Vinkmag ad

بلوغت کی علامات اور مسائل بچیاں کیا کریں

٭ لڑکیوں میں بلوغت کی علامات کیا ہیں؟
٭٭ بلوغت کی علامات کو تین اقسام میںتقسیم کیا جاتا ہے۔ پہلی ان کی چھاتیوں کے سائز کا بڑا ہونا‘ دوسری تولیدی اعضاء پر بالوں کا اگ آنا اور تیسری اور آخری قسم مخصوص ایام کی ابتدا ہوناہے۔ نو سال کے بعد بچیوں کے جسم میں یہ تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور اسی عمر میں بچیوں کی چھاتیاں نمایاں ہوجاتی ہیں ۔ ماؤں کو چاہئے کہ ان سے پوچھیں کہ کیا ان کے تولیدی اعضاء پر بال آرہے ہیں یا نہیں۔ اگر وہ آ رہے ہوں تو ان کی صفائی کے بارے میں انہیں مناسب آگاہی فراہم کرنی چاہئے۔ بچیوں کو 10سے16سال تک کی عمرمیں حیض آنا شروع ہوجاتا ہے۔ اگرایام 10سال کی عمر سے پہلے ہی شروع ہوجائیں تو اسے نا پختہ شباب (premature puberty) اور اگروہ 16سال کی عمر کے بعد بھی شروع نہ ہوں تو اسے تاخیر سے شباب (delayed puberty) کہا جاتا ہے۔دونوں صورتوں میں ڈاکٹر سے لازماً رابطہ کرنا چاہئے تاکہ مسئلے کی بروقت تشخیص کر کے علاج کو یقینی بنایا جاسکے۔

٭ مخصوص ایام کا دورانیہ کتنے دنوں پر مشتمل ہوتو ہم اسے نارمل کہیں گے؟
٭٭ اس کا نارمل دورانیہ 28دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔اگر وہ 21 دنوںسے کم اور 35 دنوں سے زیادہ عرصے تک چلے جائیں توڈاکٹر سے رجوع کرنے میں سستی نہ کریں۔

٭ ان ایام میں خون آنے کی مقدار کتنی ہونی چاہئے؟
٭٭ اگر بچی دن میں دو سے زیادہ پیڈز تبدیل کررہی ہو یا اسے کلاٹنگ زیادہ ہورہی ہو تو ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کرلیں۔ بعض بچیاں عادتاً بھی ضرورت سے زیادہ پیڈز تبدیل کرتی ہیں۔ اس صورت میں ان کی مائوں کو چاہئے کہ پہلے خود تسلی کرلیں‘ پھر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ ڈاکٹر اس کی ظاہری صورت حال دیکھ کریاخون کے ٹیسٹ/ الٹراساؤنڈ کی مدد سے جائزہ لے گی کہ اس کی صورتحال نارمل ہے یا نہیں۔ اگر تشویش کی بات ہوئی تو وہ مزید ٹیسٹ تجویز کر سکتی ہے۔

٭ کیا حیض کی زیادتی یا کمی کا تعلق ہارمونز کے ساتھ بھی ہوتا ہے؟
٭٭ ماہواری کے دوران خواتین کے جسم میں بہت سی تبدیلیاں آتی ہیں جن میں تھائی رائیڈ ہارمون کی مقدار میں زیادتی یا کمی کا ہونا بھی شامل ہے۔ اگر کسی بچی کو نوعمری میں زیادہ خون آئے تو اس کی ایک وجہ تھائی رائیڈ کی مقدار کا بڑھ جانا اور اگرکم آئے تو اس کی کمی ہوسکتا ہے۔ ایسے میں ڈاکٹر سے رجوع کرنا بہترہوتا ہے کیونکہ اصل وجہ وہی آپ کو بتائے گی۔

٭ اس مرحلے پر ماؤں کا کردار کیا ہے؟
٭٭ بچوں اور بچیوں کو عہد شباب کے آغاز پر ماں باپ کی طرف سے راہنمائی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ گھر کے بڑے بزرگ ،اساتذہ اور والدین بہت پیار اور سلیقے سے انہیں سمجھائیں کہ یہ تبدیلیاں نارمل ہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو بچے ان کے بارے میں ارد گرد سے معلومات لیں گے جو غلط ہی نہیں‘ گمراہ کن بھی ہو سکتی ہیں۔ٹیچرز کو چاہئے کہ وہ اس عمر کی بچیوں کو بتائیں کہ یہ بلوغت کی عام تبدیلیاں ہیں جن سے ہر لڑکی گزرتی ہے۔ انہیں بتایا جائے کہ مخصوص ایام کی چند علامات پیٹ یا کمر میں درد اور خون کا آنا ہے اور اگر آپ کے ساتھ ایسا ہو تو پریشان نہیں ہونا اور فوراً اپنی امی کو بتانا ہے۔ اس طرح کی ڈسکشن میں ماہرامراض زچہ وبچہ کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے جو بچیوں کے سوالات کے جوابات دیں۔
اس حوالے سے دوسرا نکتہ غیر ضروری بالوں کی صفائی ہے۔ وہ بچیوں کو بتائیں کہ ہر ہفتے کے بعد اور مجبوری کے عالم میں زیادہ سے زیادہ 40 دنوں کے بعد آپ نے تولیدی اعضاء پر پائے جانے والے بالوں کو لازماًصاف کرنا ہے۔ ان کی صفائی کے لئے قدرتی اشیاء سے تیار کردہ ویکس(wax) سب سے بہترین ہے‘ تاہم آج کل مارکیٹ میں اس مقصد کے لئے مختلف کریمیں اوراسپرے بھی دستیاب ہیں ۔ یہ آرام دہ اور استعمال میں آسان ضرور ہیں لیکن بعض اوقات انفیکشنز اور جلدی مسائل کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔اس لئے میرا مشورہ یہی ہے کہ قدرتی طریقوں کو ترجیح دیں اور بچیوں کو چھوٹی عمر سے ہی ان کا عادی بنائیں تاکہ مستقبل میں انہیں ذاتی صفائی کے ناکافی انتظام کے باعث ہونے والے مسائل سے محفوظ رکھا جاسکے۔

٭ مخصوص ایام کے دوران کن باتوں کا خیال رکھا جائے؟
٭٭ مخصوص ایام کے دوران زیرجامے کاٹن کے پہنیں تاکہ ان میں سے ہوا کا گزرہوتا رہے۔ اس کے علاوہ پیڈز دن میں دو سے تین بار لازما تبدیل کریں ۔ اگرزیرجامہ خون سے آلودہ ہوجائے تو اسے صابن سے دھو کر دھوپ میں خشک کرنا چاہئے تاکہ اسے جراثیم سے پاک کیا جاسکے۔ ہمارے ہاں یہ تاثرعام پایاجاتا ہے کہ ایام کے دوران غسل نہیں کرناچاہئے ۔یہ بالکل غلط ہے ۔ اس کے برعکس گرمیوں میں روزانہ یا ایک دن چھوڑ کر لازماً غسل کریں تاکہ انفیکشن سے بچا جا سکے۔

٭ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تولیدی اعضاء پر صابن یا اسپرے وغیرہ استعمال نہیں کرنا چاہئے ۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
٭٭ بیوٹی سوپ جو عام طور پر نہانے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں‘ تولیدی اعضاء پربھی استعمال کئے جاسکتے ہیں البتہ میڈیکیڈڈ صابن اس مقصد کے لئے استعمال نہ کئے جائیں ۔ اسی طرح پرفیوم،مختلف اسپرے یا پاؤڈر کے استعمال سے بھی گریز کرنا چاہئے کیونکہ ایسا کرنے سے انفیکشنز ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

٭ بچیوں کے لئے بلوغت کی ابتدا میں کون سے ٹیسٹ ضروری ہیں اور کون سی ویکسینیشن کروا لینی چاہئے؟
٭٭ 9 سے26 سال کی ہر بچی کو ایچ پی وی(HumanPapillomavirus) کی ویکسین ضرور لگوا لینی چاہئے تاکہ کل کی مائیں بانجھ پن اور بچہ دانی کے کینسر سے محفوظ رہ سکیں۔ یہ ویکسین بچیوں کو ہی نہیں‘ بچوں کو بھی لگواناچاہئے تاکہ انہیں مستقبل میں تولیدی مسائل سے بچایا جا سکے۔بچیوں کو شادی سے چار ماہ پہلے روبیلا (Rubella) ویکسین بھی لگوالینی چاہئے تاکہ بعد میں ابنارمل بچے کی پیدائش یا جلد اسقاط حمل سے محفوظ رہا جاسکے۔

٭ مخصوص ایام میں درد اور کمزوری سے نجات کے لئے گھر پر کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں؟
٭٭ کچھ گھریلو نسخے اس درد سے نجات میں مفیدثابت ہوتے ہیں۔ مثال کے طورپر مخصوص ایام میں گرم مشروبات پینا فائدہ مند ہے۔ ان میں سے ایک دار چینی کا یا سادہ قہوہ ہے جوبنانے میں آسان ہے اور مزیدار ہونے کے ساتھ ساتھ درد سے فوری نجات کے لئے بھی بہترین ہے۔ حیض کے دوران جسم کو گرم رکھنایا ٹکور کرنا بھی فائدہ دیتا ہے۔ گرم پانی کی بوتل اپنی کمر کے پیچھے یا رانوں کے درمیان رکھنے سے جسم گرم ہو جاتا ہے اور خون کی گردش تیز ہونے کے باعث ان اعضاء میں درد نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔ مخصوص ایام کے دوران کولامشروبات سے مکمل پرہیزکرنا چاہئے‘ اس لئے کہ یہ پیٹ میں گیس پیدا کرنے کاسبب بنتے ہیں۔گیس کے باعث پیٹ میں درد اور مروڑ میں اضافہ ہوتا ہے جس سے یہ تکلیف بھی بڑھ جاتی ہے۔ بہت سی خواتین حیض کے دوران ورزش کرنے سے اجتناب کرتی ہیں حالانکہ اس سے نہ صرف جسم صحت مند ہوتا ہے بلکہ بیزاری اور چڑچڑے پن سے بھی محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ زیادہ ٹھنڈا پانی پینا عام دنوں میں بھی نقصان دہ ہے‘ اس لئے کہ یہ جسم میں چربی جمع کرنے کے علاوہ ہارمونیائی تبدیلوں کا بھی باعث بنتا ہے ۔ ان ایام کے دوران اس سلسلے میں خصوصی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ غسل یا صفائی کے لئے بھی نیم گرم پانی کا استعمال ہی بہتر رہتاہے جس سے درد کی شدت میں کمی آتی ہے۔ البتہ اپنی خوراک میں زیادہ کیلوریز والی ریشہ دار غذائوں‘ خصوصاً موسمی پھلوں اور سبزیوں کا استعما ل بڑھا دینا چاہئے۔ وٹامن سی والی اشیاء کا استعمال زیادہ کریں کیونکہ یہ آپ کے جسم میں آئرن کو بہتر جذب کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ مزیدبرآں اس عرصے میںپانی زیادہ پینا چاہئے۔

٭ لیکوریا سے کیا مراد ہے؟کب یہ نارمل ہے اور کب اسے بیماری سمجھا جائے؟
٭٭ لیکوریا (leukorrhea) دو یونانی الفاظ لیکوز(leukos) یعنی’’سفید‘‘ اور رِیا (rhoía) یعنی ’’بہنا‘‘ کا مجموعہ ہے۔ یوں اس سے مراد سفید رنگ کا ایک خاص مادہ ہے جو خواتین کی شرمگاہوں سے خارج ہوتارہتاہے۔ یہ مادہ‘ نسوانی عضومخصوص کے مردہ اور زہریلے خلیوں پر مشتمل ہوتا ہے جس کا مائع شکل میں اخراج ان کی تولیدی صحت کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ یہ معمول کا عمل ہے جسے بعض خواتین مرض سمجھ لیتی ہیں۔ اگر یہ مادہ چپچپااورگاڑھا ہو‘ اس کی رنگت سفید کی بجائے زردی مائل یا بھوری ہو‘ یہ مقدار میں زیادہ ہو اور مسلسل خارج ہوتا رہے تو اسے لیکوریا کا مرض قرار دیا جائے گا۔ یہ اخراج بعض اوقات اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ پیڈ رکھنے کی بھی ضرورت پڑسکتی ہے۔ بعض اوقات یہ شرمگاہ میں خارش اور پیٹ کے نچلے حصے میں درد کا باعث بھی بنتاہے۔ عمر میں اضافے یا زیادہ سفر کی صورت میں بھی اس مادے کی حالت یا مقدار میں تبدیلی آجاتی ہے جسے مرض نہیں سمجھنا چاہئے۔

٭ بچیاں لیکوریا سے بچاؤ کے لئے کیا اقدامات کرسکتی ہیں؟
٭٭ چند آسان احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے سے اس تکلیف سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔مثلاً غسل کے دوران پاخانے کے مقام اورشرمگاہ پر زیادہ پانی بہا نا اور بعد میں انہیں صاف تولیے سے اچھی طرح خشک کرناضروری ہے۔جسم سے زہریلے اور غیر ضروری مادوں کے اخراج کے لئے کافی مقدار میں پانی پیناچاہئے۔ رفع حاجت کے بعد مخصوص اعضاء کی طہارت کو یقینی بنانا چاہئے۔ بعض خواتین اس مقصد کے لئے صرف ٹشو استعمال کرتی ہیں جس سے نہ صرف مناسب صفائی نہیں ہوپاتی بلکہ ٹشوکے ذرات اندر رہ کر انفیکشن کا سبب بن سکتے ہیں۔ لہٰذا بہتر ہے کہ صفائی کے لئے پانی استعمال کیاجائے۔ مزید برآں ہمیشہ خشک اور سوتی کپڑے کا زیر جامہ پہنیں۔ اگر بارش میں یا پرمشقت کام کے دوران کپڑے بھیگ جائیں تو انہیںفوراً تبدیل کریں ۔تولیدی اعضاء کے اردگرد پاؤڈر،پرفیوم اور دیگر کاسمیٹکس سے گریز کریں۔

٭ کیا خوراک میں احتیاط کر کے لیکوریا سے بچا جا سکتا ہے؟
٭٭ لیکوریا کے مریضوں کو چاہئے کہ مٹھائی، پیسٹری، کسٹرڈ،آئس کریم اورپڈنگ وغیرہ سے خاص طور پرپرہیز کریں‘ اس لئے کہ ان میں خمیر(yeast) ہوتا ہے جو اس مرض کے بڑھنے کا سبب بن سکتا ہے۔ کھمبیاںmushrooms)) ایک طرح کی پھپھوندیاںہیں جنہیں کم کھانا چاہئے اور اس مرض میں تو ان سے خاص طور پردور رہناچاہئے۔کولا مشروبات میں شوگر زیادہ ہوتی ہے اور یہ گیس بھی پیدا کرتے ہیں لہٰذا ان کا استعمال بھی نہ کریں تو بہتر ہوگا۔ اس عرصے میں خشک میوہ جات‘ کھٹی چیزوں اور مصالحہ دار اشیاء کااستعمال بھی ضرورت سے زیادہ نہیں کرنا چاہئے۔

٭ خواتین میں بانچھ پن کی وجوہات کیا ہیں؟
٭٭ خواتین میں بانجھ پن کی سب سے عام وجہ پی سی او ایس (Polycystic ovary syndrome)ہے۔ یہ بیماری ہارمونز کے عدم توازن کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ بالغ خواتین کی بیضہ دانیاں (ovaries) دو طرح کے مادہ ہارمونز ایسٹروجن (Estrogen) اور پروجیسٹیرون (Progesterone) کے علاوہ ایک مردانہ ہارمون اینڈروجن (Androgen) بھی بناتی ہیں۔جب مردانہ ہارمون‘ زنانہ ہارمون سے زیادہ تعداد میں بننا شروع ہوجائیں تو ہارمونز کا توازن بگڑ جاتا ہے جس کے نتیجے میں یہ بیماری جنم لیتی ہے۔ اس کے علاوہ بیضہ دانیاں رطوبت سے بھری باریک تھیلیاں بھی بناتی ہیں جن میں انڈے ہوتے ہیں۔ یہ تھیلیاں فولیکلز (follicles) کہلاتی ہیں۔ ہر مہینے پختہ تھیلیاں پھٹتی ہیں جن میں سے انڈے باہر نکل کر فیلوپی نالیوں میں آجاتے ہیں اورحمل ٹھہرنے کے لئے پوری طرح تیار ہوتے ہیں۔ اس عمل کو اخراج بیضہ (ovulation)کہتے ہیں۔
’’پی سی او ایس‘‘ کی شکار خواتین میں یہ تھیلیاں اپنے انڈے خارج نہیں کرتیں۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ ان کا دماغ ہارمونز کا یہ پیغام بیضہ دانی کو نہیں بھیجتا کہ اپنے تیار انڈے نکال دے لہٰذا اخراج بیضہ نہیں ہوتا۔ ایسے میں تھیلیاں پھٹنے کی بجائے بڑی ہوتی جاتی ہیں اوربیضہ دانی میں جھلی دار دیواروں والی تھیلیوں (cysts) کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔

٭ پی سی او ایس کی عام علامات کیا ہیں؟
٭٭ پی سی او ایس کی ابتدائی علامات اس وقت ظاہر ہوتی ہیں جب لڑکیوں کو پہلی بار پیریڈزشروع ہوتے ہیں۔ جن خواتین کو پی سی او ایس ہوتا ہے‘ انہیںپیریڈز کم آتے ہیں یا بالکل نہیں آتے۔ اس کی ممکنہ علامات میں چہرے اور جسم پر غیرضروری بال آنا، وزن کا بڑھنا، چہرے پر کیل مہاسے، ڈپریشن اور بے چینی ہونا، بالوں اور جلد کی خشکی، ہائی بلڈ پریشر، کولیسٹرول اورانسولین لیول کا بڑھنا شامل ہیں۔ اگر پی سی او ایس کی بروقت تشخیص اور علاج نہ کروایا جائے تو مستقبل میں کئی مسائل سامنے آ سکتے ہیں جن میں دل کی بیماریاں‘ ذیابیطس‘ موٹاپا‘ حمل میں رکاوٹ اور بچہ دانی کا کینسر وغیرہ نمایاں ہیں۔

٭ بچیوں کو سپلی مینٹس کتنی مقدار میں اور کب دینے چاہئں؟
٭٭ خود علاجی سے پرہیز کرنا چاہئے۔ انہیںمتوازن اور صحت بخش غذا دیں تاکہ سپلی مینٹس کی ضرورت نہ پڑے‘ اس لئے کہ جس طرح ان کی کمی نقصان دہ ہے‘ اسی طرح ان کی زیادتی بھی مختلف مسائل کا سبب بنتی ہے۔ اگر ماں محسوس کرے کہ انہیں سپلی مینٹس کی ضرورت ہے تو وہ ڈاکٹر سے بچی کی عمر اور اس کی جسمانی ضروریات کے مطابق ان کی مقدار اور میعاد کا تعین کروا لیں۔ فورٹی فائیڈ فوڈز ان سپلی مینٹس کا ایک اچھا متبادل ہیں۔

٭ آخر میں بچیوں کے لئے کوئی پیغام؟
٭٭ بچیوں کے لئے میرا پیغام یہی ہے کہ وہ اپنے جسم میں نمودار ہونے والی تبدیلیوں کا بغور جائزہ لیتی رہیں اور ان کے بارے میں اپنی ماؤں سے بروقت ضروری معلومات حاصل کرتی رہیں۔ ماؤں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی بچیوں سے مناسب رابطہ رکھیں اور ان کو ہر طرح کی رہنمائی بہم پہنچائیں تاکہ وہ شرم یا جھجک کی وجہ سے کسی تکلیف دہ بیماری کی شکار نہ ہوجائیں۔ اگر کوئی مسئلہ ہو تو اسے نظرانداز کرنے کی بجائے بروقت ماہر امراض زچہ و بچہ سے رجوع کریں‘ اس لئے کہ بروقت تشخیص اور علاج کا کوئی متبادل نہیں۔ اگر اسے نظرانداز کیا جائے تو مستقبل میں کئی طرح کی پریشانیوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔

Vinkmag ad

Read Previous

بلڈ شوگر ٹیسٹ

Read Next

خود کو جانیں‘ جذبات پر قابوسیکھیں

Leave a Reply

Most Popular