ہنگول نیشنل پارک کی سیر

ہنگول نیشنل پارک کی سیر

پاکستان اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت ہے اور اس کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں قدرت نے اپنے حسین جلوے پوری آب و تاب اور فیاضی کے ساتھ بکھیر دئیے ہیں۔  ملک کے طول و عرض میں پھیلے بہت سے خوبصورت مقامات کو حکومت پاکستان نے مختلف ادوار میں ’’نیشنل پارک‘‘ کا نام دیا تاکہ وہاں موجود قدرتی‘ آبی اور جنگلی حیات محفوظ ماحول میں نشوونما پاسکے۔ ’’ہنگول نیشنل پارک‘‘ کا شمار بھی ایسے ہی ایک دلفریب نیشنل پارک میں ہوتا ہے۔

مکران کوسٹل ہائی وے کے اردگرد پھیلا یہ پارک پاکستان ہی نہیں‘  پورے علاقے میں اپنی مثال آپ ہے۔ مکران کوسٹل ہائی وے ساحلی پٹی کے ساتھ پھیلی ایک خوبصورت سڑک ہے جو پارک کی سیر کا مزہ دوبالا کردیتی ہے۔ 6100  مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا یہ باغ لسبیلہ اورگوادر کے درمیان واقع ہے۔ ہنول پارک کا نام یہاں موجود ’’ہنگلاج ماتا‘‘ کے مندر کے نام پر رکھا گیا۔

دیگر بہت سے مقامات کی طرح اس پارک کو بھی میں نے بذریعہ موٹرسائیکل کھوجنے کا پلان بنایا۔ میں اسلام آباد سے کراچی دودن میں پہنچ گیا اور انٹرنیٹ کی مدد سے آس پاس موجود تمام سیاحتی مقامات کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں۔  چونکہ مئی جون میں ساحلی پٹی شدید گرمی کی لپیٹ میں ہوتی ہے لہٰذا میں نے مارچ کے مہینے میں وہاں وزٹ کا پلان بنایا اور درج ذیل سیاحتی مقامات کو کھوجتا آگے بڑھتا گیا۔

گڈانی شپ بریکنگ یارڈ

گڈانی شپ بریکنگ کراچی سے تقریباً 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ کسی دور میں دنیا کا سب سے بڑا بریکنگ یارڈ (بحری جہاز توڑنے کا میدان) تھا تاہم مختلف ادوار میں حکومتوں کی غفلت اور عدم دلچسپی کی بدولت اس کا درجہ اب تیسرے نمبر تک گر گیا ہے۔ فیملی اور گروپ کی شکل میں پکنک کے لئے یہ ایک خوبصورت مقام ہے جہاں ایک طرف دیوہیکل جہاز توڑے جا رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف تاحد نگاہ پھیلا بحیرہ عرب ٹھاٹھیں مارتا دکھائی دیتا ہے۔

مجھے وہاں پہنچنے میں صرف ایک گھنٹہ لگا‘ اس لئے کہ راستہ بالکل صاف تھا۔ وہاں پنجاب سے کچھ فیمیلز بھی آئی ہوئی تھیں جن کے ساتھ اچھی گپ شپ کا موقع ملا اور چائے کا ایک کپ بھی نوش کیا۔ یہاں صاف ہوٹل ملنا ذرا مشکل ہوجاتا ہے لہٰذا اگر کبھی یہاں کا پروگرام  بنے تومیرا مشورہ ہے کہ کھانا گھر سے لے جائیں۔  یہ سمندر میں نہانے کے لئے بھی محفوظ اور صاف مقام ہے لیکن جن افراد کو تیراکی نہیں آتی‘ وہ اس ایڈونچر سے دور رہیں۔

سسی پنوں کا دربار

حب چوکی سے گزر کر ساکران گائوں میں سے گزرتے ہوئے محض 25 کلومیٹر کے کچے راستے پر عشق و محبت کی لازوال داستان ’’سسی پنوں‘‘ کے ہیرو اور ہیروئین کا دربار ہے۔ واضح رہے کہ یہ ہنگول پارک میں نہیں۔  چھوٹی گاڑیوں کے لئے راستہ تھوڑا دشوار گزار ہے لیکن ناممکن بہرحال نہیں۔ دربارکے آس پاس چائے کے کچھ کھوکھے بھی ہیںجو بوقت ضرورت کھانا مہیا کرسکتے ہیں اور یہاں رات بھی گزاری جا سکتی ہے ۔ یہ نہایت پرسکون جگہ ہے جسے ضروردیکھنا چاہیے۔

گارے کا آتش فشاں

دنیا کا سب سے بڑا گارے والا آتش فشاں پاکستان کے صوبے بلوچستان میں واقع ہنگول پارک میں سے گزرتی مکران ہائی وے روڈ پر سمندر کے کنارے واقع ہے۔  یہاں تین آتش فشاں پوراسال گرم گارا اچھالتے رہتے ہیں جس کی بدولت پہاڑ بھی ہرسال کچھ انچ اونچا ہوتاجاتا ہے۔ یہ تینوں آتش فشاں مکران ہائی وے سے محض8 سے10 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں جہاں پکی سڑک جاتی ہے۔

سب سے بڑا آتش فشاں 300 فٹ بلند ہے جس کی چوٹی پر ایک چھوٹا سامندر بھی موجود ہے۔ چوٹی سے ایک طرف سمندر جبکہ دوسری طرف ہنگول پارک کا نظارہ ناقابل بیان حد تک خوبصورت ہے۔ مقامی افراد نے ان آتش فشانوں کو ’’چندرہ گُپ‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ یہاں دور دور تک کوئی دکان یاکھوکھا نہیں لہٰذا کھانے پینے کی اشیاء اپنے ساتھ لے کر جائیں‘ اس لئے کہ ان آتش فشائوں کی ہائیکنگ آپ کو خاصا تھکا دے گی۔

ہنگلاج ماتا کا مندر

ہنگلاج دیوی یا نانی کا مندر اس پارک کی پہچان ہے۔ پہاڑوں کے اندرحیران کن حد تک خوبصورت راستوں سے ہوتے ایک وسیع کمپلیکس آپ کا سواگت کرتا ہے۔  ہنگلاج ماتا یا نانی ماں کی کہانی بھی نہایت دلچسپ ہے جو ظلم و جبرکے خلاف مظلوموں کی پرعزم جدوجہد کی عمدہ مثال ہے ۔ اپریل میں اس مندر کی سالانہ یاترایا عرس ہوتا ہے جس میں پاکستان اور بیرون ملک سے ہزاروں یاتری شریک ہوتے ہیں۔  یہاں ہندو کمیونٹی کی طرف سے تینوں ٹائم لنگر کا انتظام ہوتا ہے جو خاصا لذیذ ہوتا ہے ۔ مندر کے آس پاس پہاڑی بکروں ( ibex) کی بڑی تعداد پائی جاتی ہے جو خوراک کی تلاش میں ادھر آ جاتے ہیں۔ مندر کے راستے میں کئی پہاڑ اپنی بناوٹ اور ساخت کی وجہ سے ناقابل یقین حد تک غیرمعمولی لگتے ہیں۔

کندملیرکا ساحل

کراچی سے 240 کلومیٹر دورعین مکران ہائی وے کے عقب میں کئی کلومیٹر پرپھیلا کندملیر (Kund Malair) سندھ بلوچستان میں سب سے مشہورساحلی پٹی ہے۔ کراچی اور گوادر سے ہزاروں کی تعداد میں سیاح روزانہ اس مقام کا رخ کرتے ہیں۔  تمام بنیادی سہولیات کی دستیابی کے سبب یہ ساحل کسی ترقی یافتہ ملک کے ساحل کا احساس دلاتا ہے۔  اس ساحلی پٹی کی خاص بات پھیلے صحرا میں سے گزرتی سڑکیں‘ صاف شفاف ریت اور پانی ہے ۔

امید کی شہزادی

کند ملیر سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع شہرہ آفاق امید کی شہزادی (Princess of Hope) ہنگول پارک کی رونق ہے جسے دیکھے بغیر اس پارک کا وزٹ ادھورا ہے۔ قدرت کا بنایا ہوا بلندوبالا شاہکار دور سے کسی رومانوی شہزادی کی شبیہ دیتا ہے۔

پاکستانی ابوالہول کا مجسمہ

مصر کے مشہور ابوالہول کے مجسمے کا سائیڈ پوز بھی ہنگول پارک میں واقع ہے۔  ایسے لگتا ہے جیسے امید کی شہزادی کی حفاظت پر ابوالہول کو بٹھایا گیا ہو ۔ یہ دونوں شاہکار کب سے قدرت نے تخلیق کئے ہیں‘ کسی کواندازہ نہیں۔

ان تمام مقامات کو ایک دن میں وزٹ کرنامشکل ہوجاتا ہے لہٰذا اچھا پروگرام تب بنتا ہے جب آپ ایک رات کے لئے کنڈملیر میں رک جائیں ۔ گرمیوں میں یہاں جانے سے پرہیز کریں ورنہ شدید گرمی کے سبب آپ کو ہیٹ سٹروک ہو سکتا ہے ۔ ایرانی پٹرول پوری مکران روڈ پر وافر مقدار میں دستیاب ہے تاہم اچھے ہوٹل کا ملنا تھوڑا مشکل ہوجاتا ہے۔

ان مقامات کے علاوہ کئی ایسی جگہیں اور چیزیں بھی ہنگول پارک میں موجود ہیں جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں اور قلم ان کی خوبصورتی اورحیران کن بناوٹ کو بیان کرنے کا حق ادا نہ کر سکے ۔ اس لئے اس سال ہنگول نیشنل پارک کے وزٹ کا پروگرام بنائیے تاکہ آپ خود اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھ سکیں۔

hangool national park, Princess of Hope, Kund Malair, Pakistan travel guide, safar nama

Vinkmag ad

Read Previous

جگر صاف کرنے والی غذائیں

Read Next

آلو کا مزیدار سلاد

Leave a Reply

Most Popular