Vinkmag ad

پراسرار بیماری سے جنگ "ہاں!میں کر "سکتی ہوں

”اس وقت تک میں نے ویل چیئر استعمال کرنا شروع نہ کی تھی۔ میں اس کے بغیر ذرا مشکل سے ہی سہی لیکن چل لیتی تھی لیکن چلنے کا انداز ذرا مختلف ہوجاتا جس کا لوگ مذاق اڑاتے اور اس کے لئے میر ی طرح ٹیڑھا چل کر دکھاتے۔ اس دوران وہ اس بات کو یقینی بناتے کہ ان کی بلند ہوتی آواز یں اور استہزائیہ قہقہے مجھ تک ضرور پہنچیں۔ اساتذہ سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ایسے طلبہ کے احساسات کا ذرا زیادہ خیال رکھیں گے لیکن میری ٹیچر بھی مجھے ’سست‘ کہہ کر پکارتی۔ ایک بارمیں سیڑھیوں سے گرپڑی جس کا سبب ایک اسٹوڈنٹ کی طرف سے مجھے دھکا دینا تھا۔“

اپنے حالات کی مزید تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا:” چلنے پھرنے میں تکلیف اور دشواری کے باعث مجھے سکول سے یہ کہہ کر نکال دیا گیا کہ مجھے دیکھ کر دیگر طلبہ پربھی بُرا اثر پڑے گا۔ “ اب انہوں نے خصوصی بچوں کے تعلیمی اداروں کا رخ کیا تو یہاں بھی انہیں داخلہ دینے سے انکار کر دیاگیا‘ اس لئے کہ وہ ذہنی طورپر مکمل صحت مند تھیں۔ ان کے والدین کو بہت افسوس ہوا اور انہوں نے اس موقع پر سکول کے خلاف قانونی کارروائی کا بھی سوچا لیکن پھر یہ سوچ کرخاموش رہے کہ اس قانونی چارہ جوئی کی سزا کہیں اس کے بہن بھائیوں کو نہ ملے ۔
ا پنی اس وقت کی کیفیت کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا :” مجھے (جسمانی مسئلہ تو پہلے سے تھا)لیکن ذہنی طور پر ٹھیک ہونے کے باوجودسکول نہ جاسکنے اوردیگر کام نہ کرپانے کی الجھن میرے لئے ناقابل برداشت تھی۔ اس وجہ سے میںدوسال تک ڈپریشن کی شکار رہی۔“

تو آخر ان کے ساتھ مسئلہ کیا تھا!
معلوم ہوا کہ وہ محض چھ برس کی تھیں جب ڈاکٹروںنے ان کے والدین کو بتایا کہ ایک خاص جینیاتی بیماری(muscular dystrophy)کی وجہ سے ان کے پٹھے وقت کے ساتھ ساتھ کمزوری کا شکار ہوتے جائیں گے۔ اور پھر ایسا ہی ہوا‘ یہاں تک کہ 11 برس کی عمر میں انہیں حرکت کے لیے ویل چیئر کا سہارا لینا پڑا۔
اس کے باوجود انہوں نے ہمت نہ ہاری ۔گزشتہ چھ سالوں میں انہوں نے نہ صرف ڈپریشن سے جنگ جیتی بلکہ ان کے پروفائل پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہم عمر جسمانی طورپر مکمل صحت مند لوگوں سے بھی بہت آگے بڑھ چکی ہیں۔ پٹھوں کی بڑھتی ہوئی کمزوری کے باوجود وہ نہ صرف پیراگلائےڈنگ اور غوطہ خوری جیسی مہم جو کھیلوں میں حصہ لیتی ہیں بلکہ پیرالمپکس(paralympics) یعنی جسمانی معذوروں کے لیے ہونے والے بین الاقوامی مقابلوں میں بھی حصہ لے چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیںکہ ”جب میں نے ان کھیلوں میں حصہ لیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ ہاں !میں یہ کرسکتی ہوں۔“ انہوں نے سٹیج پر مزاحیہ خاکوں میں بھی شرکت کی ہے۔ مشہور ِعالم نشریاتی ادارے بی بی سی نے 2017ءکی 100 ویمن سیریز کے لیے بھی ان کا انتخاب کیا۔

ڈپریشن میں مبتلا ایک 11 سالہ بچی نے ‘جو کبھی اپنی جسمانی بیماری کے انتہائی حملے کے نتیجے میں ہاتھ پاﺅں کو حرکت دینے سے بھی قاصر ہو‘ آخر چھ سالوں میں یہ سفر کیسے طے کیا؟
خاتون بتاتی ہیں کہ اس معاملہ میں ان کے والدین کا کردار بہت اہم تھا۔ انہوں نے نہ صرف گھر پر ان کی تعلیم کا اہتمام کیا بلکہ زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ اور مواقع بھی فراہم کیے۔ یہی حوصلہ تھا جس کی بنا پر ان کے بقول ”میں نے فیصلہ کیا کہ میں بھی وہ سب کچھ کرسکتی ہوں جو میں کرنا چاہتی ہوں۔“

کامیابی کے اس سفر میں ان کا یہ احساس بھی کام آیا کہ وہ اپنے جیسے لوگوں‘ بالخصوص خواتین کے لیے ایک رول ماڈل بننا چاہتی تھیں۔ انہوں نے اپنی جیسی کیفیت میں مبتلا لوگوں کے بارے میں جاننے کے لیے آن لائن کوششیں کیں لیکن کوئی ایسا نہ ملا جسے وہ اپنے لیے رول ماڈل قراردے پاتیں۔ وہ کہتی ہیں:
”ہمیں خود کو محدود نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنی حقیقی صلاحیتوں کا اندازہ تب ہی ہوتا ہے جب ہم خود کو آزماتے ہیں۔“
تو کیا کمزور ہوتے پٹھوں کی بیماری سے وہ نجات پاسکیں گی؟

بظاہر اس کا امکان نہیں‘ اس لئے کہ اس مرض کی نوعیت جینیاتی ہے اور تاحال اس کا علاج دریافت نہیں ہوا۔ تاہم ان کے بقول مہم جو ئیانہ کھیلوں میں حصہ لینے کا ایک مقصد خود کوہروقت حرکت میں رکھنا ہے‘ اس لئے کہ یہ اس بیماری کے خلاف بہترین دفاع ہے۔
بیماری اور معذوری کوئی بھی ہو‘اس میں کوئی شک نہیں کہ آخری تجزئیے میں دوا اور علاج بھی اسی وقت کارگر ہوتا ہے جب عزم وہمت اور محنت سے اس کا مقابلہ کیا جائے۔

Vinkmag ad

Read Previous

آپ کے سوالات ماہرین کے جوابات

Read Next

رحم کا سرطان سکریننگ, ویکسینیشن سے بچاو ممکن

Most Popular