Vinkmag ad

چمکتے دانت ،دمکتی مسکراہٹ

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ اگر کسی وجہ سے دانت گر جائیں یا اس قابل نہ رہیں کہ ان سے کچھ چبایا جائے تو کیا ہوگا؟ یقیناًہم جو انواع اقسام کی چیزیں کھاتے ہیں ،ان سے محروم ہو جائیں گے اور ہماری خوراک صرف دلیے اور نرم غذا تک محدود ہو جائے گی ۔اگر دانت گندے ہوں تو نہ صرف بیماریوں کا سبب بنتے ہیں بلکہ آپ کھل کر مسکرا بھی نہیں سکتے ۔ دانتوں کی اچھی صحت اور زندگی سے بھرپور مسکراہٹ کے لیے ضروری ہے کہ ان کی صفائی کا خیال رکھا جائے۔ شفاانٹر نیشنل ہسپتال کے ماہر امراض دنداں
ڈاکٹر محمداظہر شیخ سے گفتگو کی روشنی میں ایک معلوماتی تحریر


پاکستان میں اوسطاً ہر تین میں سے ایک شخص مسوڑھوں کے مسائل میں مبتلا ہے۔ یہاںدوسرا بڑا مسئلہ دانتوں میں کیڑا لگنا اور ان میںسوراخ ہو جانا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ دانتوں کا صاف نہ ہونا ہے۔ دانتوں کی صفائی کی اہمیت اس بات سے واضح ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ اگر مجھے اپنی امت کی مشقت کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر نماز سے پہلے مسواک کو فرض کر دیتا۔ کھانے پینے کی ہر چیز منہ کے ذریعے ہی جسم میں جاتی ہے۔ اگر ہم منہ کی صفائی نہیںکریں گے تو گونا گوں مسائل کا شکار ہو جائیں گے۔
میٹھے کھانے دانتوں کی شامت
دانت کی اوپر والی سطح پر جب کیڑا لگتا ہے تو درد نہیں ہوتا بلکہ اس پرصرف کالا سانشان بنتا ہے۔ جب وہ بڑھتے بڑھتے دانت کے اند رسوراخ کردیتا ہے تب درد ہوتا ہے اورہمیں ٹھنڈا گرم بھی لگتا ہے۔اگر پھر بھی توجہ نہ دی جائے تو یہ جڑ تک پہنچ جاتا ہے جہاں درد کو محسوس کرنے والی نسیں موجودہوتی ہیں۔ اس وقت دانت میں شدید درد ہوتا ہے۔ ایسا عموماًزیادہ میٹھا کھانے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ میٹھا مناسب مقدار میں کھائیں اور کھانے کے فوراً بعد دانت برش کریں۔
بچپن کی عادت
جب بچے کا دودھ کا پہلا دانت نکلے‘ اسی وقت سے کسی نرم کپڑے سے اسے صاف کرنا چاہیے۔ جو چیزبچپن میں سیکھی جائے‘ اس کی عادت تمام عمر رہتی ہے۔ اس لئے بچوں کو سال یا سوا سال کی عمر میں نرم ریشوں والا برش استعمال کروانا چاہیے۔ مائیں بچوں کے پیچھے کھڑے ہو کر ان کا سر ہاتھ میں لے کر بہت آرام آرام سے انہیں برش کروائیں۔بچوں کو دانت صاف کرنے کی طرف راغب کرنے کیلئے ٹوتھ پیسٹ میں مختلف فلیورز استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان میں فلورائیڈ کی مقدار بھی بہت کم ہوتی ہے لہٰذا یہ ان کے دانتوں کو نقصان نہیں پہنچاتے۔
دانت صاف کرنے کا صحیح طریقہ
اکثر لوگ دانتوں کو دائیں سے بائیں یا بائیں سے دائیں برش کرتے ہیں جو صحیح طریقہ نہیں ہے۔ ایسا کرنے سے دانتوں کی خالی جگہیں صاف نہیں ہوتیں۔ اس کے علاوہ دیگر دانتوں کامیل بھی ان میںچلا جاتا ہے۔ اوپر والے دانتوں کو اوپر سے نیچے اور نیچے والے دانتوں کو نیچے سے اوپر کی طرف برش کرنا چاہیے۔ دانتوں کے پیچھے اور زبان کے ساتھ والی جگہ بھی ضرور صاف کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ ایک طرف سے دانت صاف کرتے ہو ئے دوسری طرف لے کر جائیں ۔زبان پر بھی برش ضرور کرنا چاہیے۔
دانتوں کو صاف کرنے کے کچھ گھنٹوں کے اندر اس پر پلاک جمنا شروع ہو جاتاہے۔ اگر اس کو روزانہ صاف نہ کیا جائے تو یہ بڑھتا رہتا ہے اور پھر پتھر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس صورت میں اس کو برش بھی صاف نہیں کر سکتا۔ لوگ دانت صاف کرنے کے عمل کو اتنا وقت نہیں دیتے جتناکہ دینا چاہیے۔ مزید یہ کہ ہم سامنے سے دانت صاف کر لیتے ہیں اور پیچھے سے نہیں کرتے۔
فلاسنگ کی اہمیت
دانتوں کے جن حصوں میں برش نہیں پہنچ پاتا‘ وہاں دھاگے سے فلاسنگ کی جاتی ہے۔ اس کے لیے استعمال کیا جانے والا دھاگہ عام نہیں بلکہ ذرا چپٹا اور نرم ہوتا ہے۔ یہ دانتوں کے درمیان سے پتلا ہو کر گزر جاتا ہے۔ فلاسنگ روزانہ یا ہر دوسرے دن ضرورکرنی چاہیے۔
سگریٹ کے نشانات
سگریٹ کا دھواں اور اس کے کیمیکلز دانتوں کے اوپر جم جاتے ہیں اور ایسے نشان چھوڑتے ہیں جو برش کرنے پر بھی نہیں جاتے۔ اسی طرح چائے یا کافی اگر مستقلاً استعمال کی جائے اور اس کے بعد دانت صاف نہ کئے جائیں تو دانتوں پر نشان رہ جاتے ہیں۔ ایک ڈینٹسٹ ہی اسے خاص طریقے سے صاف کرتا ہے جسے سکیلنگ (scaling) کہتے ہیں۔ اس میں ایک مشین کی مدد سے دانتوں کی صفائی کی جاتی ہے۔ لوگ سخت برش اور سموکرز پیسٹ کی مد د سے دانت صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کسی حد تک تو مفید ہےں لیکن اس سے مکمل طور پر دانت صاف نہیں ہوتے۔ اس لئے بہتر ہے کہ سکیلنگ کروائی جائے۔
دانتوں کی فِلنگ
اگر دانتوں کی مناسب دیکھ بھال نہ ہو تو جراثیم دانت کے اندر سوراخ کر دیتے ہیں جو آہستہ آہستہ بڑے ہونے لگتے ہیں۔ ان سوراخوں کو بھرنے کے لیے فِلنگ کی جاتی ہے۔ اس کے لیے مختلف قسم کے مٹیریلز استعمال کیے جاتے ہیں ۔مثلاً چاندی اور مرکری ملا کر لگائی جاتی ہے۔ آج کل دانت کے رنگ کا مٹیریل بھی استعمال ہوتا ہے۔ کچھ فلنگز میں فلورائیڈ ہوتاہے جو دانتوں کو دوبارہ کیڑا لگنے سے بچاتا ہے۔
ادویات اور دانتوں کی دیکھ بھال
ادویات براہِ راست دانتوں کو نقصان نہیں پہنچاتیں لیکن اگر وہ میٹھی ہوں تو پھر بعض اوقات دانتوں کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔ اس لیے آج کل شوگر فری ادویات بھی دستیاب ہیں۔ ذیابیطس کی صورت میں مسوڑھوں کو زیادہ نقصان ہوتا ہے اور وہ کمزور ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ان کی صفائی کا خیال بھی زیادہ رکھنا پڑتا ہے۔گردے یا جگر کی پیوندکاری کرانے والے مریض ایسی ادویات لے رہے ہوتے ہیںجن سے ان کی قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے۔ ایسے میں انفیکشن کے خطرات زیادہ ہو جاتے ہیں۔
حاملہ خواتین ،خصوصی احتیاط
حمل کے دوران خواتین کو متلی اور قے کی شکایت رہتی ہے ۔ ایسے میں وہ اکثر لیموں یا املی وغیرہ کا استعمال کرتی ہیں۔ ایسی چیزوں میں تیزاب ہوتا ہے جو دانتوں کے لئے نقصان دہ ہے۔کھٹی چیزوں کے زیادہ استعمال اوردانتوں کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے مسوڑھے حساس ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں دانتوں کے امراض تےزی سے پھیلتے ہےں ۔مثال کے طور پر اگر کسی بیماری کو پھیلنے کے لیے 100 جراثیم درکار ہوں تو یہاں اس کام کے لئے 50جراثیم ہی کافی ہوں گے۔ اگر حاملہ خواتین دانتوں کی صفائی کاخیال نہیں رکھیں گی تو ان کے بچے کی صحت بھی متاثر ہو گی۔
”پرہیز علاج سے بہتر ہے“ کی کہاوت جتنی دوسری بیماریوں کے لیے صحیح ہے‘ اتنی ہی دانتوں کے لئے بھی ٹھیک ہے۔ دانتوں اور مسوڑھوں کی بیماریوں سے بچنے کا طریقہ یہی ہے کہ صفائی کا خیال رکھا جائے اورصحت بخش خوراک کھائی جائے۔ آپ پھلوں اورسبزیوں کا استعمال زیادہ کریں۔ میٹھامناسب مقدار میں ہی استعمال کریں اور اس کے فوراً بعد دانت برش کریں۔ اس کے علاوہ سال میں کم از کم ایک دفعہ کسی ڈینٹسٹ کے پاس ضرورجائیں۔

Vinkmag ad

Read Previous

خواتین 20 منٹ اپنے لیے ضرور نکالیں ورزش ہانڈی روٹی سے کم اہم نہیں

Read Next

تشخیص, علاج اوردیکھ بھال بچوں میں پیدائشی معذوریاں

Leave a Reply

Most Popular