Vinkmag ad

کروٹ بدلنے ‘ بیٹھنے‘ گھٹنوں کے بل چلنے اور دانت نکالنے کے مراحل زندگی کا سفر ‘ چند اہم سنگ میل

وقت کا دھارا چلتا رہتا ہے اور بچہ لیٹے لیٹے کروٹ بدلنے کے مرحلے میں پہنچ جاتا ہے ۔ ایسے میں وہ بیڈ سے نیچے بھی گر سکتا ہے لہٰذا خاص احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس کے بعد بیٹھنے‘ گھٹنوں کے بل چلنے اور دانت نکالنے کے مراحل آتے ہیں۔ اگر ہر مرحلے سے متعلق ضروری معلومات موجود ہوں اور ماں تھوڑی سی سمجھداری سے کام لے تو یہ مراحل نہ صرف آسان بلکہ پرلطف بھی ہو سکتے ہیں۔ ماﺅں کیلئے ناجدہ حمید کی ایک معلوماتی تحریر


وقت اور چھوٹے بچوں کی بڑھوتری ساتھ ساتھ چلتے ہیں‘ اس لئے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بچے نت نئی حرکتیںکرتے ہیں۔یہ حرکتیںان کی نشوونما کے معمول کا حصہ معلوم ہوتی ہیں۔اس کے علاوہ یہ ان کے صحت مند ہونے یا نہ ہونے کا بھی پتہ دیتی ہیں۔لہٰذا ان کو نوٹ کرنا ضروری ہے۔
گرنابچوں کابیڈ سے
میرے بیٹے کی عمرکے چھٹے ماہ کا آغاز ہو گیا ہے اوراس نے بھی نت نئی حرکتیں شروع کر دی ہیں۔وہ پیٹ کے بل الٹا ہو جاتا ہے۔ جب اس پوزیشن میں لیٹے لیٹے تھک جاتا ہے تو شور مچانا شروع کردیتا ہے جس پر مجھے اس پر بہت لاڈ آتا ہے۔ اسی طرح کروٹیں بدلتا وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتا ہے۔میرے لےے یہ سب کچھ بہت خوش گوار ہے تاہم مجھے بہت محتاط بھی رہنا پڑتا ہے۔

میں جب کسی سے سنا کرتی تھی کہ اس کا بچہ بیڈ سے گر گیا تو بہت تعجب ہوتا تھا کہ اس کی ماں نے بچے کا خیال کیوں نہیں رکھا۔میں اس لمحے سوچتی تھی کہ اپنے بچے کو کبھی بیڈ سے نہیں گرنے دوں گی۔لیکن اب سمجھ میں آئی کہ حقیقت اور مفروضے میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ ابھی چند دن پہلے جب میرے بیٹے نے نیا نیا کروٹ لیناا ور الٹا ہونا شروع کیا تو وہ بیڈ سے نیچے گر گیا۔مجھے اس بات کا قطاً اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس عمر میں بھی بیڈسے گر سکتا ہے ۔میں سمجھتی تھی کہ بچہ جب گھٹنوں کے بل چلنا شروع کرتا ہے تواس کے گرنے کا خدشہ ہوتا ہے۔ یہ میرا پہلا تجربہ ہے‘ لہٰذا کتابی طور پر بہت کچھ جاننے کے باوجود عملاً بہت کچھ نیا سیکھ رہی ہوں۔

بیٹھنے کے عمل کی شروعات
میںجب اپنے بیٹے کے ہاتھوں میںاپنے ہاتھ دیتی ہوں تو وہ انہیں پکڑ کر ان کے سہارے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کرتا ہے۔اگر اس کی کمر کو سہارا دیا جائے تو وہ کچھ دیر تک اپنا وزن برقرار رکھ کر بیٹھ جاتا ہے اور پھر کبھی آگے یا کسی ایک طرف گر جاتا ہے۔اپنے بیٹے کواس مرحلے پر دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔
بچوں میں بیٹھنے کے عمل کی شروعات کی کوئی متعین عمر نہیں ہے۔بعض بچے جلدی بیٹھنا شروع کر دیتے ہیںتو بعض میں یہ کام ذرا دیر سے شروع ہوتا ہے۔ہر بچے کی جسمانی نشوونما کی رفتاردوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔بعض بچے دیکھنے میں تو زیادہ صحت مند دکھائی نہیں دیتے لیکن متحرک بہت زیادہ ہوتے ہیں۔اسی طرح بعض بچے دیکھنے میں تو بہت صحت مند ہوتے ہیں لیکن متحرک کم ہوتے ہیں۔جب میں نے علی میڈیکل سنٹراسلام آبادکے ماہر امراض بچگان ڈاکٹر عبدالحمیدپراچہ سے اس بارے میں بات کی تو انہوں نے کہا کہ بچوں میں بیٹھنے کا عمل عموماً چھے سے نو ماہ کی عمر میں شروع ہو جاتا ہے۔ تاہم اگر بچہ 10ماہ کی عمر تک پہنچ کر بھی نہ بیٹھے تو یہ غور طلب بات ہے۔ایسے میں ڈاکٹر کو چیک کرانا ضروری ہے۔

بچے‘ بیٹھنا شروع کرنے سے پہلے پیٹ کے بل الٹا ہونا سیکھتے ہیں۔اس سے ان کے پیٹ کے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں جو بیٹھنے میں مدد دیتے ہیں۔آغاز میںبچے اپنا توازن مکمل طورپر برقرار نہیں رکھ سکتے۔ انہیں بیٹھتے ہوئے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔آہستہ آہستہ وہ اپنا توازن برقرار رکھنا سیکھ لیتے ہیں اور پھر بغیر سہارے کے بھی بیٹھنا شروع کر دیتے ہیں۔اس دوران بچوں کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ کہیں گر نہ جائیں۔انہیں کبھی بیڈ پر اکیلا مت چھوڑیں۔اگر اکیلا چھوڑنا پڑجائے توانہیں فرش کے قالین وغیرہ پر چھوڑیں اور خیال رکھیں کہ ارد گرد کی جگہ محفوظ ہو۔آغاز میںجب بچہ سہارے سے بیٹھنے لگے تو اس کے پاس ہی موجودرہیںتاکہ اگر وہ گر جائے تو آپ اسے اٹھا سکیں۔

جوگھٹنوں کے بل چلے
بیٹھنے کے بعد نشوونماکا اگلامرحلہ گھٹنوں کے بل چلنا ہے۔ میرا بیٹا ابھی اس مرحلے میں داخل تو نہیں ہوا لیکن وہ اپنی ٹانگوں کی مددسے آگے کی طرف زورلگانے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔امید ہے کہ دو ماہ تک وہ اس مرحلے میں بھی داخل ہو جائے گا۔
ڈاکٹر پراچہ کہتے ہیں کہ بچے سر سے پاو¿ں کی طرف اپنے جسم پر کنٹرول کرنا سیکھتے ہیں۔پہلے وہ سر اور گردن کو سنبھالنا ‘ پھر بازوو¿ں کو چلانا ااور پھرہاتھوں سے چیزیں پکڑنا سیکھتے ہیں۔وہ پہلے پیٹ کے بل لیٹتے ہیں اور پھر کمر کے سہارے بیٹھتے ہیں ۔اس کے بعدٹانگوں کے استعمال کی باری آتی ہے اوروہ گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل چلتے ہیں۔ آخر میں وہ پاو¿ں پر کنٹرول حاصل کرتے ہوئے چلنا سیکھتے ہیں۔

عموماًبچے آٹھ سے دس سال کی عمر میں گھٹنوںکے بل چلنا سیکھ لیتے ہیں۔اس عمر میںکچھ بچے گھٹنوں اور ہاتھوں کی مدد سے چلتے اور کچھ گھسٹتے ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالحمید کا کہنا ہے کہ جب بچے گھٹنوں کے بل چلنا شرو ع ہو جائیں تو ایسی تدابیراختیار کرنی چاہئیں جو ارد گرد کے ماحول کو اس کےلئے محفوظ بنا سکیں۔اس کی وضاحت کرتے ہوئے انہیں نے کہا:
”گھر کے فرش پر کوئی بھی نوکیلی چیز موجود نہ ہو اور نہ ہی وہاںایسی چیزیں ہوںجن سے بچے کو چوٹ لگ سکے۔فرش کے قریب بجلی کی ساکٹوںکو ٹیپ وغیرہ کی مدد سے بند کر دیں‘ اس لئے کہ چھوٹے بچے سوئچ میں انگلی دےنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ تمام دوائیں ایسی جگہ رکھیں جہاںبچے کی رسائی ممکن نہ ہو۔اگر بچہ ایک سال کی عمر تک گھٹنوں کے بل چلنا نہ شروع کرے تو ڈاکٹر سے ضرور رجوع کریں۔

بچوں کا دانت نکالنا
دانت نکالنا بھی بچے کی نشوونما کا ایک اہم مرحلہ ہے ۔ اس سلسلے میں بھی والدین‘ خصوصاً ماو¿ں کا با خبر ہونا ضروری ہے۔ میرے بیٹے کے دانت نکلنے کا عمل بھی شروع ہوگیا ہے۔اس کے مسوڑھے سخت ہو گئے ہیں اور اسے ان میں خارش بھی ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ ہر چیز منہ میں ڈالتا اوراسے کاٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ڈاکٹر عبدالحمید کہتے کہ بچے کی دانت نکالنے کی عمربھی متعین نہیں ہے تاہم عموماً بچے چھے سے دس ماہ کی عمر میںپہلا دانت نکال لیتے ہیں۔ غذائی کمی یا وٹامن ڈی کی کمی کے شکار بچوں کے دانت ذرادیر سے نکلتے ہیں۔
دانت نکلنے کی علامات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بچہ کچھ بے چین ہو سکتا ہے اور ہر چیز منہ میں ڈالنے کی کوشش کرتاہے۔ایسے میں اسے انفیکشن اور خاص طور پر ڈائریا کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔بخار کی صورت میں بچے کو پیراسٹامول دیا جا سکتا ہے جبکہ پیچش کی صورت میں اسے اوآر ایس دینا چاہئے۔اگر دونوں صورتوں میں آرام نہ آئے تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ بچوں کے دانت مکمل طور پر نکلنے میں تقریباً 24ماہ کا وقت درکار ہوتا ہے۔ڈاکٹر پراچہ کہتے ہیں کہ اس دوران بچے کی صفائی کاخیال رکھنااورکم از کم پہلے چھے ماہ تک اسے ماں کا دودھ پلانااشد ضروری ہے‘ اس لئے کہ وہ اسے پیٹ کی بیماریوں اور دست وغیرہ سے بھی بچاتا ہے۔اس دوران بچے کو چوسنی وغیرہ دینے سے بھی گریزکرنا چاہےے۔
بچوں کی غذا میں دودھ اور دہی شامل ہونا چاہئیں اور انہیں کچھ دیر دھوپ میں ضرور رکھنا چاہےے تاکہ ان میں وٹامن ڈی کی کمی پوری ہو سکے۔ ان کے دانتوں کی حفاظت بھی ضروری ہے۔دو سے اڑھائی سال کی عمرمیں بچوں کے دانت بر ش کرنا شروع کر د ینے چاہئیں اور انہیں کولڈ ڈرنکس اور ٹافی چاکلیٹ وغیرہ سے دور رکھنا چاہےے۔
بچے ہمارا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں۔ ان کی حفاظت اور دیکھ بھال ایک کٹھن مرحلہ توہے لیکن ضروری معلومات کے حصول اور تھوڑی سی توجہ اس کام میں بہت آسانی پیدا کر سکتی ہے۔

Vinkmag ad

Read Previous

گرمی کی شدت کی وجہ سے اموات اورہمارے روئیے.

Read Next

ویل سٹیک

Leave a Reply

Most Popular