انسانی جسم میں دماغ کے بعد دوسرا پیچیدہ ترین عضو آنکھ ہے۔ یہ قدرت کا وہ حسین تحفہ ہے جس کے بغیر کائنات میں بکھرے رنگ، روشنیاں اور نظارے دیکھنا ممکن نہیں۔ آنکھوں میں کچھ پٹھے ہوتے ہیں جو اپنی حرکات کے ذریعے دیکھنے کے عمل کو یقینی بناتے ہیں۔ ان سے متعلق دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ باقی پٹھوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے حرکت کرتے ہیں۔ ان کی حرکات بے قاعدہ ہونے سے جو مسائل پیش آتے ہیں ان میں سے ایک آنکھوں کا ٹیڑھاپن یا بھینگا پن بھی ہے۔
آنکھوں کو ایک ڈور سے بندھی پتلی سے تعبیر کیا جائے تو یہ چھ پٹھوں کی ڈور پر تماشا دکھاتی ہے۔ آنکھوں کا اوپر، نیچے، دائیں اور بائیں طرف دیکھنا انہی کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے۔ ان کے چھپر (lid) میں موجود پٹھے انہیں جھپکنے میں مدد دیتے ہیں۔ اسی طرح کچھ پٹھے زیادہ روشنی میں آنکھ کی پتلی کو سکیڑ کر یا کم روشنی میں پھیلا کر بہتر طور پر دیکھنے میں مدد دیتے ہیں۔
پٹھوں کا توازن کسی وجہ سے بگڑ جائے تو ان کی حرکات بے قاعدہ ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں آنکھ ٹھیک وقت پر سامنے کی چیز کا احاطہ نہیں کر پاتی۔ یہ مسئلہ ایک یا دونوں آنکھوں میں ہو سکتا ہے۔ بعض اوقات آنکھ بظاہر ٹھیک ہوتی ہے لیکن اس میں مخفی طور پر بھینگا پن ہوتا ہے۔
بھینگے پن کی اقسام
بھینگے پن کی دو بنیادی اقسام ہیں۔
٭ پہلی قسم میں آنکھیں بظاہر سیدھی نظر آتی ہیں لیکن تھکاوٹ، بیماری یا ذہنی دباؤ وغیرہ کی صورت میں ان میں عارضی طور پر خاص قسم کا ٹیڑھا پن نمایاں ہو جات اہے۔ طب کی اصطلاح میں اسے زاویہ نگاہ کا توازن بگڑنا (Heterophoria) کہتے ہیں۔
٭ دوسری قسم نمایاں بھینگے پن سے متعلق ہے۔ اس میں ایک یا دونوں آنکھوں میں ٹیڑھا پن واضح اور مستقلاً نظر آتا ہے۔ اصل میں بھینگاپن (Heterotopia) اسی کو کہا جاتا ہے۔
ان اقسام کی ذیلی اقسام بھی ہیں۔ مثلاً آنکھ کے مستقلاً اندر کی طرف مڑنے کو ایسوٹروپیا (Esotropia) اور باہر کی طرف پھرے رہنے کو ایگزوٹروپیا (Exotropia) کہتے ہیں۔ اس کے اوپر کی جانب چڑھے رہنے کو ہائپرٹروپیا (Hypertropia) اور نیچے کی طرف ڈھلکے رہنے کو ہائپوٹروپیا (Hypotropia) کہا جاتا ہے۔
وجوہات
یہ مسئلہ کسی خاص عمر، پیشے یا جنس سے متعلق نہیں بلکہ کسی کو بھی ہو سکتا ہے۔ دنیا بھر میں اس کی شرح بچوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ یہ پیدائشی یا عمر کے کسی بھی حصے میں لاحق ہو سکتا ہے۔ اس کی وجوہات یہ ہیں:
٭ موروثیت
٭ ڈاؤن سینڈروم
٭ دماغ میں رسولی
٭ فالج
٭ آنکھوں یا سر کی چوٹ
٭ موتیا
٭ ایک یا دونوں آنکھوں کی بینائی کمزور ہونا
٭ آنکھ کا سست ہونا
علامات
٭ آنکھ کا اندر یا باہر کی طرف مڑ جانا
٭ تیز روشنی میں متاثرہ آنکھ کو فوراً بند کر لینا
٭ چیزوں کے دو، دو عکس نظر آنا
٭ آنکھوں کو حرکت دینے پر دونوں کی حرکت بے قاعدہ محسوس ہونا
٭ گہرائی یا اونچائی کے اندازے میں غلطی کرنا
علاج
اس نقص کا علاج مریض کی عمر، نظر کی کیفیت اور بھینگے پن کی نوعیت کے مطابق مختلف انداز سے کیا جاتا ہے۔ اس میں دوا کا عمل دخل نہیں۔ بھینگا پن ٹھیک کرنے کے لیے یہ آپشنز تجویز کیے جاتے ہیں:
٭ نظر کی عینک
٭ آنکھ پر پٹی چڑھانا
٭ منشور (prism) کی مدد سے متاثرہ آنکھ کو سیدھا کرنا
٭ سرجری ( یہ انتہائی صورتوں میں تجویز کی جا سکتی ہے)
پیچیدگیاں
اس کا بر وقت علاج نہ کروایا جائے تو یہ مسائل پیدا ہو سکتے ہیں:
٭ ٹیڑھی آنکھ کے سست ہو جانے کا خدشہ ہوتا ہے۔
٭ آنکھ سست ہو جائے تو بینائی بحال نہیں کی جا سکتی۔
٭ مریض کی خود اعتمادی پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
٭ کم عمری میں دونوں آنکھوں کی ایک ساتھ دیکھنے کی صلاحیت کھو دینے والے بچوں کی سماجی اور معاشی زندگی پر برا اثر پڑتا ہے۔
آٹھ سال تک بچے کی نظر بن رہی ہوتی ہے۔ اس دوران علاج کروا لیا جائے تو آنکھوں کو سیدھا کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ایک ساتھ دیکھنے کے قابل بھی بنایا جا سکتا ہے۔ یہ عمر گزر جائے تو پھر آنکھ صرف سیدھی کی جا سکتی ہے۔ پھر مریض دونوں آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود ہر آنکھ سے الگ الگ ہی دیکھتا ہے۔ ایسے میں اس کی بینائی کے مسائل برقرار رہتے ہیں۔