Vinkmag ad

مخیرحضرات، اعلیٰ حکام کی توجہ: میڈیا پر وائرل ہونے کا انتظار کیوں 

بچی کو خون کی ایسی بیماری لاحق تھی کہ اسے ہرکچھ روز بعد خون تبدیل کرانا پڑتا۔ یہ کوئی منفرد کیس نہ تھا اس لئے کہ تھیلیسیمیا کے بے شمار مریضوں کے ساتھ یہی کچھ ہوتا ہے۔ تاہم اس کی مشکل یہ تھی کہ اس کاخون ایک ایسے گروپ سے تعلق رکھتا تھا جو بہت کم لوگوں کا ہوتا ہے لہٰذاباآسانی دستیاب نہیں ہوتا۔ڈاکٹروں نے بتایا کہ بیماری کا مستقل علاج ممکن ہے لیکن اس کے لیے بڑی رقم (یعنی 30 لاکھ روپے) درکار تھی۔

یہ رقم شاید بعض لوگوں کے لیے بہت زیادہ نہ ہولیکن بچی کا باپ ایک معمولی ملازم تھا اور اس کی آمدن محض روزمرہ ضروریات کے لیے ہی کافی تھی۔ وہ یکمشت اتنی بڑی رقم کا انتظام کیسے کرتا؟
معمول کے رابطوں سے توکوئی پیش رفت نہ ہوئی لیکن بچی کے خون کامنفرد گروپ ہی رقم کے بندوبست کا ذریعہ بن گیا۔
خون کا ایسا گروپ جو کثیر آبادی میں محض چند لوگوں کا ہو،ہر ایک کی توجہ اور دلچسپی کا عنوان ہوسکتا ہے اور مقابلے کی دوڑ میں مبتلاذرائع ابلاغ تو ہر وقت ایسی ہی کسی ’خبر‘ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ ایک بڑے ٹیلی وژن چینل کے رپورٹر نے بچی اور اس کے والدین سے مختصر انٹرویو کیا اوراسے ایک ایسے وقت پر نشرکیا جب لوگوں کی اکثریت ٹیلی وژن کی جانب متوجہ ہوتی ہے۔

معصوم بچی کی گفتگو اور اس کی کیفیت پر مبنی فلم نے ہر دیکھنے والے کو فطری طورپر متاثر کیا۔ ان میں سے بہت سے لوگ اس کی امدد کے بارے میں سوچ رہے ہوں گے، ا س لئے کہ مستحق افراد کی مالی امداد ہمارے معاشرے کی ایک اہم قدر ہے۔ تاہم چند منٹ بعد ہی ٹیلی وژن سکرین پر ایک خبر دکھائی گئی جس کے مطابق پنجاب کے وزیراعلیٰ نے اعلان کیا کہ ان کی حکومت بچی کے علاج کے اخراجات برداشت کرے گی۔اہم حکومتی شخصیت کی طرف سے اس قابل تعریف اقدام سے بچی کا مسئلہ حل ہوگیا۔ شاید ایک غیرمعمولی بیماری کی بناء پر اس خاص حل (کسی مخیر فرد یا حکومت کی طرف سے امداد) کی کوئی تو جیہ کی جاسکتی ہو تاہم صحت عامہ کے نقطہ نظر سے دیکھاجائے تو یہ حل کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔

غربت کی بناء پر علاج کے اخراجات برداشت نہ کرسکنے والا یہ کوئی واحد کیس نہیں تھا۔ مصدقہ اعدادوشمار دستیاب نہیں لیکن یہ بات سبھی کومعلوم ہے کہ ملک کے طول وعرض میں ایسے کتنے ہی مریض ہیں جو تنگ دستی کی وجہ سے علاج کی سہولت سے استفادہ نہیں کرسکتے۔یوں وہ شدید تکلیف اور اذیت کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبورہوتے ہیں۔ آخرایسے لوگ کیاکریں؟

بیماری انسانی زندگی کی ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کم وبیش ہر انسان کو زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر سابقہ پیش آتا ہے اور یوں علاج کی ضرورت بھی ہر ایک کو ہوتی ہے۔ اصولاً بیماری کا تعلق امارت اور غربت سے نہیں‘ چنانچہ امیرترین اور بااثر افراد بھی کسی عام سی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں جو پیچیدہ ہوتی چلی جاتی ہے اور مالی وسائل اور اثرات کے باجود یہ لوگ صحت یاب نہیں ہوپاتے۔ البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جولوگ مالی تنگدستی کاشکارہوں ‘ان کے لیے صاف ستھری اور صحت مند زندگی گزارنے میں آنے والی رکاوٹوں کی بنیاد پر بیماری کا امکان بڑھ سکتا ہے اور کئی بار بیماری کا ابتدائی مراحل میں علاج نہ ہوسکنے کی وجہ سے صورت حال گھمبیر ہوجاتی ہے۔

ایسے میں ضرورت صحت عامہ کے ایک ایسے ہمہ گیر انتظام کی ہے جس میں ایک جانب صحت مند طرززندگی کی طرف ترغیب دلائی جائے جو بیماری کی آمد سے پہلے ہی روک تھام کرسکے۔ اس میں والدین، اساتذہ اورماہرین ہی نہیں درجہ بدرجہ معاشرے کے تمام عناصر اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس ضمن میں تعلیمی اداروں ،مساجد ومدارس، ذرائع ابلاغ اور خود طبی اداروں کاکردار بھی بے حداہم ہے۔ عوامی شعور بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ درکار قانون سازی اور ان قوانین پر عمل درآمد بھی ناگزیر ضرورت ہے۔

بیماری شاید اس کے باجود کلی طورپر ختم نہ ہو کیونکہ یہ تو قدرت کی طرف سے انسانوں کی آزمائش اور امتحان کا ایک حصہ ہے۔ اس لیے روک تھام کے اقدامات کے ساتھ ساتھ علاج کی ایسی سہولتوں کا انتظام ضرور ی ہے جن کے تحت لوگ غربت اورامارت سے قطع نظر اپنا علاج کر اسکیں۔

Vinkmag ad

Read Previous

رعشہ اور ورزشیں

Read Next

پل بھر کی غفلت‘ عمر بھر کا نقصان

Leave a Reply

Most Popular