Vinkmag ad

ماروی کا دیس :نگرپارکر…

اسد امان
اس بار میں آپ کو ایک ایسے علاقے کا وزٹ کروانے جارہا ہوں جس کے بارے میں شرطیہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ میں سے بہت کم لوگوں نے اس کے بارے میں سن رکھا ہوگا۔ انفرادیت کے علاوہ اس علاقے کو منتخب کرنے کی ایک وجہ یہ سوچ بھی ہے کہ آپ کوایسی جگہ بتائی جائے جہاں آپ سردیوں کی چھٹیاں یادگارطریقے سے گزارسکیں۔
اس ماہ کے لئے منتخب تفریحی مقام ’’ نگرپار‘‘ ہے جو ضلع تھرپارکر کی ایک تحصیل ہے اور مٹھی (Mithi)شہر سے 120کلومیٹرکی مسافت پر بھارت کی سرحد کے ساتھ واقع ہے۔ کہتے ہیں کہ یہاں کبھی دریاہوا کرتا تھا جسے پارکرکے رن کچھ کے لوگ بدین اور مٹھی آتے تھے لہٰذا اس کا نام ہی نگرپارپڑ گیا۔بدین سے مٹھی تک ہی نہیں بلکہ اسلام کوٹ تک کی روڈ بھی بہت شاندار ہے۔ تھرکول منصوبے کے تحت بنائی گئی اس سڑک نے مجھے مجبورکیا کہ اس پر موٹرسائیکل دوڑانے کا مزہ لیاجائے۔

ضلع تھرپارکرمیں اکثریت چونکہ ہندوبہن بھائیوں کی ہے لہٰذا اگر ہولی دیکھنا ہو تو اس کے لئے آپ کوبارڈر کے اس پار جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔ میں جب اپنے موٹرسائیکل پر ملک کے ٹورپر نکلا تو کچھ ایسی پلاننگ کی کہ یہ تہوار نگرپارکریا مٹھی میں مناسکوں۔
نگرپارکر پہنچنے کے دو بنیادی راستے ہیں۔ایک تو کراچی سے براستہ ٹھٹھہ بدین جبکہ دوسرا حیدرآباد سے بذریعہ بدین مٹھی جاتا ہے۔ دونوں راستوں پر گاڑیوں کی آمدو رفت زیادہ ہوتی ہے لہٰذا ڈرائیونگ کے دوران خاص احتیاط کریں۔

گرمیوں میں یہاں سورج اپنے جوبن پر ہوتا ہے اور خوب گرمی برساتا ہے ۔اس موسم میں اگر آپ وہاںجائیں تو باہر کا کھانا کم سے کم کھائیں اور پھلوں پرزیادہ گزارہ کریں۔ مزیدبراں پانی بکثرت پئیں۔ سردیوں میں نگرپارکر کا موسم انتہائی رومانوی ہوتا ہے لہٰذا اس بار سردیوں کی چھٹیوں میں بچوں کے تعلیمی و تفریحی دورہ ماروی کے علاقے میں رکھیں۔
نگرپارکرکی وجہ شہرت وہاں کے تاریخی وقدیمی مندر اور مسجد‘ کارونجھر(Karonjhar)نام کا ایک بلند وبالا اور وسیع رقبے پر پھیلا ہواگرینائٹ کا پہاڑی سلسلہ اورخوبصورت و رنگین کھیلتے ہوئے مور ہیں۔نگرشہر کے پہلو سے ایک راستہ کارونجھر پہاڑوں کی طرف جاتا ہے جن کے دامن میں موروں جبکہ چوٹیوں پر گِدھوں( Vultures)کا بسیراہے۔شرطیہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ خوبصورت نظارہ آپ کو پورے پاکستان میں اور کہیں نہیں ملے گا۔انہی پہاڑوں میں’’رام مندر‘‘ بھی ہے جو اپنے پیروکاروں کو ہر موسم میں خوش آمدید کہتا ہے ۔ہر سال سندھ بھر سے ہزاروں ہندواس مندر کی زیارت کو آتے ہیں اور اس کے آس پاس بہتے چشموں سے اپنی جسمانی اور مذہبی پیاس بھجاتے ہیں۔

ان تمام مقامات کی سیر کے بعد بالآخر وہ دن آ گیا جب ہولی کا تہوار منایا جانا تھا۔صبح صبح نگر کی گلیوں میں رنگوں سے لطف اندوز ہونے کے بعد میںواپس مٹھی کی طرف روانہ ہوا اور راستے میں موجود تقریباً ہر گائوں میں لوگوں کے ساتھ ہولی کھیلی۔مقامی لوگ معاشی طور پر غریب ضرور ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دل کے حاتم طائی ہیں۔انتہائی مہمان نواز‘ سچے‘ کھرے ‘ صاف گواور صاف ستھرے لوگ نگرپارکر کی پہچان ہیں۔
سیاحوں سے ایک گزارش بلکہ تاکیداً عرض ہے کہ وہاں کوئی ایسی حرکت یا بات نہ کی جائے جس سے ان کے یا کسی بھی دیگر مذہب کے پیروکاروںکی دل آزاری ہو۔شایدایسے ہی کسی ناخوشگوار واقعے کی روک تھام کے لئے اورسرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں رینجرز کی چیک پوسٹیں ہیں۔ کسی پریشانی سے بچنے کے لئے یہاں آنے سے پہلے کوئی نہ کوئی دستاویزی شناخت اپنے پاس ضرور رکھیں۔
نگرپار سے15کلومیٹر پہلے چوریو(Churio) کی چیک پوسٹ پر ہمارے سرحدی محافظ جوان آپ سے کیمرہ اور دیگر ایسے آلات جمع کرلیں گے جو جاسوسی کے مقصد کے لئے استعمال ہو سکتے ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میراآٹھ میگاپکسل کا چھوٹاکیمرہ تو جمع کرلیاگیا تاہم 20 میگاپکسل کا جی پی ایس والا جدید سمارٹ فون ساتھ لے جانے دیاگیا۔اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے پیچھے کون سی منطق ہے تاہم ا س کا کوئی حل نہیں لہٰذا ان سے بحث کی بجائے خاموشی سے ان کی بات مان لیں ۔
نگر شہر میںآپ کو چند سرکاری اور پرائیویٹ گیسٹ ہائوس بھی مل جائیں گے اورکھانے پینے کے کئی ہوٹل بھی موجود ہیں۔شہر سے تقریباً 15کلو میٹر پہلے سڑک کے کنارے ماروی کا مشہورکنواں آتا ہے۔یہ وہی کنواں ہے جہاں لوک داستان کے مطابق ماروی مقامی سردارکوپسند آئی اور پھر ایک انمول کہانی کا حصہ بن کر امر ہوگئی۔

1947ء میں تقسیم ہند سے پہلے پاکستان کے تمام شہروں اور دیہات میں مساجد کے علاوہ بہت سے مندر بھی ملتے تھے تاہم ہندوئوں کی بڑی تعداد کے یہاں سے چلے جانے کے بعد ایسے مناظر خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ اگر آپ ماضی کے اس تنوع کی ایک جھلک دیکھنا چاہیں تو یہاں ضرور آئیے۔گوری کا مندر 600سال پرانی بھودیسر مسجد (Bhodesar Mosque) اور نگر شہر کے اندر موجود کئی تاریخی اوربعد میں قائم ہونے والے مندر آپ کے اس ذوق کی تسکین کے لئے موجود ہیں۔
یہاں مذہبی رواداری کا یہ عالم ہے کہ آزادی کے 71سال بعد بھی نگرپارکر اورتقریباً پورے تھرپارکرضلع میں مسلمان عیدالاضحیٰ پر گائے ذبح نہیں کرتے تاکہ ان کے کسی پڑوسی کی دل آزاری نہ ہو۔میں نے وہاں یہ دعا خاص طور پر کی کہ اے اللہ ! جیسا پرامن اور روداری کا مظہر یہ علاقہ ہے‘سارے پاکستان کو ایسا بنادے۔
سیاحوں کی آمد یہاں کے لوگوں کے مالی حالات بہتر کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتی ہیں ۔اگرآپ یہاں آئیں گے تو نہ صرف علاقے کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہو سکیں گے بلکہ لوگوں کی معاشی حالت بہتر بنانے میں بھی اپنا کردار ادا کریں گے۔

Vinkmag ad

Read Previous

آرگن ٹاک… ’’ گردے‘‘ سے ملئے!!!

Read Next

معدے کا زخم، السر

Leave a Reply

Most Popular