Vinkmag ad

ہاتھ کی صفائی

ہاتھ کی صفائی

 ہاتھ دھونے کا حفظان صحت کے ساتھ بہت گہراتعلق ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق 80فی صدمتعدی بیماریاں ہاتھوں کی صفائی کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے پھیلتی ہیں ۔اگر اس کا خیال رکھا جائے تو ہر سال پانچ سال سے کم عمرکے 18-10لاکھ بچوں کی جانیں بچا سکتی ہیں۔

زمانہ قدیم میں بھی لوگوں کو اندازہ تھا کہ متعدی بیماریوں کا کسی ایسی چیز سے ضرور تعلق ہے جسے دیکھانہیں جاسکتا۔ 1847ء میں ویانا( آسٹریا) کے ایک ہسپتال میں زچگی سے متعلق دووارڈ تھے۔ ان میں سے ایک میں زیرتربیت ڈاکٹراور دوسری میں دائیوں کی عملی تربیت کا انتظام تھا ۔ہسپتال میں زچگی کے عمل سے گزرنے والی خواتین میں موت کی شرح دیگر ہسپتالوں سے زیادہ تھی۔اس کا سبب انفیکشن تھا جو انہیں زچگی کے تین یا چار دن کے دوران ہوجاتا تھا۔اس بیماری کو بستر بچگان کے بخار کا نام دیا گیا۔

دلچسپ بات یہ تھی کہ ڈاکٹروں والی وارڈ میں اموات کی شرح 5 سے 30فی صد تھی جو دائیوں والی وارڈ کی نسبت بہت زیادہ تھی ۔ ڈاکٹر انفیکشن کی وجہ سے مرنے والے مریضوں کا پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد ہاتھ دھوئے بغیر زچگی والے وارڈ میں چلے جاتے تھے۔ پھر کلورین ملے پانی سے ہاتھ دھونے کی ہدایت کی گئی جس کے بعد اموات کی شرح دوفی صد تک آ گئی جو دائیوں والے وارڈ سے بھی کم تھی۔

فلاڈیلفیا (امریکہ) کے ایک پروفیسر کا کہنا تھا کہ ’’تمام ڈاکٹر،جنٹل مین ہیں اورجنٹل مینوں کے ہاتھ صاف ہوتے ہیں۔‘‘ بعد میں یہ معلوم ہوا کہ ہرمتعدی بیماری مخصوص جراثیم سے ہوتی ہے جوسائز میں اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ سوئی کی نوک پر لاکھوں کی تعداد میں سماسکتے ہیں۔ انہیں بیکٹیریا کہاجاتا ہے جبکہ وائرس تو ان سے بھی سینکڑوں گنا چھوٹے ہوتی ہیں۔

ٹائیفائیڈ میری

 میری میلن 19ویں صدی کے آخر میں آئر لینڈ سے ہجرت کر کے نیویارک (امریکہ) آگئی ۔وہ ایک غریب عورت تھی جو لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرتی تھی ۔1900ء سے 1907ء کے درمیانی عرصے میں یہ بات سامنے آئی کہ وہ جس گھر میں کام کرتی‘ اس میں معیادی بخار(ٹائیفائیڈ ) پھیلنے لگتا تھا۔ اس کی وجہ سے کم از کم 51افراد کویہ مرض ہوا جن میں سے تین انتقال کرگئے۔ دلچسپ بات یہ تھی اسے خود یہ بیماری نہ تھی۔ جب کسی علاقے میں اس کے مریض سامنے آنے لگتے تو وہ اسے چھوڑ کرنئی جگہ کام شروع کر دیتی۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد وہاں بھی یہ بیماری سر اٹھانے لگتی جس سے وہ لوگوں کی نظروں میں آ جاتی ۔

اگرچہ20صدی کے آغاز میں صحت کے حوالے سے سخت قوانین موجود نہیں تھے لیکن پھر بھی اسے حراست میں لے کر نیویارک کے ایک خاص حصے تک محدود کردیا گیا۔اس نے اپنی زندگی کے آخری کئی سال اس حال میں گزارے کہ اسے ’’ٹائیفائیڈ میری‘‘ کے نام سے مخاطب کیا جاتا ۔ اس کے نام کے ساتھ یہ دھبہ آج تک برقرار ہے ۔بہت بعد میں معلوم ہوا کہ یہ بخار لیٹرین کے استعمال کے بعد ہاتھ اچھی طرح سے صاف نہ کرنے سے پھیلتا ہے۔

قطروں کا انفیکشن

سانس کی بیماریوں (مثلاً نزلہ‘زکام‘ کھانسی اورنمونیاوغیرہ )کے جراثیم کھانسی اور چھینک کی حامل پھوار(جس میں بلغم اور تھوک کی رطوبت شامل ہوتی ہے) کے ذریعے پھیلتے ہیں۔ اس طرح پھیلنے والی بیماری کو قطروں کا انفیکشن کہا جاتاہے۔بڑے اوربھاری قطرے چند میٹر کی دوری پر گرجاتے ہیں جبکہ ننھے قطرے ہوا میں کئی گھنٹوں تک معلق رہتے ہیں ۔ اگر کوئی شخص اس فضاء میں سانس لے تو وہ اس کے پھیپھڑوں میں جا کر انہیں بیمار کر سکتے ہیں۔ پھوار کے قطرے بعض اوقات دیگر چیزوں پر بمع جراثیم جمع ہوجاتے ہیں اور جب کوئی شخص ان چیزوں کو چھوتا ہے تو وہ اس تک منتقل ہوجاتے ہیں۔

احتیاط

بہت سے لوگ ارادی اور غیر ارادی طور پر کھانسی اور چھینک کو بندمٹھی میں روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس سے جراثیم ان کے ہاتھوں پر منتقل ہو جاتے ہیں۔ پھر ہاتھ ملانے یا ان ہاتھوں سے کوئی چیز پکڑنے سے دوسروں تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس لئے ہتھیلی پر کھانسنے اور چھینکنے کی بجائے یہ کام کہنی کے قریب یا آستین میں کریں۔ زیادہ بہتر صورت ٹشو پیپرکا استعمال ہے جسے بعد میں کسی محفوظ جگہ پر پھینک دیا جائے۔

ہسپتالوں اور کلینکوں میں فلو اوردیگر متعدی بیماریوں میں مبتلا افراد کی بھرمار ہوتی ہے۔ یہاں پائے جانے والے جراثیم بعض اوقات اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ ان پر اینٹی بائیوٹکس اثر نہیں کرتیں۔اس مسئلے کو بالکل ختم کرنا تو شایدمشکل ہو تاہم ہاتھوں کو صاف رکھنے اور دھونے کی عادت سے اس میں کمی لائی جا سکتی ہے ۔

شادیوں کی تقریبات میں بعض جگہوں پر کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونے کا انتظام نہیں ہوتا۔اگر ایسا ہو تو کھانے کی چیزوں کو ہاتھ سے چھونے کی بجائے چمچ اور کانٹا استعمال کریں۔مختصر یہ کہ ہاتھ دھونے کی عادت اپنائیں اور بچوں کو بھی اس کی عادت ڈالیں۔

Hand hygiene, typhoid merry, importance of hygiene

Vinkmag ad

Read Previous

اچھی نیند حاصل کرنے کے چند اصول

Read Next

چقندر کھائیں‘ خون بنائیں

Leave a Reply

Most Popular