اقتباسات

گدھے کی انسانی خصوصیات
سابق پریذیڈنٹ کارٹر کی ڈیموکریٹک پارٹی کا نشان گدھا تھا بلکہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ پارٹی پرچم پر بھی یہی بنا ہوتا ہے۔اس پرچم تلے پوری امریکی قوم ایران کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہے، ہمارا مطلب ہے بے حس و حرکت۔
مغرب کو گدھے میں قطعاً کوئی مضحکہ خیز بات نظر نہیں آتی۔فرانسیسی مفکر اور انشائیہ نگار مونیشن تو اس جانور کے اوصاف حمیدہ کا اس قدر معترف اور معرف تھا کہ ایک جگہ لکھتا ہے کہ ’’ روئے زمین پر گدھے سے زیادہ پر اعتماد ، مستقل مزاج ، گھمبیر دنیا کو حقارت سے دیکھنے والا اور اپنے ہی دھیان اور دھن میں مگن رہنے والا اور کوئی ذی روح نہیں ملے گا۔ ’’ہم ایشیائی در اصل اس لئے گدھے کو ذلیل سمجھتے ہیں کہ اس میں کچھ انسانی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔مثلاً یہ کہ اپنی سہار اور بساط سے زیادہ بوجھ اٹھاتا ہے اور جتنا زیادہ پٹتا اور بھوکوں مرتا ہے ، اتنا ہی آقا کا مطیع ، فرمانبردار ، اور شکر گزار ہوتا ہے
( آبِ گم از مشتاق یوسفی)

دیے سے دیا
کوئی دو مہینے بعد میں کراچی گیا تو انشا جی کے دفتر ملنے پہنچا۔انشا بیٹھا کام کر رہا ہے۔ ہم گپ لگا رہے ہیں۔ اِدھر کی باتیں ، اُدھر کی باتیں ،بہت خوش۔
ایک لڑکی آئی۔ اس کی صحت بہت ہی خراب تھی۔ اس کی آنکھوں میں یرقان اتنا نمایاں تھا جیسے رنگ بھرا ہو پیلا۔اس نے اسے چھپانے کے لیے اپنی آنکھوں میں سرمے کی بہت موٹی سی تہہ لگا رکھی تھی۔ کالا برقع اس نے پہنا ہواتھا۔ آ کھڑی ہو گئی انشا جی کے سامنے۔اس نے ایک خط انشا کو دیا جسے لے کر وہ رونے لگا۔ اس نے اسے پڑھ کر لڑکی کی طرف دیکھا ، پھر میز پر رکھا ، پھر دراز کھولا۔کہنے لگا’’ بی بی ! میرے پاس یہ تین سو روپے ہی ہیں۔ یہ تم لے لو ، پھر بعد میں بات کریں گے۔‘‘کہنے لگی’’ بڑی مہربانی۔‘‘وہ پچکی سی ہو گئی بیچاری ، اور ڈر سے گئی ، گھبرا سی گئی۔اس نے کہا ’’ بڑی مہربانی دے دیں۔‘‘ وہ لے کر چلی گئی۔جب وہ جا چکی تو تو میں نے انشاء سے کہا’’ انشا! یہ کون تھی؟‘‘کہنے لگا ’’پتا نہیں!‘‘
میں نے کہا ’’اور تجھ سے پیسے لینے آئی تھی۔ تو نے 300 روپے دے دیے۔ تو اسے جانتا تک نہیں۔‘‘کہنے لگا’’ نہیں! میں اتنا ہی جانتا ہوں۔ یہ خط ہے جس میں لکھا تھا:محترم انشا صاحب! میں آپ کے کالم بڑے شوق سے پڑھتی ہوں اور ان سے بہت خوش ہوتی ہوں۔ میں یہاں لیاری میں ایک پرائمری اسکول ٹیچر ہوںاور میری 130 روپے تنخواہ ہے۔ میں اور میرے بابا ایک کھولی میں رہتے ہیں جس کا کرایا160 روپے ہوگیا ہے اور ہم وہ ادا نہیں کر سکتے۔ آج وہ بندہ سامان اٹھا کر باہر پھینک رہا ہے۔اگر آپ مجھے 160 روپے دے دیں تو میں آہستہ آہستہ 10،10 کر کے اتار دوں گی۔میں کراچی میں کسی اور کو نہیں جانتی سوائے آپ کے ، وہ بھی کالم کی وجہ سے۔‘‘
میں نے کہا’’ اوئے بے وقوف آدمی! اس نے تجھ سے 160 روپے مانگے تھے، تو نے300 د ے دیے۔‘‘کہنے لگا ’’ میں نے بھی تو دِتوں میں سے دیا ہے۔ میں نے کون سا پلے سے دیا ہے۔ ‘‘اس کو بات سمجھ آ گئی تھی۔
یہ نصیبوں کی بات ہے۔ یعنی میری سمجھ میں نہیں آئی، میں جو بڑے دھیان سے جاتا تھا ، ڈکٹیشن لیتا تھا ، کوششیں کرتا تھا جاننے کی۔
کہنے لگا’’ میں نے کچھ کالم لکھے تھے یہ ان کا معاوضہ تھا۔ یہ 300 روپے میرے پاس ایسے ہی پڑے تھے، میں نے دے دیے۔‘‘
(زاویہ از اشفاق احمد )

موٹرسائیکل کے پیچھے
میرا دوست ’’ ف ‘‘ کہتا ہے کہ محبت بڑا بے زبان جذبہ ہے یعنی اظہار کے لئے زبان کا محتاج نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ میں موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھنے والے کے انداز سے اس کے چلانے والے کے ساتھ رشتے کا اندازہ لگا سکتا ہوں۔
اگر موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھی ہوئی خاتون کی بجائے چلانے والے شرما رہا ہو تو سمجھ لیں وہ اس کی ’’ اہل خانہ‘‘ ہے۔اور اگر وہ اس طرح بیٹھے ہوں کہ دیکھنے والے شرما رہے ہوں تو سمجھ لیں ’’ اہل کھانا‘‘ ہے۔
موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھنا بھی ایک فن ہے۔ خواتین منہ ایک طرف کر کے یوں بیٹھتی ہیں کہ جیسے ابھی اترنے والی ہوں، بلکہ بعض اوقات بیٹھی ہوئی نہیں بٹھائی ہوئی لگتی ہیں۔کچھ خواتین تو خوفزدہ مرغی کی طرح پروں میں کئی بچے چھپائے ہوئی ہوتی ہیں۔ لگتا ہے سفر نہیں’’ suffer‘‘ کر رہی ہیں۔چند یوں بیٹھی ہوتی ہیں جیسے چلانے والے کی اوٹ میں نماز پڑھ رہی ہوں۔بعض تو دور سے کپڑوں کی ایک ڈھیری سی لگتی ہیں۔ جب تک یہ ڈھیری اتر کر چلنے نہ لگے، پتا نہیں چلتا کہ اس کا منہ کس طرف ہے۔
نئی نویلی دلہن نے خاوند کو پیچھے سے یوں مضبوطی سے پکڑ رکھا ہوتا ہے جیسے ابھی تک اس پر اعتبار نہ ہوجبکہ بوڑھی عورتوں کی گرفت بتاتی ہے کہ انہیں خود پر اعتبار نہیں۔جب میں کسی شخص کو سائیکل کے پیچھے بیٹھے دیکھتا ہوں جس نے اپنے جیسا انسان سائیکل میں جوت رکھا ہوتا ہے تو میری منہ سے بد دعا نکلتی ہے۔مگر جب میں کسی کو موٹر سائیکل کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چلانے والے پر اعتمادکئے بیٹھے دیکھتا ہوں تو میرے منہ سے اس کے لئے دعا نکلتی ہے کیونکہ اس سیٹ پر مجھے اپنی پوری قوم بیٹھی نظر آرہی ہوتی ہے۔
( شیطانیاں از ڈاکٹر یونس بٹ)

Vinkmag ad

Read Previous

بینگن کا رائتہ

Read Next

ڈینگی بخار

Leave a Reply

Most Popular