Vinkmag ad

گرمی کی شدت کی وجہ سے اموات اورہمارے روئیے.

کراچی میں گرمی کی شدت کی وجہ سے زندگی کی بازی ہارجانے والوں کو جن جن سروسز کی ضرورت پیش آتی ہے‘ ان میں نااہلی کا عنصرنمایاں تھا۔ ایسی خدمات کی ادائیگی پرمامور افراد اور اداروں کی جانب سے متاثرہ افراد کی مجبوری سے زیادہ سے زیادہ مالی فائدہ اٹھانے کاطرزعمل تو ایسا جرم ہے جس کی سختی سے بازپرس ہونی چاہےے۔ تاہم اس موقع پر بہت سے رضاکاروں اورخدمتی اداروں نے جس طرح آگے بڑھ کر بدانتظامی اور بے حسی کے اثرات کو کم کرنے میں کردار ادا کیا ‘ اس کی تحسین نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی۔خالد رحمٰن کی ایک خوبصورت تحریر


 

شدیدگرمی، حبس اور گھٹن کی بنا پر ہونے والی متعدد ہلاکتوں نے شہر میں ہنگامی کیفیت پیدا کردی تھی۔دریافت کرنے پر ایک نوجوان نے اپنی والدہ کے بارے میںبتایاکہ سب کچھ بس آناًفاناً ہی ہوگیا۔ وہ بالکل ٹھیک تھیں۔ انہیںکوئی بیماری نہ تھی۔ بس اچانک ہی ان کی طبیعت خراب ہوئی۔ پہلے انہوں نے گرمی کی وجہ سے گھبراہٹ کی شکایت کی اور پھر قے آئی۔ہم فوراً انہیں ہسپتال لے گئے۔ وہاں انہیںڈرپ لگائی گئی اورجب بظاہرکیفیت بہتر محسوس ہوئی تو ہم انہیں لے کر گھر واپس پہنچے۔ ابھی ایک گھنٹہ ہی گزرا ہوگا کہ پھر گھبراہٹ والی کیفیت ہوئی۔ دوبارہ ہسپتال لے جارہے تھے کہ راستے میں ہی انہوں نے دم توڑ دیا۔ نوجوان نے بتایا کہ موت کی بظاہر وجہ گرمی کی شدت بتائی جارہی ہے۔ بہت سی جگہوں پرپانی کی قلت بھی تھی جبکہ بعض لوگوں نے روزے کی وجہ سے بھی پانی پینے سے گریز کیا۔ ہمارے گھر پانی کا مسئلہ نہ تھا اور اس دن تو والدہ نے بعض وجوہات کی بنا پر روزہ بھی نہ رکھا تھا۔

 

ان کے انتقال کے بعد دوسرا مسئلہ اموات کی شرح میں اچانک اضافہ ہوجانے کے باعث فوری تدفین میں پیش آنے والی مشکلات تھیں۔ قبرستان میں جگہ کاحصول اور پھر متعلقہ عملے کی فراغت، دونوں ہی حوالوں سے بہت انتظار کرنا پڑا۔ اس پرمستزاد یہ کہ عملہ منہ مانگی رقم بطور معاوضہ طلب کررہاتھا۔ ایسے میں میت کو کچھ دیرسردخانے میں رکھنا ضروری تھا‘ اس لئے کہ گرمی کی شدت میں میت کی حالت بگڑ جانے کا اندیشہ تھا۔ بمشکل اس میں کامیابی ہوئی کیونکہ ان دنوں سردخانے میں بھی گنجائش سے زیادہ لاشیں لائی جارہی تھیں۔ ہم اگلے روز والدہ کی تدفین میں کامیاب ہوئے لیکن وہ بھی اس طرح کہ میت کو لانے‘ لے جانے کے لیے جو خاص بسیں مختلف اداروں کے پاس ہوتی ہیں‘ وہ بھی دستیاب نہ تھیں۔ بالآخر کئی گنا زائد رقم دے کر بس حاصل کرسکے۔ قبرستان میں ہم نے مشاہدہ کیا کہ کتنے ہی لوگ ایسی ہی مشکلات کاشکار ہوئے ہیں۔

 

سوال کیاجاسکتا ہے کہ پہلی بارخاتون کو ہسپتال سے کیوں ڈسچارج کردیاگیا؟ اور یا یہ کہ کاش دوسری بار بھی ان کے اہل خانہ خاتون کو لے کربروقت ہسپتال پہنچ جانے میں کامیاب ہوجاتے۔ شاید اس صورت میں وہ بچ جاتیں۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ گرمی، گھبراہٹ، قے، ڈرپ کی بنا پر وقتی ریلیف اور پھر گھبراہٹ کے بعد محض چند گھنٹوں میں جہان فانی سے رخصت کی یہ کہانی زندگی کی بے ثباتی اور اس حوالے سے قدرت کے فیصلوں کی عام گواہی ہے۔ تاہم صحت عامہ کے حوالے سے کسی ہنگامی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے ضمن میں معاملے کا دوسراپہلو بھی اہم ہے۔

 

چنددنوں میں گرمی کی شدت کی اس لہر کے نتیجہ میں شہر میں 1300کے لگ بھگ ایسی ہی اموات ہوئیں۔ اگرچہ ان میں عمررسیدہ افراد کی تعداد زیادہ تھی لیکن خواتین ،بچوں اور جوانوں کی تعداد بھی کم نہ تھی۔ ان میں ایسے افراد بھی شامل تھے جو کام کے بعد بسوں کی چھتوں پریا ان کے اندر بیٹھ کر گھروں کو واپس جارہے تھے کہ کسی جگہ ٹریفک جام میں پھنس گئے اور گھٹن کی وجہ سے بےہوش ہوگئے۔ گھروں میں اکیلے رہنے والے افراد کی بھی گرمی کی شدت سے اموات کی اطلاعات ملیں۔
17 برس سے ایمبولینس چلانے والے ایک ڈرائیور نے تبصرہ کیا کہ ایسی گرمی اس نے کبھی نہ دیکھی تھی ۔ ایسے لگ رہاتھا جیسے فضامیں آکسیجن ختم ہوگئی ہواور سامنے کھڑے افراد سانس نہ لے پانے کی وجہ سے کھڑے کھڑے گر رہے ہوں۔ اس کا کہنا تھا کہ گزشتہ سالوں میں ماہ رمضان کے آغاز پر گرمی کی وجہ سے بیمار ہونے والے افراد کے بارے میں دن بھر میں دو سے تین کالز آجاتی تھیں۔ لیکن ان دنوں ہر سات سے دس منٹ میں ہنگامی مدد کیلئے کال گرمی کی وجہ سے بے ہوش ہوجانے والے افراد سے متعلق تھی۔ ایسے ہی ایک اور ڈرائیور نے جو22سال سے ایمبولینس چلاتا ہے‘ اپنا مشاہدہ بتایا کہ سڑک کے کنارے بے ہوش ہونے والوں میں سے کئی ایسے بھی تھے جن کی موت ایمبولینس میں منتقل کرتے کرتے واقع ہوگئی۔ دو کروڑ آبادی والے شہر میں کسی غیرمعمولی صورت حال کی بنا پر چند سو افراد کی ہلاکت ہوجائے تو اعداد وشمار کے اعتبار سے شاید اس کی اہمیت غیرمعمولی نہ ہو تاہم یہ المیہ ہماری متعددانتظامی اورمعاشرتی خامیوں کوعیاں کرتا ہے۔

 

بیماری کی صورت میں علاج کے لیے اور علاج میں ناکامی کی صورت میں زندگی کی بازی ہارجانے والوں کو جن جن سروسز کی ضرورت پیش آتی ہے‘ ان میں بھی نااہلی کا عنصرنمایاں تھا۔ ایسی خدمات کی ادائیگی پرمامور افراد اور اداروں کی جانب سے متاثرہ افراد کی مجبوری سے زیادہ سے زیادہ مالی فائدہ اٹھانے کاطرزعمل تو ایسا جرم ہے جس کی سختی سے بازپرس ہونی چاہےے۔ تاہم اس موقع پر بہت سے رضاکاروں اورخدمتی اداروں نے جس طرح آگے بڑھ کر بدانتظامی اور بے حسی کے اثرات کو کم کرنے میں کردار ادا کیا ‘اس کی تحسین نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی میں آنے والا ہر نیادن انسان کے لیے امتحان ہے۔ اور وہ لوگ قابل مبارکباد ہیں جو اپنے اپنے دائرہ کارمیں ضرورت مند انسانوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کی بجائے انہیں زیادہ سے زیادہ راحت پہنچانے پرتوجہ دیتے ہیں۔

Vinkmag ad

Read Previous

آپ کے صفحات

Read Next

کروٹ بدلنے ‘ بیٹھنے‘ گھٹنوں کے بل چلنے اور دانت نکالنے کے مراحل زندگی کا سفر ‘ چند اہم سنگ میل

Leave a Reply

Most Popular