تشخیص, علاج اوردیکھ بھال بچوں میں پیدائشی معذوریاں

جب کوئی خاتون امید سے ہوتی ہے تواردگرد کے لوگوں میں فوراً ’بیٹا‘ یا’ بیٹی‘ کی چہ مگوئیاں شروع ہوجاتی ہیں حالانکہ پہلی دعا یہ مانگنی چاہئے کہ وہ جو بھی ہو‘ مکمل طور پر صحت مند اور ہر طرح کی معذوریوں سے پاک ہو۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں پیدائشی طو پر گونگے بہرے‘ نابینایا ذہنی طور پرمعذور بچوں خی تعداد بڑھ رہی ہے ۔ انہیں پالنا اور ان کی تعلیم و تربیت والدین کے لےے انتہائی کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔ان سے وابستہ معاملات کی فہم اس مشکل کو آسان بنا دیتی ہے ۔ ناجدہ حمید کی معلوماتی تحریر


جسمانی اور ذہنی طور پر مکمل اور صحت مند ہونا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔اگر خدانخواستہ ہمارا کوئی عضو موجود نہ ہو یا اس میں کوئی نقص ہو تو علاج پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کے باوجود اکثر صورتوں میں وہ اصل جیسا نہیں مل سکتا۔ ان کی قدروقیمت وہی جانتے ہیں جو بد قسمتی سے معذورپیدا ہوتے ہیں۔کچھ بچے پیدائشی طو پر گونگے اور بہرے تو کچھ نابینا پیدا ہوتے ہیں۔ کچھ ذہنی طور پرپسماندہ جنم لیتے ہیںجنہیںپالنا اور ان کی تعلیم و تربیت والدین کے لےے انتہائی کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ ایک مکمل اور صحت مند بچے کی دعا کیا کرتی تھی۔ اللہ کے فضل و کرم سے موحدمکمل طور پر صحت مند بچہ ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میںپانچ ملین افراد معذور ہیں جن میں سے 43.4 فی صدبچے ہیں۔ ان بچوں میں 58.4فی صد بچے او ر41.6فی صد بچیاں ہیں۔یعنی معذور بچوں کی تعداد بچیوں سے زیادہ ہے۔ صرف 14فی صد معذور افراد کام کاج کرتے ہیں جبکہ باقی اپنی ضرورتوں کے لےے اپنے خاندان یا دیگر افراد پر انحصار کرتے ہیں۔
سننے اور بولنے سے محروم
ہم اپنے ارد گرد کہیں نہ کہیں گونگے اور بہرے افراد یا بچوں سے ملے ہوتے ہیں۔ ان کی حالت دیکھ کران کے ساتھ ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اس معذوری کی بڑی وجہ موروثیت ہے اور ماہرین صحت کہتے ہیں کہ ایک ہی خاندان میں مسلسل شادیاں کرنے سے جنم لینے والے بچوں میں جو مسائل ظاہر ہونے لگتے ہیں‘ ان میں سے ایک گونگا بہرہ پن بھی ہے۔دورانِ حمل دواو¿ں کے غیرمحتاط استعمال سے بھی ایسا بچہ پیدا ہوسکتا ہے۔
علی میڈیکل سنٹر اسلام آباد کے ماہر امراض بچگان ڈاکٹر عبدالحمید پراچہ کا کہنا ہے کہ پیدائش کے فوراً بعد بچے کا گونگا بہرہ پن ظاہر نہیں ہوتا اور نہ ہی اس وقت کسی ٹیسٹ کے ذریعے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بتاےا کہ تین ماہ کی عمر سے بچے آواز پر اپنا رد عمل ظاہر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔وہ آواز سنتے ہی چوکنا ہوجاتے ہیں یا آوا ز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔اگر بچے کی سماعت میں مسئلہ ہوتووہ اس کی طرف متوجہ نہیںہوتا۔ اس سے والدین اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بچے کی سننے کی حس کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے۔
اسی طرح چار ماہ کے بچے مختلف آوازیں نکالنے لگتے ہیں۔ اگر بچہ گونگا بہرہ ہو تو اس کے والدین کوچھے ماہ میں اس کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ اس عمر (چھے ماہ )کے بعد سماعت وغیرہ کے ٹیسٹ کےے جاتے ہیں۔آلہ سماعت کے استعمال اور سپیچ تھیراپی کے ذریعے بچے کی حالت میںکسی حد تک بہتری لائی جا سکتی ہے۔
جو دیکھ نہیں سکتے
دیگر معذوریوں کے ساتھ ساتھ بچوں میں پیدائشی نابیناپن بھی عام ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں 39 ملین لوگ نابینا ہیں جن میں بچوں کی تعداد19ملین ہے۔ پاکستان میں تقریباًدو ملین افراد اندھے ہیں۔
معذور افراد کی بہبود سے متعلق ادارے ”ڈِس ایبل ویلفیئر ایسوسی ایشن کراچی“ کے سربراہ اور ماہر امراض ِ چشم ڈاکٹر ایم شاہنواز مونامی کا کہنا ہے کہ پاکستان میںنابیناپن کی ایک وجہ موتیا ہے۔اس کا علاج ممکن ہے لیکن بد قسمتی سے والدین کی عدم توجہی اور شعور کی کمی کے باعث ایسے بچے ساری زندگی اندھیروں میں گزارنے پر مجبور ہیں۔
ڈاکٹر شاہنوازنے پاکستانی بچوں میںنابینا پن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے 66فی صدبچے مو تےے کا شکار ہیں جنہیں متعلقہ شعبے کے ماہر ڈاکٹر سے معائنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالحمید کے نزدیک پیدائشی اندھے پن کی وجوہات میں موروثیت اور سفید موتیے کے علاوہ دوران حمل ماں کو انفیکشن بھی شامل ہیں۔ نومولودبچوں میں اندھے پن کی علامات درج ذیل ہیں:
٭وہ آپ سے آنکھیں نہیں ملائیں گے اور دیکھنے والے کو ایسا لگے گا گویا بچہ کہیں دور ہوا میں دیکھ رہا ہے۔
٭ایسے بچوں کی آنکھیں ایک جگہ ٹک نہیں سکتیں یعنی ان کا فوکس خراب ہوتا ہے۔
٭نابینا بچے چونکہ دیکھ نہیں سکتے‘ اس لےے وہ آپ کے دیکھنے پر مسکرائیں گے نہیں اور نہ کسی اور طرح کا رد عمل ظاہر کریں گے۔
اگر مندرجہ بالا علامات بچے میں ظاہر ہوں تو ڈاکٹرسے ضرور معائنہ کرا لینا چاہےے۔تفصیلی جائزے کے لےے بچے کو امراض چشم کے ماہر ڈاکٹر کی طرف ریفر کیا جا سکتا ہے۔ نابینا بچوں کی تعلیم وتربیت کے لےے سپیشل سکول اور ادارے موجود ہیں جہاں انہیں مخصوص انداز سے تعلیم دی جاتی ہے۔
ذہنی طور پر پسماندہ
ذہنی پسماندگی سے مراد ذہانت کی ایک خاص حد سے زیادہ کمی‘ سیکھنے کے عمل کابہت سست ہونا اور روز مرہ زندگی میں عمومی صلاحیتوں کی کمی ہے۔ بچوں میں ذہنی پسماندگی کی بہت سی علا مات ہیں جو ابتدائی عمر میں ہی ظاہر ہو جاتی ہیں۔ بعض اوقات یہ اس وقت نمایاں ہوتی ہیں جب بچہ سکول جانے لگے۔ان علامات میںسے کچھ درج ذیل ہیں:
٭دیر سے بیٹھناشروع کرنا۔
٭ پیٹ ، گھٹنوں کے بل اور کھڑے ہوکر دیر سے چلنا۔
٭دیر سے بولنا یا بولنے میں دشواری ہونا۔
٭چیزوں کے سیکھنے میں سست ہونا۔
٭چیزیں ےاد رکھنے میں دشواری ہونا۔
٭رویوں کا نارمل نہ ہونا۔
٭ذہنی پسماندہ بچے صحت کے دیگرمسائل مثلاً بینائی اور سماعت متاثر ہونے جیسے مسائل کے بھی شکار ہو سکتے ہیں۔
ذہنی پسماندگی کے پیچھے بہت سی وجوہات بیان کی جاتی ہیں جن میں موروژیت،حمل کے دوران بچے کی دماغی نشوونما متاثر کرنے والے مسائل‘دورانِ زچگی پیچیدگیاں(مثلاً بچے کو آکسیجن کی فراہمی رک جانا)‘ وقت سے پہلے پیدائش یاپیدائش کے بعدکوئی شدید انفیکشن شامل ہیں۔ دنیا میں دو تہائی ذہنی پسماندہ بچوں کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکی۔
بچوں میں پیدائشی طور پر ذہنی معذوری کے خطرے کو کسی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لےے ضروری ہے کہ دوراں حمل خواتین وقت پر معائنہ کراتی رہیں، ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق وٹامنز لیتی رہیں اوراپنی خوراک کا بھی خاص خیال رکھیں۔اس کے علاوہ حاملہ عورت کی کچھ ویکسی نیشنز بھی ضروری ہےں۔
آخری بات
کسی بھی معذوری کے ساتھ زندگی گزارنا بچے اور والدین‘ دونوں کے لےے بہت صبرآزماہوتاہے۔ صحت مندمائیں ہی صحت مند بچوں کو جنم دے سکتی ہیں۔ اس لئے بچیوں(کل کی ماﺅں)کی خواراک اور صحت پر شروع سے ہی توجہ دینی چاہئے۔ خواتین کو چاہےے کہ حمل سے پہلے ہی فولک ایسڈ کا استعمال شروع کر دیں‘دوران حمل اپنی خوراک کا خیال رکھیں‘غیر ضروری دواو¿ں کے استعمال سے پرہیز کریں اور متواتر معائنہ کراتی رہیں۔گھر پر زچگی سے بہت سے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ اس لےے زچگی کے لےے ہسپتال ہی جانا چاہےے جہاں کسی ممکنہ پیچیدگی سے بروقت نمٹنے کے لےے بہتر سہولیات موجود ہوتی ہیں۔ اگر کسی وجہ سے یہ ممکن نہ تو زچگی کسی مستند‘ تجربہ کار اور دیانت دار دائی کے ہاتھوں ہونی چاہئے‘ اس لئے کہ ماں صحت مند ہو گی تو بچے اور پھر پورا معاشرہ صحت مند ہوگا۔

Vinkmag ad

Read Previous

چمکتے دانت ،دمکتی مسکراہٹ

Read Next

شوگر, دل بھی متاثر

Leave a Reply

Most Popular