ اسے سوائن فلو کا خدشہ ہے۔ ڈاکٹر کوچاہئے کہ فوراًحفاظتی انتظامات کرے اور مریض کو باقی مریضوں سے الگ کر دے۔اس کے بعد وہ اس کی سیمپلنگ کرکے علاج شروع کردے۔ ہمارے ہاںبدقسمتی سے ابھی تک ڈاکٹروں میں بھی اس کا شعور نہیں لہٰذا بالعموم وہ مریض کو عام فلو کی دوائیں دے کر رخصت کر دیتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کہتا ہے کہ اگر کسی کمیونٹی میں سوائن فلو کاایک کیس بھی رپورٹ ہوگیا ہو تو ہر فلو کو اس نظر سے ہی دیکھا جانا چاہیے‘ جب تک کہ یہ ثابت نہ ہو کہ وہ سوائن فلو نہیں۔

٭کیا اس کی دوائیں بھی یہاں موجود ہیں؟
٭٭یہاں گولیوں کی شکل میں اس کی ادویہ دستیاب ہےں تاہم وہ مفت نہیں اور نہ ہی عام فارمیسیوں سے ملتی ہیں۔ سرکاری ہسپتال اس کا اپنے طور پر انتظام کرتے ہیں۔

٭کیا ہم ڈاکٹری مشورے کے بغیرپیناڈول خود لے سکتے ہیں؟
٭٭اگر کسی شخص کو اس سے الرجی نہ ہو تو وہ لے سکتا ہے تاہم دھیان رہے کہ اس کی مقدار ایک حد سے تجاوز نہ کرے ۔اس کی خوراک عمر کے حساب سے مختلف ہوتی ہے۔ مثلاً بالغ افراد ہر آٹھ گھنٹوں کے بعد دوگولیاں لے سکتے ہیںجبکہ بچوں میں یہ خوراک مختلف ہے۔ اگرتین دن میں فرق نہ پڑے یا اس دوران طبیعت زیادہ بگڑ جائے یا نئی نئی علامات ظاہر ہونے لگیں تو پھر دیر نہ کریں اورفوراًڈاکٹر سے رجوع کریں۔

٭اس تناظر میں آپ قارئین کو کیا پیغام دینا چاہیں گے ؟
٭٭صفائی نصف ایمان ہے۔ یہ آداب معاشرت میں شامل ہے کہ کسی کو کھانسی آئے تو وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر کھانسے تاکہ دوسرے اس سے محفوظ رہیں۔ ہمیں انفرادی سطح پر یہ کام ضرور کرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں اس شعور کو پھیلانا چاہیے کہ اس کی ویکسین ضرور لگوائی جائے ۔اگر گھر کے 10لوگوں میں سے آٹھ افراد نے یہ لگوائی ہے تو باقی دو کے گرد ایک حفاظتی حصار بن جاتا ہے۔

Vinkmag ad

Read Previous

خشک جلد کے لیے آپ کیا کرتے ہیں ؟

Read Next

ذیابیطس کو شکست

Leave a Reply

Most Popular