Vinkmag ad

بخار کیوں ہوتا ہے

بخار کیوں ہوتا ہے

ماما! اِدھر آئیں، میرے ماتھے پر ہاتھ لگائیں۔“ نومی نے اپنی امی کوپکارا۔”

”کیوں، کیا ہوا میرے بچے کو؟“ وہ فوراً سمجھ گئیں کہ اُس کا دل سکول جانے کو نہیں چاہ رہا لہٰذا وہ بخار کا بہانہ بنانے کی معصوم سی کوشش کر رہا ہے۔ امی نے بھی اپنے چہرے پر تشویش کامصنوعی تاثرقائم کیا ‘ تیزی سے بچے کی طرف بڑھی اور اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ دیا۔

” دیکھیں ماما، یہ گرم ہے ناں!“ نومی نے پریشان صورت بناتے ہوئے کہا۔

”نہیں تو، یہ تو بالکل ٹھنڈا ہے۔“ امی نے مسکراتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ ٹکے سے جواب پر پانچ سالہ نومی کا منہ بن گیا۔

”ماما، کل میرا ماتھا گرم ہوجائے گا، سرگول گول گھوم رہا ہو گا اور مجھے کھانسی بھی آئے گی۔ پھر مجھے سکول سے چھٹی کرنا پڑے گی‘ اس لئے کہ مجھے بخار ہو جائے گا۔“ نومی نے اپنا معصوم سا دماغ لڑایا۔ اس کی نرالی منطق پر سب ہنس پڑے۔

”دو یا تین ہفتوں بعد آپ کو گرمیوں کی بہت ساری چھٹیاں ہو جائیں گی۔ ان کے لئے آپ کو بیمار بھی نہیں ہونا پڑے گا۔“ ماں نے اس کے گال پر بوسہ دیا اور اس کے سر میں کنگھی کرنے لگی :

” یہ بتاﺅ کہ تمہیں یہ عقل کی باتیں کون بتاتا ہے؟“

”میں خود…“ نومی معصومیت سے مسکرایا اور اپنا بھاری بھرکم بیگ اٹھاتے ہوئے مین گیٹ کی طرف چل پڑا۔

”ماما! جب بخار ہوتا ہے تو ہمارا ماتھا گرم کیوں ہوجاتا ہے ؟“ نومی کی بہن پنکی نے پانی کی بوتل اٹھاتے ہوئے پوچھا۔

” جلدی چلو، گاڑی نکل جائے گی۔ شام کو اپنے پاپا سے پوچھنا یہ باتیں۔“ ماما نے اس سے کہا۔ وہ جلدی سے باہر نکلی اور بھائی سے باتیں کرتے ہوئے سٹاپ کی طرف بڑھنے لگی جہاں سے انہیں سکول وین پِک کرتی تھی۔

شام کوپاپا دفتر سے واپس آئے ۔ بیل کی آواز سنتے ہی بچے تیزی سے ان کی طرف لپکے:

”پاپا! ایک بات بتائیں…“ پنکی نے نومی کو پیچھے دھکیلتے ہوئے کہا۔

”نہیں پاپا، مجھے بتائیں کہ ماتھا گرم کیوں ہوتا ہے ؟ نومی تیزی سے آگے بڑھا۔

”پاپا کو سانس تو لینے دو۔ سلام ، نہ دعا، چھوٹتے ہی…“ ماما نے انہیں پیچھے سے پکارا۔ اس پر دونوں بیک زبان بولے :” السلام علیکم ، پاپا، وہ ماتھا…“

پاپا نے اپنی جھنجلاہٹ کو دبایا، پورچ میں زمین پر پاﺅں کے بل بیٹھ گئے۔ انہوں نے نومی کو اپنے دائیں زانو پر بٹھایا اور دوسرا بازو پنکی کی گردن میں ڈالتے ہوئے دونوں کوپیار کیا: ” بھئی! مجھے تو اس کا نہیں پتہ، اس لئے کہ یہ تو ڈاکٹروں کی باتیں ہیں۔ شام کو آپ کے ماموں آرہے ہیں‘ انہی سے پوچھ لینا۔ اچھا ہے، میرے علم میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔“

شام کو ماما‘ پاپا اور دونوں بچے ڈاکٹر افتخار کے ساتھ ٹی وی لاﺅنج میں بیٹھے تھے۔

”ماموں! بخار کیا ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے ہمارا جسم گرم کیوں ہوجاتا ہے۔“ پنکی کب سے ضبط کئے بیٹھی تھی۔”ماموں، میرا ماتھا کب گرم ہوگا؟“ نومی کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔

”اللہ نہ کرے ،نومی۔تم نے ماتھا گرم کروا کر کیا کرنا ہے ۔“ ماموں نے پوچھا۔

” مجھے سکول سے چھٹی کرنی ہے…“ اس پر سب ہنس پڑے۔

ماموں نے کچھ دیر سوچا اورپھر گویا ہوئے:

”بخار کے معاملے کوسمجھنے کےلئے ضروری ہے کہ ہم جسم کے گرم اور سرد ہونے کے قدرتی نظام کو اچھی طرح جان لیں۔ ائیرکنڈیشنر کی مثال اس سلسلے میں ہماری بہت مدد کر سکتی ہے۔“

”وہ کیسے؟“ پنکی نے آنکھیں پھیلائیں۔

”گرمیوں کے موسم میں جب ہمیں اپنے کمرے کوایک خاص حد تک ٹھنڈا رکھنا ہوتا ہے تو ہم اس کے تھرمو سٹیٹ کوایک خاص سطح پر سیٹ کر دیتے ہیں۔اس پر اے سی اپنے اندر کچھ سرگرمیاں شروع کرتا ہے جس کی بدولت کمرے کا درجہ حرارت مطلوبہ سطح پر آجاتا ہے اور ہم سکون محسوس کرتے ہیں۔“

”ماموں، یہ تو مجھے پتہ ہے ۔“ پنکی نے سرہلایا:” لیکن ہمارا جسم تو اے سی نہیں۔“

”اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم کو کچھ اس طرح سے بنایا ہے کہ وہ اپنے معمول کے کام 98.4 ڈگری فارن ہائیٹ پرہی بہتر طور پر انجام دے سکتا ہے۔ جسم کو اس درجہ حرارت پر رکھنے کےلئے ہمارے دماغ میں ہائپوتھلمس کی شکل میں ایک تھرموسٹیٹ لگا ہوتا ہے جوقدرتی طور پر اسی درجہ حرارت پر فکس ہوتا ہے۔اگر وہ اس سطح سے کم ہو تو ہائپوتھلمس جسم میں کچھ ایسی سرگرمیاں شروع کرتا ہے جس سے خون گرم ہوجاتا ہے اور جسم کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔ “

” یہ تو بہت ہی دلچسپ نظام ہے!“ نومی کی آپی مریم چائے لئے کمرے میں داخل ہوئی۔

”کبھی ایسا ہوا کہ شدید سردی میں آپ کا جسم کانپنا شروع ہو گیا ہو؟“ ماموں نے پوچھا۔

”جی ہاں!سردیوں میں سکول جاتے ہیں توایسا ہوتا ہے۔ لیکن کیوں؟“ پنکی بولی ۔

”جب جسم کانپتا ہے تو ہمارے پٹھوں کی حرکت کے سبب خون میں گرمی بڑھ جاتی ہے اور جسم نارمل ٹمپریچر پر آجاتا ہے۔گرمیوں کے موسم میں جب جسمانی درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے توایک قدرتی نظام کے تحت ہمیں پسینہ آتا ہے۔ جب ہوا جلد پر موجود نمی سے ٹکراتی ہے

تو جلد کی گرمی اپنے ساتھ لے جاتی ہے۔ اس سے ہمیں ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔“

”ہوں…تو پھر بخارکیا ہے؟“ پنکی نے پوچھا۔

”عام حالات میں ہائپو تھلمس ایک خودکار نظام کے تحت جسمانی درجہ حرارت کو موزوں سطح پرہی رکھتا ہے لیکن بعض اوقات کچھ عوامل کی وجہ سے اس کا تھرمو سٹیٹ زیادہ سطح پر سیٹ ہوجاتا ہے۔ اب ہائپو تھلمس درجہ حرارت کی نئی سطح کو نارمل سمجھ کر جسم کو اس پر لانے کیلئے کچھ سرگرمیاں شروع کر دیتا ہے۔یوں ہمارا ٹمپریچر نارمل سے زیادہ بڑھ جاتا ہے۔دوسرے لفظوں میں ہمیں بخار ہو جاتا ہے۔ کیا سمجھے؟“ ماموں نے پنکی کی طرف دیکھا۔

”ماموں ! اگر جسم تھوڑا سا گرم ہوجائے تو اس کا نقصان کیا ہے؟ “ مریم نے سوال کیا۔

” بخار میں ہمیں کمزوری ہو جاتی ہے‘ اس لئے کہ مفید کاموں میں استعمال ہونے والی توانائی جسم کو گرم کرنے میں استعمال ہو جاتی ہے۔“ ماموں نے جواباً کہا۔

” یہ بتائیں کہ جسم کتنا گرم ہو تو ہم اسے بخار کہیں گے؟“ نومی کی امی نے پوچھا۔

” بعض اوقات ہمیں اپنے ہاتھوں یا پاﺅں میں بخار کی سی کیفےت محسوس ہوتی ہے لیکن جب تھرما میٹر سے درجہ حرارت چیک کیا جاتا ہے تو وہ نارمل نکلتا ہے۔ ایسے میں ہم اسے بخار نہیں کہہ سکتے ۔ بخار وہی ہو گا جو تھرما میٹر سے چیک کرنے پر 98.4 ڈگری فارنہائیٹ سے زیادہ آئے۔اگر وہ 99 ڈگری پر ہو تو عمومی بخار ہے لیکن اگر لمبے عرصے تک اس سطح پر رہے تویہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ بالعموم 104  سے 106 ڈگری تک بخارکو شدید یعنی ہائی گریڈ شمارکیا جاتا ہے۔

اگر وہ 106 ڈگری سے اوپرچلا جائے تو دماغ سمیت دیگر اعضاء کے عمومی افعال متاثر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ 107 ڈگری کا بخاراگرکچھ عرصہ تک رہے تویہ کسی شخص کومارنے کےلئے کافی ہوتا ہے۔ اسی طرح جسمانی درجہ حرارت کم ہو جائے تو یہ بھی نقصان دہ ہے۔ اگر وہ 92 ڈگری سے نیچے چلا جائے توجسمانی افعال رک جاتے ہیں۔“

”اگر بخار ہو تو ہمیں کون سی میڈیسن لینی چاہئے ؟“ ماما نے پوچھا۔

بخارمیں فوراً ہی کوئی دوا کھانے سے بہتر بات ہے کہ آپ اپنے جسم کو کھولیں‘ اس پرگیلا کپڑاپھیریں اور پنکھے کے نیچے آ جائیں۔ اس سے جسم کی حرارت کم ہو جائے گی۔ آپ یوں سمجھ لیں اس طرح ہم جسم کو مصنوعی طور پر پسینہ فراہم کر رہے ہوتے ہیں۔ ٹمپریچر کم کرنے کا سب سے بہتر طریقہ جسم کو پانی سے گیلا کرنا ہے۔ بخارمیں برف کی ٹکور درست نہیں‘ اس لئے کہ اس سے جلد پرخون کی نالیاں جم جاتی ہیں اوران میں خون نہیں آتا۔ اگر آرام نہ آئے تو …“ ”ڈاکٹر سے رجوع کریں…“ پنکی نے جملہ اچک لیا:” اشتہارات میں یہی بتاتے ہیں۔ ماموں یہ بتائیں کہ ہمیں بخار کیوں ہو تا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہائپو تھلمس اپنے تھرموسٹیٹ کو نئی سطح پرکیوں ایڈجسٹ کردیتا ہے۔“ مریم نے پوچھا۔

” سائنسی انداز میں بات کی جائے تو اس کا سبب خاص طرح کے کیمیکلز ہوتے ہیں جنہیں طبی زبان میں پائرو جنز (Pyrogens) کہا جاتا ہے۔ پائیرو کا مطلب ”بخار“ اور جنز کا ”پیدا کرنے والے“ ہیں۔یوں پائیروجنز ‘ بخار پیدا کرنے والے کیمیکلز ہیں۔“

”ماموں ، آسان لفظوں میں سمجھائیں ناں۔“ پنکی بولی۔

” بخار پیدا کرنے والے عوامل کی دو بڑی اقسام ہیں۔ ایک وہ جو باہر سے جسم میں داخل ہو کراس کے تھرموسٹیٹ کو اوپری سطح پر سیٹ کر دیتے ہیں۔ اس قسم میں تمام طرح کے جراثیم یعنی وائرس اور بیکٹیریا شامل ہیں۔کچھ وائرس آلودہ پانی میں ہوتے ہیں جسے پینے سے گیسٹرو‘ ہیپاٹائٹس اے‘ ٹائیفائیڈ وغیرہ ہو سکتا ہے۔کچھ وائرس ہوا میں موجود ہوتے ہیں جن میں فلو اور ٹی بی کا وائرس وغیرہ شامل ہیں۔کچھ خون میں براہ راست داخل ہوتے ہیں۔اس کی مثال ڈینگی اور ملیریا ہیں جن کا وائرس مچھر کے ڈنک کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے۔“

”اور دوسری قسم کے عوامل…؟“ پاپا نے پوچھا۔

”وہ ہیں جو جسم کے اندرہی پیدا ہوتے ہیں۔ان میں سے ایک جسم کے اندر بننے والے کینسر زدہ خلئے ہیں جو غیرفطری کیمیائی مادے پیدا کرتے ہیں۔بیماریوں کے خلاف ہمارے دفاعی نظام میں خرابی بھی پائیروجنز میں شامل ہے۔ تمام طرح کے بخاروں کی ایک چوتھائی وجہ انفیکشنزیعنی وائرس اوربیکٹیریا سے لگنے والی بیماریاں‘ایک چوتھائی کینسر زدہ خلئے یا رسولیاں‘ ایک چوتھائی دفاعی نظام میں گڑبڑ اور باقی ایک چوتھائی وجہ میں دیگر عوامل شامل ہیں۔ 80 سے 90 فی صد بچوں میں بخار کی وجہ انفیکشنزہیں۔انہیں بخار زیادہ بار ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ صفائی کا زیادہ خیال نہیں رکھتے اور مضرصحت چیزیں کھاتے پیتے رہتے ہیں۔“ انہوں نے تفصیل سے بتایا۔

”یہ بتائیے کہ کون سا بخارمعمولی اور کون سا خطرناک ہے؟“ مامانے سوال کیا

”کچھ بخارایسے ہیں جن میں چھینکیں آتی ہیں‘ نزلہ ہوتا ہے اور گلا خراب ہوجاتا ہے۔اگر ایسا ہو تو عموماً اس کی وجہ موسمی وائرس ہوتے ہیں جنہوں نے اپنا وقت پورا کر کے چھ یا سات دنوں میں خود ہی ٹھیک ہوجانا ہوتا ہے۔ ایسے میں آپ دوا نہ بھی لیں توکوئی حرج نہیں۔ اگر اس کے ساتھ ڈائیریا‘ کھانسی‘ پیلیا کی شکایت بھی ہو جائے تو پھر لازماً اور بروقت علاج کراناچاہئے ورنہ اس کے نقصانات بھی ہو سکتے ہیں۔“

”میراخیال ہے کہ اب ہمیں کھانے کے لئے اٹھنا چاہئے۔“ پاپا نے نے امی کی طرف دیکھا ۔

”جی ہاں، تقریباً 10 منٹ کے بعد۔“ امی نے وال کلاک کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

”ایک بات یاد رکھنے کی ہے۔“ ماموں نے صوفے پر دراز ہوتے ہوئے کہا۔

”وہ کیا بھائی… ؟“ ماما، جو کچن کی طرف بڑھ رہی تھیں، مڑتے ہوئے بولیں۔

”بخار کوئی بیماری نہیں بلکہ ایک علامت ہے۔ اصل بیماری کو ڈھونڈے بغیر اس علامت کو دواﺅں سے دبا دینا درست نہیں۔ اس لئے بخار میں خود علاجی سے پرہیز کریں اور مرض کی باقاعدہ تشخیص کروائیں۔“

”جی ہاں، ہم ایسا ہی کریں گے۔“ امی نے کہا اور بچوں سے مخاطب ہوئیں:” چلو بچو، اب برتن لگانا شروع کرو۔“ پنکی اور مریم کچن کی طرف بڑھ گئیں جبکہ نومی نے ٹی وی پر اپنا پسندیدہ کارٹون دیکھنا شروع کر دیا۔

fever, why fever occurs, causes of fever, why do we get fever

Vinkmag ad

Read Previous

آپ کے صفحات

Read Next

وٹامن سی کی دریافت

Most Popular