Vinkmag ad

بہترین پرورش‘اچھی شخصیت کی بنیاد

والدین کابچوں کی تربیت میں ہر وقت اپنی بات منوانے پر اصرار دانشمندی نہیں۔یہ عمل بچوں میں بغاوت کو ابھارتا ہے اور وہ ماں باپ سے متنفر ہو جاتے ہیں۔شفا انٹر نیشنل ہسپتال اسلام آباد کی کلینیکل سائیکالوجسٹ ڈاکٹر عطیہ رحمٰن سے گفتگو کی روشنی میں ایک معلوماتی تحریر


بہت سے والدین یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کے بچے جوں جوں بڑے ہورہے ہیں‘ توں توں ان (والدین) سے لاتعلق ہوتے جارہے ہیں۔ ان کا گلہ بجا‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے اس رویئے کا بیج بہت پہلے یعنی بچپن میں ہی پڑ چکا ہوتا ہے۔ نوجوانی کے دور میں اولاد کے اپنے ماں باپ کے ساتھ تعلقات کی مضبوطی کا انحصاراس بات پر ہے کہ وہ بچپن میں انہیں کتنا وقت دیتے ہیں۔ یہ پرورش کا انداز ہی ہے جو تعلقات کو ٹھوس یا کمزور بنیاد فراہم کرتا ہے۔

تحکمانہ‘ دوستانہ‘ لاتعلق
کچھ والدین کا بات کرنے کا انداز تحکمانہ اور کچھ کااس سے بھی آگے بڑھ کر ہٹ دھرمی اور اپنی بات منوانے والاہوتا ہے۔ اس کے برعکس بعض والدین بہت ہی مہربان ہوتے ہیں جبکہ کچھ اپنے بچوں سے بالکل لاتعلق نظر آتے ہیں۔ بچوں کی والدین کے ساتھ وابستگی ہی نہیں‘ بچوںکے آپسی اور دیگر اہل خانہ کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی کا انحصار بھی بڑی حد تک پرورش کے انداز پر ہوتا ہے۔

بچوں کو توجہ سے سنیں
اچھے تعلقات بہتر ابلاغ سے بنتے ہیں اور دوسرے کی بات توجہ سے سننا ابلاغ کا پہلا اصول ہے۔ اگر آپ اپنے بچے کی معمولی سی بات بھی دھیان سے سن رہے ہیں اور اسے اس بات کا یقین دلا رہے ہیں کہ آپ ہر حال میں ان کے ساتھ ہیں تویہ عمل بچوں کے آپ پر بھروسے اور اعتماد کومضبوط کرے گا۔ اسی اعتماد کی وجہ سے وہ آپ سے ہر بات شیئر کریں گے۔ پرورش کا آئیڈیل انداز وہ ہے جس میں والدین بچے کی بات پوری طرح سے سننے کے بعد مانتے بھی ہیںاور دوسری طرف بچے بھی اسی جذبے اور روئےے کا اظہار کرتے ہیں۔ اس طرح وہ بچے کو بات ماننے کے ساتھ ساتھ اپنی بات بہتر انداز میں منوانا بھی سکھاتے ہیں۔

جذباتی وابستگی
والدین اور بچوں کے درمیان کمزور ابلاغ کی ایک وجہ والدین کا اپنے بچوں کو چھوٹی عمر میںوقت نہ دینا ہے۔بچوں کوعموماً تین سال سے بھی کم عمر میں سکول بھیج دیاجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ والدین سے ان کی جذباتی وابستگی نہیں ہوپاتی اورنہ ہی انہیں صحیح انداز میں خاندانی‘ ثقافتی اور مذہبی اقدارمنتقل ہوتی ہیں ۔بچے کی پڑھائی کم از کم چار سے پانچ سال کی عمر کے بعد شروع ہونی چاہیے تاکہ وہ والدین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارسکے۔ اس عمر میں بچہ بہت تیزی سے سیکھتا ہے اس لیے ماں باپ کو چاہیے کہ وہ انہیں ذہنی لحاظ سے اچھی بنیاد فراہم کریں۔

تعلیمی موازنہ
بچوں کی تعلیم کا زمانہ شروع ہونے کے بعد والدین کی طرف سے پہلی بڑی غلطی اولاد کادیگر بچوںکے ساتھ موازنہ کرناہے۔ یہ عمل خواہ سکول میں ہو یااس سے باہر‘ بچوں کی تربیت پربہت برا اثرڈالتا ہے۔ اسی طرح والدین کا اپنے بچوں میں سے کسی ایک کو زیادہ اہمیت دینابھی غلط ہے۔
تمام والدین چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ کلاس میں پہلی یا دوسری پوزیشن حاصل کرے۔ تعلیم کی اہمیت اپنی جگہ لیکن بچے کو اس بنیاد پر دباﺅ میں رکھنا غلط حکمت عملی ہے۔ یہ چیز اس کے اندر مادہ پرستی پیدا کرتی ہے اوراسے ایسے انسان کے روپ میں ڈھالتی ہے جس کی ساری توجہ اپنی ذات پر مرتکز ہوتی ہے۔ بچوں کو تعلیم کی اہمیت سے روشناس ضرور کرائیںلیکن اسے ان کے لیے بوجھ نہ بنائیں۔

شعبے کا انتخاب
تعلیمی میدان میں بچوں کے لیے کسی خاص شعبے کا انتخاب بہت اہم ہے۔ اس حوالے سے جب والدین بچوں کی دلچسپی کے خلاف ان پر اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں تونہ صرف بچوں کے ذہن میں ان کے لیے بغاوت اٹھتی ہے بلکہ وہ اسے اپنے لیے بوجھ بھی سمجھتے ہیں۔ اس شعبے میں دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے ان میں آگے بڑھنے کا شوق ختم ہوکررہ جاتا ہے۔ بعض اوقات ایسا وقت بھی آتا ہے جب بچے تین یاچار سال بعدان مضامین میں ناکام ہوکرپڑھائی کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔

دوسری طرف ایسا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ والدین بچوں کے فیصلوں کو من وعن قبول کرتے جائیں۔ بعض اوقات اس عمر میں بچے کسی خاص شعبے سے متاثر ہوتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ ان کے لئے موزوں بھی ہو۔ اس مرحلے پر بچوں کو والدین کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ مخصوص شعبوں کے بارے میںبچوںکو اچھی طرح آگاہ کردیاجائے اور پھر مکمل ہوم ورک کے بعد انہیں اپنی مرضی کا شعبہ منتخب کرنے دیا جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ بچوں کی پسند کی مختلف فیلڈزایک جگہ پر لکھیںاوراس کے ساتھ اس فیلڈ سے متعلق محنت کا معیار اور دیگر ممکنہ نتائج بھی لکھیں۔پسند ہونے یا کرنے کی صلاحیت کے اس فرق کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد ہی بچے اپنے لئے صحیح فیصلہ کرپائیں گے۔

محفوظ ماحول میں محفوظ ایڈونچر
بچوں کی شخصیت میں خود اعتمادی اچانک نہیں آتی۔ والدین کو انہیںبااعتماد بنانے کے لئے بچپن سے ہی کوشش کرنا ہوتی ہے۔ اس کے لیے انہیں محفوظ ماحول میں محفوظ ایڈونچر کی اجازت ضرور دیں ۔ہر بات پر روک ٹوک کا عمل ان کی فیصلہ کرنے کی قوت کو متاثرکرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اعتماد کو بھی کم کرتاہے۔ اس حوالے سے انہیں گھر سے باہر کی دنیا دیکھنے کے مواقع دینا بھی بہت اہم ہے۔ اپنے بچوں کو خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ گھلنے ملنے کی اجازت دیں اور انہیں گھریلو تقریبات میں شامل ہو نے کا بھی موقع دیں۔ اس سطح پران کا اعتماد اتنا ضروربحال ضرور ہونا چاہیے کہ اگر ان سے کوئی غلطی ہوجائے تو وہ اپنے والدین کو بتاسکیں۔

نوجوانی اور بغاوت
نوجوانی میں بچہ تین مختلف ادوار یا مدارج (پہلے‘ درمیانی اور آخری) سے گزرتا ہے۔ پہلادرجہ بچپن کے ساتھ جڑا ہوتاہے۔ اس میں اس کے شوق اورکھیل چھوٹے بچوں والے ہی ہوتے ہیں۔ اس دور میں آزادی کی طلب کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے ۔دوسرے درجے میں بچے کی نئی پہچان بن رہی ہوتی ہے۔ یہاں اس کے لیے اپنے دوست بعض اوقات والدین اور گھر والوں سے بھی زیادہ اہم ہو جاتے ہیں۔

بچوں میں درمیانے اور آخری دور میں بغاوت کے جراثیم پید اہوتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ آپ انہیں بہت پیار سے چیزوں کے مثبت اور منفی نتائج سمجھائیں۔ ان کے کسی شوق کو تنقید کا نشانہ مت بنائیں۔ ایسی عمر کے بچوں کو یہ بات بہت گراں گزرتی ہے کہ ان پر ہر وقت نظر رکھی جائے۔ مثال کے طو رپر اگر بچہ باہر کھیلنے گیا ہو اورآپ بار بار فون کریں گے تو وہ چڑ جائے گا۔ اس میں یہ احساس جنم لے گا کہ اس پراعتبار نہیں کیا جا رہا۔ اس دور میں ان پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ انہیں شخصی آزادی دینے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی باتوں اورضروریات کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں۔

بہترین پرورش وہ ہے جہاں کچھ قاعدے و قوانین وضع کیے گئے ہوں اور تمام اہل خانہ ان پر خوشی کے ساتھ عمل کرتے ہوں۔ اس میں بچوں کو ڈرا کررکھنے کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ بچے والدین کی عزت واحترام کو ملحوظ خاطر رکھ کر بات کرتے ہیں۔ انہیںاس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اگر وہ قوانین کے تحت نہ چلے تو ان کے والدین کو دکھ ہوگا۔ اگر ان پر والدین کا ڈر بہت زیادہ ہو تو پھر بغاوت جنم لیتی ہے۔ ان کی بات سنی جائے اور یہ بات ذہن میں بٹھا لی جائے کہ بچے کو ہر عمر میںوالدین کے مناسب وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔

پرورش کے انداز اور ماحول میں تھوڑا سا ردوبدل کر کے آپ اپنے بچوں کو اچھی اور مضبوط بنیاد فراہم کر سکتے ہیں۔ اسی بنیاد پر مستقبل میں ان کی اچھی شخصیت کی تعمیر ممکن ہو پائے گی۔ (ث۔ظ)

Vinkmag ad

Read Previous

ہماری صحت کس کا مسئلہ ہونا چاہیئے

Read Next

ایک دوا جس نے تباہی مچا دی

Leave a Reply

Most Popular