Vinkmag ad

سر میں زوردار دھماکہ

تھوڑی دیر کے لئے تصور کریں کہ آپ گہری نیند میں ہیں۔ اچانک ایک زوردار دھماکے کی آواز سے آپ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتے ہیں۔ آواز اتنے قریب سے آتی ہے کہ آپ کو لگتا ہے جیسے خود آپ کو گولی لگی ہو۔ جب حواس بحال ہوتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا اور آپ بالکل بخیریت ہیں۔
اب آپ سوچتے ہیں کہ گولی کہیں آس پاس چلی ہے لیکن چند ہی لمحوں میں جان جاتے ہیں کہ یہ خیال بھی درست نہیں اور اردگرد بھی مکمل سکون ہے۔ بالآخر آپ پریہ حقیقت کھلتی ہے کہ دھماکہ کہیں اور نہیں بلکہ خود آپ کے اپنے سر میں ہوا ہے۔ اس کی آواز اتنی شدید تھی کہ بظاہر کھوپڑی ٹکڑے ٹکڑے ہوجانی چاہئے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ محض آواز تھی اور آپ نہ صرف ٹھیک ہیں بلکہ آپ کو درد تک نہیں ہوا۔
یہ محض دور کی کوڑی، فرضی داستان یا کوئی فلمی سین نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی معاملہ ہے۔ اس کا سبب ایک بہت ہی کم پائی جانے والی بیماری ایکسپلوڈنگ ہیڈ سینڈروم (EHS) یعنی سر پھٹنے کا مرض ہے۔

ایکسپلوڈنگ ہیڈ سینڈروم کیا ہے

اس میں مریض اپنے سر میں اونچی آواز یا شور سنتا ہے۔ اس کی نوعیت گرج چمک، آتش بازی، بم پھٹنے، زوردار حادثے، گولیاں چلنے یا دروازہ ٹوٹنے سمیت کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ کبھی ایک ہی دفعہ آواز سنائی دیتی ہے جو چند سیکنڈز تک رہتی ہے۔
بعض اوقات ایک ہی رات میں کئی بار ایسا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ کچھ دیگر علامات مثلاً چمکتی ہوئی روشنی دکھائی دینا وغیرہ بھی سامنے آسکتی ہیں۔ اس کیفیت سے گزرنے والے لوگ خوف یا تشویش میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ کوئی خطرناک معاملہ نہیں لیکن الجھن یا پریشانی کا باعث ضرور بنتا ہے۔

مرض کا سبب کیا ہے

ای ایچ ایس کی وجوہات کے بارے میں ماہرین میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ تاہم اکثریت کے خیال میں کچھ عوامل اس مرض پر زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان میں آوازوں کی پروسیسنگ اور یادداشت سے متعلق دماغ کے حصے میں معمولی دورہ، درمیانی کان میں کچھ تبدیلیاں، تناؤ یا اضطراب اور نیند متاثر ہونا نمایاں ہیں۔
اس کے علاوہ دواؤں کا ضمنی اثر، ذہنی صحت کے مسائل اور منشیات کا استعمال بھی اس کا سبب بن سکتا ہے۔ یہ مرض 50 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں، خصوصاً ان خواتین میں زیادہ عام ہے جو ذہنی تناؤ یا تھکاوٹ کی شکار رہتی ہیں۔ یہ نوجوانوں میں بھی پایا جاتا ہے۔

مریضوں کے تجربات

2017 میں بی بی سی سائنس فوکس کےایک سروے میں قارئین سے کہا گیا کہ وہ ای ایچ ایس کے بارے میں اپنے تجربات شئیر کریں۔ سروے کچھ تعلیمی اداروں کے ماہرین نفسیات کے اشتراک سے منعقد کیا گیا۔ تقریباً 7000 افراد نے جوابات دئیے۔ ان میں سے3286 نے بتایا کہ انہیں اس تجربے سے گزرنے کا اتفاق ہوا ہے۔ 446 افراد کو بوجوہ سٹڈی سے خارج کردیا گیا۔
نتائج کے مطابق پانچ فی صد متاثرین نے کہا کہ انہیں ہفتے میں کئی بار اس کا تجربہ ہوتا ہے جبکہ زیادہ ترکے بقول وہ کبھی کبھار اس کیفیت سے گزرتے ہیں۔ 35 فی صد نے بتایا کہ انہیں سال میں کئی بار اس کا سامنا ہوتا ہے۔ 40 فی صد نے کہا کہ انہیں پوری زندگی میں چند بار ہی اس کا سامنا ہوا۔ باقی لوگوں نے متفرق دورانئے میں اس کیفیت کا تذکرہ کیا۔ اکثریت کو اس لمحے میں شدید خوف محسوس ہوا جبکہ کچھ کے لئے یہ خوفناک تو نہیں تھا البتہ اس نے ان کی پریشانی میں اضافہ ضرور کیا۔
شرکاء میں سے 60 فی صد نے بتایا کہ ان کے خیال میں اس کا سبب دماغ میں کسی چیز کی موجودگی ہے۔ تقریباً 35 فی صد کا خیال تھا کہ یہ ذہنی تناؤ کے سبب ہے۔ باقی افراد نے اسے دواؤں کے ضمنی اثر، الیکٹرانک آلات اور مافوق الفطرت عوامل سے جوڑا۔
سروے میں شریک لوگوں سے پوچھا گیا کہ وہ اس معاملے سے نپٹنے کے لئے کیا کرتے ہیں۔ اس کے مختلف جوابات سامنے آئے جن میں شراب نوشی، کمر کے بل سونے سے گریز کرنا، وقت پر سونا اور نیند پوری کرنا نمایاں تھے۔ اس مرض کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں تاہم سٹڈی میں یہ بات سامنے آئی کہ اس کے شکار افراد میں دیگر افراد کے مقابلے میں نیندکے مسائل زیادہ تھے۔

اس مرض کا پہلی مرتبہ تذکرہ کہاں ہوا

اس مرض کا اولین تذکرہ 1619 میں ایک فرانسیسی فلسفی René Descartes کی سوانح عمری میں ملتا ہے۔ کیا رینی ڈیکارٹس کو ایکسپلوڈنگ ہیڈ سینڈروم تھا؟ کے عنوان سے جرنل آف کلینیکل سلیپ میڈیسن میں ایک مقالہ شائع ہوا۔ اس میں ایک خواب کا تذکرہ ہے۔ اس میں انہوں نے دماغ میں ایک دھماکہ دار آواز سنی اور اس کے فوراً بعد تیز روشنی بھی دیکھی۔ ان کے فلسفیانہ نوعیت کے خوابوں کو علمی سطح پر خاص اہمیت دی گئی اوسگمنڈ فرائڈ نے بھی ان پر گفتگو کی۔
میڈیکل لٹریچر میں اس مرض کی پہلی دفعہ وضاحت 1876 میں امریکی ماہر اعصابی و دماغی امراض ڈاکٹر سیلاس ویر مچل نے کی۔ انہوں نے دو مریضوں کی کیس سٹڈی بیان کی جنہیں رات کو تیز آوازیں سنائی دینے کا تجربہ ہوا۔ ڈاکٹر مچل نے اسے حسیاتی جھٹکے یا حسی مادے کا اخراج قرار دیا۔
1920 میں برطانوی معالج اور ماہرنفسیات رابرٹ آرمسٹرانگ جونز نے اس کے لئے سنیپنگ آف برین کی اصطلاح  وضع کی۔ اس بیماری کو ای ایچ ایس کا نام برطانوی نیورالوجسٹ ایم ایس پیئرس نے 1989 میں دیا۔ پیٹر گوڈس بائی اور برائن شارپلس نے اس مرض کا نام ایپی سوڈک کرینیل سینسری شاک تجویز کیا جو مچل کی علامات کو زیادہ درست اور بہتر طور پر بیان کرتا ہے۔ اس وقت یہ دونوں نام استعمال ہوتے ہیں۔
اگرچہ ماہرین اس کے حقیقی سبب کو نہیں جانتے لیکن یہ ضرور جانتے ہیں کہ اس میں پریشانی کی بات نہیں۔ اس کیفیت کا تعلق دماغ کے کچھ کاموں کے ساتھ ہے جو وہ نیندمیں کرتا ہے۔ لہٰذا پریشان نہ ہوں تاہم اپنی نیند کے معاملات ضرور درست کریں۔
what is exploding head syndrome, dimagh mai dhamaka kyun hota hai, what is snapping of brain
Vinkmag ad

Read Previous

کیا وزن کم کرنے والے سپلی منٹس مفید ہیں؟

Read Next

بچوں میں الرجک ری ایکشن | والدین فوری طور پر کیا کریں؟

Leave a Reply

Most Popular