Vinkmag ad

آنکھ کی سستی

دنیا کی رونقوں سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہونے کے لئے دونوں آنکھوں کا برابری کی سطح پر کام کرنا ضروری ہے۔ان میں سے کوئی ایک آنکھ بھی سست رہ جائے تو اس صلاحیت پر برا اثر پڑتا ہے۔ بہت سے لوگ آگاہی نہ ہونے اور وقت پر علاج نہ کروانے کی وجہ سے سست آنکھ کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور رہتے ہین اور بہت سی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے پاتے۔سست آنکھ ہے کیا اور اس کا علاج کیسے کیا جائے؟ بتا رہی ہیںمدحت نسیم ماہر امراض چشم کے ساتھ گفتگو کی روشنی میں لکھے گئے اس مضمون میں

زندگی حسین ہے اوراس کی رنگارنگی کے مختلف نظارے ہم روزانہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔لیکن جو چیز ہمیں دنیا دکھاتی ہے ‘ اسے ہم براہ راست نہیں دیکھ سکتے۔یہ قدرت کا خوبصورت اور قیمتی تحفہ آنکھ ہے جو دیگر اعضاءکی طرح نشو ونما پاتی ہے‘ یہاں تک کہ ایک خاص عمر میں اپنے نقطہ عروج کو چھو لیتی ہے۔
ہر صحت مند انسانی آنکھ کے لئے زندگی کے پہلے آٹھ سال نشوونما کے اعتبار سے بہت اہم ہوتے ہیں۔ان قیمتی سالوں میں وہ نہ صرف جسامت میں بڑھتی ہے بلکہ اس کے افعال کا دائرہ (مثلاً رنگ دیکھنا،رنگوں میں تمیز کرنا،دو چیزوں کے درمیان فاصلہ ،اونچائی یا گہرائی کا صحیح اندازہ لگانا ،آنکھیں جھپکنا ،تیز روشنی کے زیر اثر مناسب ردعمل دینا ،نزدیک یا دور کی چیزوں کو صفائی سے دیکھنا وغیرہ )بھی وسیع ہوتا ہے۔ غرضیکہ آنکھ اور دماغ کی ہم آہنگی کی بدولت ایک ناظر دنیا کی خوبصورتیوں سے لطف اٹھا سکتا ہے۔
زندگی کے ان آٹھ سالوں میں آنکھ یا دماغ کے رابطے میں موجود کوئی بھی رکاوٹ بینائی کی عمومی ترقی کو متاثر کر سکتی ہے۔اس سے آنکھ کے بنیادی افعال پر بھی اثر پڑ سکتا ہے جسے عام زبان میں سست آنکھ (lazy eye) کہا جاتا ہے۔

سست آنکھ ہے کیا؟
سست آنکھ جسے میڈیکل کی زبان میں کم نظری (amblyopia) سے تعبیر کیا جاتا ہے‘نظر کی نشوونما کا ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں ایک یا دونوں آنکھوں میں دماغ اور آنکھ کے درمیان بہتر رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے دیکھنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔عینک لگانے سے بھی یہ کمی پوری نہیں کی جاسکتی ۔ ظاہراًآنکھ اور اس کا سارا حیاتیاتی نظام صحیح کام کرتا ہے لیکن متاثرہ آنکھ بینائی کی کمی کی وجہ سے دماغ کے لئے اتنی کارآمد نہیں رہتی جتنی کہ ایک صحت مند آنکھ ہوتی ہے۔لہٰذا وہ(دماغ) آخر کار اس کے افعال کو معطل کر دیتا ہے۔دنیا میں تقریباً چار فی صد بچے آنکھ کی اس بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ بصارت کے کھوجانے(vision loss)کی ایک بڑی وجہ سمجھی جاتی ہے۔

وجوہات
الشفاءآئی ٹرسٹ ہسپتال راولپنڈی کے ماہرِ امراضِ چشمڈاکٹر کاشف حبیب اس کی درج ذیل وجوہات بتاتے ہیں :
٭ایک آنکھ کی بینائی کا دوسری آنکھ کی نسبت کم ہونا یا دونوں آنکھوں کی نظر کے درمیان واضح فرق کا پایا جانا۔
٭آنکھ کا ٹیڑھے پن یا بھینگے پن کا شکار ہونا۔
٭بچوں میں پیدائشی موتیے کا اثر آنا یا اس کی آنکھ کے پردے (cornea) کا دھندلا ہوجانایا آنکھ کی پلکوں (lids) کا پیدائشی طور پر شفاف نہ ہونا وغیرہ۔
٭ انتہائی کیسز میں ایک وجہ آنکھ کا ٹیومر بھی بن سکتا ہے۔
مندرجہ بالا وجوہات کی بنا پر جب متاثرہ آنکھ سے موصول ہونے والی کمزور یا دھندلی تصاویر دماغ کے لئے تکلیف کا باعث بنتی ہیں تو وہ سرے سے کمزور آنکھ کے عکس کو ہی قبول کرنے سے انکار کرنے لگتا ہے۔اس کی وجہ سے آہستہ آہستہ آنکھ کی کارکردگی برائے نام رہ جاتی ہے اور یوں بینائی کی عمومی ترقی رک جاتی ہے۔

علامات
عمومی مشاہدہ یہی ہے کہ زیادہ تر بچوں کی کوئی ایک آنکھ اس مسئلے سے متاثر ہوتی ہے تاہم ان کی دونوں آنکھیں بھی اس مرض کا شکار ہوسکتی ہیں۔ایک آنکھ کی نظر ٹھیک ہونے کی وجہ سے عموماً بچے دیکھنے میں دقت محسوس نہیں کرتے لہٰذا آنکھ کے سست رہ جانے کا مسئلہ سامنے نہیں آتا لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ آنکھ کی عمومی کارکردگی میں خلل واقع ہونا شروع ہوجاتا ہے اوردیکھنے میں تکلیف ہونے لگتی ہے۔اس کی وجہ سے متاثرہ شخص عمر کے موجودہ حصے میں بینائی کی کمی کی وجہ تلاش کرتا ہے جبکہ وہ بچپن سے ہی اس مرض کا شکار ہوتا ہے۔مندرجہ ذیل علامات اس مرض کے تعین میں مدد دے سکتی ہیں:
٭آنکھ کا اندر یا باہر کی طرف انحراف کر جانا۔
٭بچے کا سیدھا دیکھنے کی بجائے سر ٹیڑھا کر کے دیکھنے میں سہولت محسوس کرنا۔
٭ آنکھوں کے ڈھیلوں کا مسلسل حرکت میں رہنا۔
٭ دونوں آنکھوں کا ایک ساتھ حرکت نہ کرنا۔
٭ کتاب پڑھتے وقت الفاظ کی ادائیگی کے درمیان بچے کا زیادہ وقت صرف کرنا۔
٭بچہ تصویر میں رنگ بھرتے ہوئے ‘باریکی کا کام کرتے ہوئے یا ٹی وی دیکھتے ہوئے صحت مند آنکھ بند کرنے پر چڑچڑے پن،تکلیف یا غصے کا اظہار کرے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی دوسری آنکھ سست ہے جو دیکھنے میں تکلیف کا باعث ہے۔

خطرے کی زد میں
ایسے بچے جن کے خاندان میں پیدائشی سفید موتیے ،کالے موتیے یا بھینگے پن کے شکار لوگ موجود ہوں‘ ان کی آنکھ سست ہونے کے خدشات زیادہ ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ پیدائشی طور پرپلکوں کا ڈھلکا ہوا ہونا،والدین میں سے کسی ایک یا دونوں کا سگریٹ نوشی یا نشہ آور ادویات کا استعمال کرنا،پیدائش کے وقت بچے کے وزن میں کمی،بچے کے ذہنی توازن کا بگاڑ یابچے کا ایسے جینیاتی امراض کا شکار ہونا جو آنکھ کو بھی متاثر کر سکتے ہوں‘ شامل ہیں۔

تشخیص/علاج
اگر آٹھ سال سے قبل بچوں کو ہر چھ ماہ بعد آنکھوں کے معالج کو دکھایا جائے تو مکمل معائنے اور تشخیصی ٹیسٹوں کے ذریعے سست آنکھ کا علاج اور اس سے بچاو¿ ممکن ہے۔ مسئلے کے بروقت سامنے آجانے سے اکثر صورتوںمیں مستقل تکلیف سے بچا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر کاشف نے اس امر پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس مرض کے علاج میں ڈاکٹر کے ساتھ تعاون بے حد ضروری ہے۔سست آنکھ کا سبب ختم ہونے کے بعد دوسری صحت مند آنکھ کو پٹی،عینک،دوائی یا کنٹیکٹ لینز سے بند کر دیا جاتا ہے اور مریض کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ زبردستی دیکھے۔
اس میں بچوں کو ایسی مشقیں کروائی جاتی ہےں جن میں وہ دیکھنے کے لئے نظر کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرے ۔ ان میں رنگ بھروانا،ٹی وی دکھانا،کمپوٹر پر کھیل کھلوانا یا کتاب بینی وغیرہ شامل ہیں۔اس حربے سے دماغ پر یہ دباو¿ ڈالا جاتا ہے کہ وہ کمزور آنکھ سے بھیجے گئے غیرواضح اور دھندلے عکس وصول کرے اور اس طرح آنکھ کی کارکردگی بہتر ہو اور وہ فعال ہوجائے۔ زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ آٹھ سال کی عمر کے بعداس تھیراپی کے بہتر نتائج حاصل کرنے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں ،کیونکہ آنکھ اپنی حیاتیاتی نشوونما مکمل کر چکی ہوتی ہے۔ اب کچھ سافٹ ویئرز کے استعمال اور شدید کوشش سے زیادہ عمر رسیدہ افراد میں بھی پیوندکاری کے ذریعے سست آنکھ کا علاج ممکن ہے۔تاہم یہ بات طے ہے کہ بصری نظام کی نشوونما کے پہلے آٹھ سالوں میں پیوندکاری کے نتائج بعد کے آٹھ سال کے مقابلے میں کافی حوصلہ افزا ہیں۔

پیچیدگیاں
ڈاکٹر کاشف نے بتایا کہ اگر سست آنکھ کا بروقت علاج نہ کروایا جائے تو بعض اوقات مریض مختلف نفسیاتی مسائل میں بھی مبتلا ہو سکتا ہے۔ اس مسئلے کے شکار افراد بچپن سے نکلتے ہی مندرجہ ذیل کام کرتے ہوئے دقت محسوس کرتے ہیں:
٭چیزوں کے درمیان طول،عرض یا گہرائی کا صحیح ادراک نہ کرنا۔
٭ایک یا دونوں آنکھوں سے ہمیشہ غیر واضح یا دھندلا نظر آنا۔
٭وقت کے ساتھ ساتھ سست آنکھ کا ٹیڑھے پن کا شکار ہوجانا ۔
٭ایسے افرادکسی بھی ایسے کام کی ادائیگی میں دقت محسوس کرتے ہیں جس میں ہاتھ اور آنکھ کی ہم آہنگی ضروری ہو۔ مثلاً گاڑی چلانا اوربیڈمنٹن کھیلنا وغیرہ۔
گفتگو کو سمیٹتے کہا جا سکتا ہے کہ بروقت تشخیص اور علاج انسان کو آنے والی بہت سی مشکلات سے بچا لیتا ہے۔اب یہ ہم پر ہے کہ اس عضو کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھ کر بروقت علاج کرواتے ہیں یا اسے نظرانداز کر کے عمربھر کی خرابی‘ تکلیف اور بے بسی کو گلے لگاتے ہیں ۔
نوٹ: مصنفہ پیشے کے اعتبار سے آرتھوپٹسٹ اینڈ آپٹومیٹرسٹ ہیں۔

Vinkmag ad

Read Previous

سرد یاں اور صحت…احتیاط کریں‘ لطف اٹھائیں

Read Next

جھک جھک کے ہو گئی ہے اپنی کمر کمانی

Most Popular