Vinkmag ad

موتیا اور اس کی اقسام

موتیا اور اس کی اقسام

عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ نظر کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کی ایک وجہ آنکھ کے اندرونی پٹھوں اور اس کے لینز کی لچک کا کم ہوجانا ہے۔ مزید براں لینزدُھندلاہوجاتا ہے اور اس کایہ’دھندلاپن‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔ پھر ایک وقت ایساآتا ہے جب یہ ایک نرم ہڈی جیسی شکل اختیارکرلیتا ہے۔یہ شفاف نہیں رہتا بلکہ اس کا رنگ دودھیاہوجاتا ہے ۔اسی کو موتیاکہاجاتا ہے۔

موتئے کی صورت میں نظر دھندلی پڑ جاتی ہے‘رنگ پھیکے نظرآتے ہیں اور سورج کی روشنی میں آنکھیں چندھیانے لگتی ہیں۔ بجلی یا کسی دوسری روشنی کے اردگرد ایک ہالہ یا حلقہ نور دکھائی دیتا ہے اور روشنی کابلب پھلجھڑی کی صورت اختیار کرتا معلوم ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ایک کی بجائے چیزیں دو دو نظرآتی ہیں اور کچھ لوگوں کو اپنی نظر کے چشمے(نمبر تبدیل ہونے کی وجہ سے)جلدی بدلنا پڑتے ہیں۔

بعض اوقات جن افراد کی نظر خراب تھی اور انہیں کتاب پڑھنے کے لئے عینک کی ضرورت پڑتی تھی‘ ان کی قریب کی نظر چند مہینوں کے لئے بہتر ہوجاتی ہے لیکن یہ سدھار عارضی ہوتا ہے۔

کالا اور سفید موتیا

جب انسانی آنکھ کے لینز پر ایک خاص قسم کا جالاسا تن جاتا ہے تو وہ چیزوں کو ٹھیک طرح سے دیکھنے سے قاصر ہو جاتی ہے ۔ عرف ِعام میں اس کیفیت کو سفید موتیا کہا جاتا ہے۔ یہ مرض پیدائشی بھی ہوسکتا ہے اور عمر کی پختگی کے ساتھ ساتھ بھی آنکھ میں نمودار ہوسکتا ہے ۔ اس کی بہت سی اقسام ہیں جن میں سے ایک قسم نیوکلیئر سکیلروسس زیادہ عام ہے ۔اس مرض میں آنکھ کے لینز میں پروٹین جمنے کی وجہ سے بینائی کمزور ہونے لگتی ہے۔ ذیابیطس اور بلڈپریشر کے مریضوں کو موتیا لاحق ہونے کی شرح دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔

موتئے کی دوسری قسم کالا موتیا میں پردہ چشم پر کچھ تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جن کی وجہ سے مریض کو کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔اس صورت حال میں اگر ہم ایک خاص قسم کا ٹیسٹ کریں تو آنکھ کے کالے موتیا کے اثرات کا حامل حصہ ہمیں کالا دکھائی دیتا ہے۔اسی لئے اسے کالا موتیا کہتے ہیں۔

کالے موتئے کی اقسام

کالے موتئے کی مزید دو اقسام ہیں جنہیں تنگ زاوئیے  اور کھلے زاوئیے کا موتیاکہا جاتا ہے ۔ تنگ زاوئیے والے کالے موتئے میں مریض کی آنکھیں سرخ رہتی ہیں اور ان میں درد ہوتا ہے ۔ یہ علامات الرجی اور آشوب ِ چشم سے ملتی جلتی ہیں ۔ اگر بروقت اور صحیح تشخیص ہوجائے تو علاج ممکن ہے اورنظرضائع ہونے سے بچ جاتی ہے ۔تاہم بہت سے لوگ لاعلمی یا لاپروائی کے باعث ماہر امراض چشم سے رابطہ کرنے کی بجائے اتائیوں یا نیم حکیموں کے پاس چلے جاتے ہیں۔ یہ جعلی معالجین علاج کے نام پر بعض اوقات ان کی آنکھوں میں ایسی مضرصحت چیزیں ڈالتے ہیں جن کی وجہ سے بینائی جانے کا خدشہ ہوتاہے ۔اور اگر نظر بچ بھی جائے تو مریض آنکھوں کے کسی دائمی مرض میں مبتلا ہونے کا امکان بہرحال رہتا ہے ۔

کالے موتئے کی دوسری قسم ایسی ہے جو خاموشی سے اور دھیرے دھیرے مریض کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اسے دیمک سے تشبیہ دی جاسکتی ہے جو اندر ہی اندر چیزوں کو گھن کی طرح چاٹ جاتی ہے ۔ موتئے کی اس قسم میں مریض کوئی خاص علامات محسوس نہیں کرتا۔ وہ معمولی سی بے چینی، سر کے بھاری ہونے، رات کو کم دکھائی دینے اور عینک کا نمبر جلدی جلدی تبدیل ہونے کو معمول کی بات سمجھتا ہے اوراسے کسی بڑے خطرے کی گھنٹی خیال نہیں کرتا۔ بہت سی صورتوں میں اس کی80 فی صد نظر ضائع ہو چکی ہوتی ہے لیکن پھر بھی وہ اس کے علاج کے لئے سنجیدہ نہیں ہوتا۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس مرض میں مرکزی نظر (بالکل سامنے دیکھنے کی صلاحیت) سب سے آخرمیں متاثر ہوتی ہے۔ چونکہ سامنے کی چیز اسے نظر آ رہی ہوتی ہے لہٰذا اطراف کی کم نظر پر اس کا دھیان نہیں جاتا حتیٰ کہ ایک دن اس کی دنیا تاریک ہوجاتی ہے۔

Glaucoma, types, black and white

Vinkmag ad

Read Previous

بینگن کا رائتہ

Read Next

گھریلوپودے

Leave a Reply

Most Popular