Vinkmag ad

ایک کا سینہ‘ دوسرے کا دل

    روزمرہ زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب واشنگ مشین ‘ گاڑی یا کمپیوٹر کا کوئی حصہ یا پرزہ خراب ہو جائے تو اسے نئے پرزے سے بدل دیا جاتا ہے اور وہ مشین پھر سے کام کرنا شروع کر دیتی ہے ۔ سائنسی پیش رفتوںکی بدولت بیمار یا ناکارہ انسانی اعضاءکودیگر انسانوں کے صحت مند اعضاءسے تبدیل کر نا ممکن ہو گیا ہے۔ یہ عمل پیوندکاری (transplantation)کہلاتا ہے جس کی مدد سے ایسے بہت سے مریضوں کونئی زندگی دینا ممکن ہو گیا ہے جو اس سے تقریباً مایوس ہو گئے تھے ۔اس سلسلے میں اہم ترین پیوندکاری دل کی ہے جس کے کئی دلچسپ پہلو بھی سامنے آئے ہیں۔




دل کی مثال ایک پمپ کی ہے جو انسانوں میں خون کی گردش کو قائم رکھتا ہے۔ یہ ہر منٹ میں اوسطاً 72 بار دھڑکتا ہے اور تقریباًپانچ لٹر خون شریانوں میں دوڑاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ 24گھنٹوں کے دوران اوسطاً ایک لاکھ دفعہ سے بھی زیادہ بار دھڑکتا ہے۔دنیا بھر میں کل اموات میں سے 12فی صد دل کے دورے سے ہوتی ہیں۔ مرغن کھانوں کا زیادہ استعمال‘ جسمانی سرگرمیوں کا بہت کم ہونا اور سگریٹ نوشی سب سے زیادہ دل دشمن رویے ہیں۔

 

 

دل کی اولین پیوندکاریاں
دل کی پیوندکاری(heart transplantation) کے تجربات کا آغاز 1950ءکی دہائی میں ہوا۔ ابتدا میں ڈاکٹروں نے جانوروں پر اس کے تجربات کئے جن کے بعد ایک بچی جسے بے بی فے (Baby Fae) کہا جاتا تھا‘کے سینے میں ایک بندر کا دل لگایا گیا۔ یہ تجربہ ناکامی سے دوچار ہوا اور بچی چند ہی گھنٹوں بعد فوت ہو گئی۔
کیپ ٹاﺅن (جنوبی افریقہ) کے ڈاکٹر کرسچین برنارڈ (Christian Bernard) نے پہلی دفعہ ایک مریض لوئیز وشنسکی (Louis Washkansky) میں کامیابی سے نیا دل لگا یا۔ مریض کی عمر 53 سال تھی اور اس کے بچنے کی کوئی امید نہ تھی۔ نیا دل ایک 25 سالہ خاتون ڈینیس (Denise) سے آیاجس کی جان ایک ٹریفک حادثے میں چلی گئی تھی۔ یہ تاریخی آپریشن 3 دسمبر 1967ءکو ہوا جس نے دنیا بھرمیں تہلکہ مچادیا۔
قدرت نے ہمیں ایک پیچیدہ مدافعتی نظام سے نوازا ہے جو دن رات ہماری پہرہ داری کرتا ہے اور جسم میں کوئی بیرونی چیز داخل ہونے پر ردعمل کا اظہار کرتا ہے۔ سفید خلیوں کی شکل میں یہ پہرے دار بالعموم اور ان کی ایک قسم لمفوسائٹس (lymphocyte) بالخصوص پیوندشدہ اعضاءکی تلاش میں لگی رہتی ہے ۔ اگر اسے کوئی ایسی چیز مل جائے تو وہ اسے فوراًمسترد کر دیتی ہے۔ ایسے میں پیوند شدہ عضو اپنا کام چھوڑدیتا ہے اور ضائع ہو جاتا ہے۔ اس صورت حال سے بچنے کے لئے ہمیں ایسی دوائیں استعمال کرنا پڑتی ہیں جو مدافعتی نظام کو کمزور کردیں تاکہ پیوندشدہ عضو مسترد نہ ہو۔
لوئیز وشنسکی کو بھی ایسی دوائیں دی گئیں لیکن قوت مدافعت کمزور ہونے سے مریض کو ڈبل نمونیا ہو گیا۔ یہ اس کے لئے مہلک ثابت ہوا اور وہ 18 روز بعدفوت ہو گیا۔یہ ایک گھمبیر مسئلہ تھا جس کی وجہ سے کچھ عرصے تک پیوندکاری والی سرجری ماند پڑ گئی تاہم 1970ءکی دہائی میں ایک زیادہ مو¿ثر دوادریافت ہوئی جس کے بعد ایک بار پھر نئے جوش و خروش کے ساتھ یہ کام شروع ہو گیا۔
نئی دوا کی کامیابی کی وجہ سے اب 73.2فی صد مرد اور 69فی صد عورتیں ٹرانسپلانٹ کے پانچ سال کے بعدتک زندہ رہتی ہیں۔ تاہم کچھ استثنائی صورتیں بھی موجو دہیں۔مثال کے طور پر ڈرک وان زائل (Drik Von Zyl) کے دل کی پیوندکاری 1971 ءمیں ہوئی جس کے بعد وہ 23 سال تک زندہ رہا۔اسی طرح ٹونی ہیوزمین (Tony Huesman) نے 1978ءمیں نیا دل پایا اور 2009ءتک زندہ رہا۔زندگی کی آخری سانس تک اس کا دل ٹھیک کام کرتا رہا اور وہ کینسر سے فوت ہوا ۔
دل کے بغیر زندگی
دل کی کیفیات میں سے ایک کیفیت ’بے دلی‘ بھی ہے۔ یہ لفظ افسردگی، اداسی اور دل نہ چاہنے جیسی کیفیات کیلئے بولا جاتا ہے۔ تاہم امریکہ میں ایک 18 سالہ لڑکی ڈی زہنا سائمنز(D’Zhana Simmons) اپنے حقیقی معنوں میں ’بے دلی‘ یعنی بغیر دل کی حالت میں 118 دن زندہ رہی ۔    وہ دل کی ایک لاعلاج بیماری میں مبتلاتھی اوراسے نیا دل لگانے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ ڈاکٹروں نے اس کابیمار دل نکال کر اس کی جگہ نیا دل لگا دیا ۔بدقسمتی سے اس نئے دل نے ٹھیک طرح سے کام نہ کیا۔ جب آپریشن ناکام ہوا تو نیا دل ملنے تک مجبوراً اسے پمپ پر رکھا گیا۔ پیوندکاری کے لئے دل بہت مشکل سے ملتا ہے ۔بالآخر 118 دن کے بعد اسے نیاصحت مند دل مل گیا جس نے کامیابی سے اپنا کام شروع کر دیا۔یہ ایک ریکارڈ ہے کہ ایک مریضہ اتنے دن بغیر دل کے زندہ رہی۔
عطیہ شدہ دل کو نئے سینے میں لگانے کے دو طریقے ہیں۔پہلا طریقہ یہ ہے کہ مریض کے دل کو اس کی جگہ پرہی رہنے دیا جاتا ہے اور اس کی مدد کےلئے عطیہ دہندہ کا دل بھی لگا دیا جاتا ہے۔ طب کی اصطلاح میں اسے بے محلی اعضاءوالی (heterotopic)پیوندکاری کہتے ہیں۔ اس میں مریض کے سینے میں دو دل دھڑک رہے ہوتے ہیں۔ دوسرے طریقے میں مریض کا دل ہٹا کرنیا دل لگا دیاجاتا ہے۔
دل کا شخصیت پر اثر
اگرچہ ہمارے دل کا بظاہرہماری عادتوں‘ خصلتوں اور پسند یا ناپسندسے کوئی تعلق نہیں ہوتالیکن دل کے وصول کنندہ میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بعض اوقات عطیہ دہندہ کی خاصیتیں بھی آنے لگتی ہیں۔مثلاًدیکھاگیا ہے کہ پیوندکاری سے پہلے اگر انہیں کوئی کھانا پسندنہ تھا توپیوندکاری کے بعد وہ انہیں پسند آنے لگا‘ اس لئے کہ عطیہ دہندہ کو وہ کھانا پسند تھا ۔اس کے بعدبعض لوگوں کے موسیقی کے ذوق بھی بدل گئے۔ اسی طرح ایک مریضہ کو ڈراﺅنے خواب بہت آتے تھے ۔بعد میں معلوم ہوا کہ اسے جس لڑکی کا دل عطیے میں ملا تھا‘ اسے کسی نے قتل کیا تھا اور یہ خواب اسی بارے میں تھے۔
ان مشاہدات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم ڈاکٹروں کا علم ابھی نامکمل ہے اور ہمیں ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔
کیا دل صرف ایک پمپ ہے ؟
     سائنس کے طالب علم کی حیثیت سے ہم جانتے ہیں کہ دل کاصرف ایک کام ہے اور وہ ہے جسم کے تمام اعضاءکو خون کی فراہمی لیکن ادب اور روزمرہ زندگی میں اس کے اور بھی بہت سے کام گنوائے جاتے ہیں۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ ”میرے دل میں یہ خیال آیا“ یا ”میرے دل میں آپ کیلئے محبت کے جذبات موجزن ہیں“ وغیرہ وغیرہ ۔ سچ یہ ہے کہ یہ بات بھی بالکل غلط نہیں ہے۔ اگرچہ ہم دماغ سے ہی سوچتے ہیں لیکن ہمارے دل پر ان کا بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈر‘ گھبراہٹ‘ غصے اور طیش کے علاوہ عشق وغیرہ میں دلوں کی دھڑکنیں بڑھ جاتی ہیں۔
    یہاں پر میں ہندو اور بدھ مت کے لوگوں میں پائے جانے والے دلچسپ تصورات کاذکر کروںگا۔ ان کے مطابق انسانی جسم کے اندر سات چکر) (Chakras ہوتے ہیں جو کمر کے نچلے حصے سے شروع ہو کر سر تک جاتے ہیں۔ ان میں سے چوتھا چکر دل کا ہے جو سینے کے حصے میں آتا ہے۔ ان مذاہب کے مطابق یہ چکر جسم‘ دماغ اور روح کو آپس میں ملاتا ہے اور اس میں انسانی ہمدردی‘ باہمی محبت اور روحانیت کے جذبات رونما ہوتے ہیں۔ اگر یہاں پر توازن میں خلل آجائے تو بے خوابی‘ بے چینی‘ سانس لینے میں دشواری‘ ہائی بلڈپریشر اور امراض قلب بڑھ جاتے ہیں۔

Vinkmag ad

Read Previous

جلنا یاجھلسنا‘ فوری طورپر کیا کریں

Read Next

کچن اور صحت جدید آلات‘ زندگی آسان

Most Popular