Vinkmag ad

بحالی صحت

”ماما! اِدھر آئیں، ذرا جلدی سے… “
رات کے 11:30بج رہے تھے اور عرشیہ کی ماما گھر کے کام کاج ختم کرنے کے بعد سونے کے لئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہی تھیں کہ انہیں ساتھ والے کمرے سے عرشیہ کی آواز آئی۔ وہ تقریباً بھاگتے ہوئے اس کے کمرے میں داخل ہوئےں۔
”کیا ہوا عرشیہ ؟ “ماما نے اسے دیکھتے ہی پکارا۔
”رانیہ کی طرف دیکھیں ذرا! “ عرشیہ نے چھوٹی بہن کی طرف اشارہ کیا جوآنکھیں جھپکائے بغیر مشینی انداز میں چلتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس نے زبان سے کچھ الفاظ بھی ادا کئے جو پہلے تو کسی کی سمجھ میں نہ آئے لیکن جب ماما اس کے قریب آئیں تو جو کچھ انہیں سنائی دیا، وہ کچھ یوں تھا:

”آپ میرے ساتھ کیوں نہیں کھیلتیں۔ میں آپ کی ہر بات مانوں گی اور آپ کو بالکل بھی تنگ نہیں کروں گی ۔ پلیز، مجھے اپنی گڑیا کے ساتھ کھیلنے دو۔ میں اسے بالکل خراب نہیں کروں گی اور تھوڑی دیر بعد واپس کردوں گی…“
”رانیہ، کون سی گڑیا اور کیسی گڑیا…؟ “ عرشیہ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی بہن نے نہ تو کوئی جواب دیا اور نہ اس کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہوئے ۔ اس نے خلا میں گھورتے ہوئے کچھ اور باتیں کیں جو عرشیہ کی سمجھ سے بالاتر تھیں۔ ماما نے رانیہ کی انگلی پکڑ کراسے واپس بستر پرلٹا دیااور پھر کہا:”یہ نیند میں چل اور بول رہی تھی۔“
اگلے دن عرشیہ نے رانیہ سے اس واقعے کاذکر کیا تو اس نے اس کے بارے میں مکمل لاعلمی اور حیرت کا اظہار کیا۔ اس پر دونوں کو تعجب ہوا اورانہوں نے فیصلہ کیا کہ شام کو جب پاپاآفس سے واپس آئیں گے تو اس بارے میں ان سے بات کریں گے۔

شام کو وہ دفتر سے گھر آئے تو ان کے ساتھ ایک مہمان بھی تھا۔بڑی بہن ہونے کے ناطے مہمانداری عرشیہ کی ذمہ داری تھی۔ جب وہ انہیں چائے دینے گئی تو پاپانے اس کے ساتھ عرشیہ کو بھی بلا لیا۔ انہوں نے بچوں کو مہمان سے متعارف کرانے کے بعد مہمان کا تعارف کرایا:
”بیٹا!یہ ڈاکٹر عارف ہیں، میرے بچپن کے دوست اورآج کے مشہور نیورولوجسٹ!“
”نیورولوجسٹ …؟پاپاوہ کیا ہوتا ہے۔“عرشیہ نے پوچھا۔
”دماغی اور اعصابی بیماریوں کے ڈاکٹر کو’ نیورولوجسٹ‘ کہتے ہیں۔“ انہوں نے وضاحت کی ۔”پاپا!میں نے آپ سے ایک بات پوچھنا تھی۔“ عرشیہ کو اچانک یاد آیا۔
”پوچھو بیٹا!“ پاپا نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
” رات کو رانیہ نیند میں چل رہی تھی اور کچھ بول بھی رہی تھی۔ اسے کوئی خطرناک بیماری تو نہیں، یا پھرکہیں ایسا تو نہیں کہ اس کے اندر کوئی روح حلول کر گئی ہو…؟“ عرشیہ نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا۔
”بیٹا !جب ڈاکٹر انکل گھر میں موجود ہیں تو کیوں نہ یہ سوال انہیں سے پوچھا جائے۔“ پاپا نے اپنے دوست کی طرف اشارہ کیا: ”کیوں ڈاکٹر صاحب!“
”کیوں نہیں۔“ انہوں نے عرشیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:

” ہر 100 میں سے تقریباً15 بچوں کو نیند میں چلنے کی عادت ہوتی ہے۔ اسے خطرناک بیماری نہیں کہا جاتا لیکن اگرنیند میں چلنے والا شخص کسی چیز سے ٹکرا جائے‘ گڑھے میں گر جائے یا کئی منزلہ عمارت سے نیچے کودجائے تو پھر معاملے کو ’خطرناک‘ کہا جا سکتا ہے۔“ انہوں نے تفصیل سے جواب دیا۔
”اُف! یہ تو ہم نے سوچا ہی نہیں۔ ہم رانیہ کوان خطرات سے کیسے بچا سکتے ہیں؟“
”ایک تو یہ ہے کہ سوتے وقت مین گیٹ کو تالا لگا دیا کریں تاکہ وہ باہر نہ نکل سکے۔ سیڑھیوں پرحفاظتی دروازہ لگانا چاہئے تاکہ وہ نیند میں چھت پر نہ جا سکے۔ راستے میں کوئی ایسا سامان نہ رکھیں جس سے ٹکرا کروہ زخمی ہوجائے۔ ایک اور آسان اور سادہ سا حل یہ ہے کہ اپنی امی سے کہیں کہ اسے دیوار کی طرف سلایاکریں۔ اس طرح اگر وہ رات کو اٹھ بھی جائے تو اسے اپنی امی کے اوپر سے گزر کر آنا پڑے گاجس سے وہ جاگ جائیں گی۔“
لیکن عرشیہ کا تجسس ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ وہ بولی:

”ڈاکٹر انکل! ایک دفعہ میں نے ایک شخص کی کہانی پڑھی تھی جو رات کو سوتے میں اٹھتا‘ دریا کے کنارے چلا جاتا‘ وہاں چاندنی رات میں نہا کر واپس آتااور بستر پر سو جاتا۔صبح اسے معلوم بھی نہ ہوتا کہ اس نے ایسا کیا ہے ۔ کیا ایسا ممکن ہے۔“
”یہ مرض مختلف لوگوں میں مختلف سطح پر ہوتا ہے۔ کچھ بچے سوتے میں اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں جبکہ کچھ اپنے بستر سے اٹھ جاتے ہیں۔ وہ فریج سے اپنے پسند کی چیزیں نکال کر کھالیتے ہیںاور صبح انہیں معلوم بھی نہیں ہوتا کہ انہوں نے رات کو کیا کیا تھا۔ اگلے دن ان بیچاروں کو جھوٹ بولنے پر سزا بھی ملتی ہے لیکن حقیقت میں ان کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ اسی طرح کچھ بچے گھر کا مین گیٹ کھول کر باہر بھی نکل جاتے ہیں۔“ ڈاکٹر انکل نے جواب دیا۔
”انکل! اگر کوئی بندہ چل رہا ہو تو کیسے معلوم ہو گا کہ وہ نیند میں چل رہا ہے یاجاگتے میں؟“ اب کی بار رانیہ نے پوچھا جس کے انداز میں تجسس کے ساتھ خوف بھی جھلک رہا تھا۔
”اسے دیکھتے ہی آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ وہ عام آدمی کی طرح نہیں چل رہا۔ اس کا چہرہ تاثرات سے عاری ہوتا ہے اورآنکھیں خلا میں گھور رہی ہوتی ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے وہ سب کچھ دیکھ رہا ہے لیکن وہ جاگتے فرد کی طرح دیکھ نہیںرہا ہوتا۔ وہ نہ تو کسی کی بات سنتا ہے اور نہ کسی سرگرمی کا نوٹس لیتا ہے۔ اسے جگانا مشکل ہوتا ہے اور اگر وہ جاگ جائے تو حیرت سے ادھر ادھر دیکھنے لگتا ہے اور اگلے دن سب کچھ بھول چکا ہوتا ہے۔“ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا۔
”بعض لوگ کہتے ہیں کہ جو شخص نیند میں چل رہا ہو‘ اسے جگانا خطرناک ہوتا ہے۔ کیا یہ درست ہے؟“ عرشیہ نے پوچھا۔

”یہ خیال درست نہیں ‘ تاہم اسے جھنجوڑ کر جگایا جائے تو وہ ڈر جاتا ہے۔ اگر آپ کسی بچے یا بڑے کو سوتے میں چلتا دیکھیں تو اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اس کا ہاتھ پکڑ کر بستر پر لٹا دےں۔ جب وہ لیٹ جائے تو اس کی آنکھیں بند کر لیں۔ بعض والدین ایسے بچوں کوکمرے میں بند کر کے تالا لگادیتے ہیں۔ایسا کبھی نہیں کرنا چاہئے ‘ ورنہ بعض اوقات بچے کو سخت نقصان پہنچ سکتا ہے۔“ ڈاکٹر صاحب نے وضاحت کی۔
”یہ بتائیے کہ آخر لوگ نیند میں چلتے کیوںہیں اور اس کا علاج کیا ہے؟“ بچوں کے پاپانے بات کو نیا رخ دیتے ہوئے کہا۔
”اس کی وجوہات مختلف لوگوں میں مختلف ہوتی ہیں۔ بڑی وجہ تو ذہنی دباﺅ قرار دی جاتی ہے لیکن یہ بالغ افراد میں زیادہ ہوتی ہے۔ چھوٹے بچوں میں اس کی وجوہات نیند کا پورا نہ ہونا‘ جسم کا بہت زیادہ تھکا ہوا ہونااور تیز بخار شامل ہیں۔ بعض اوقات کسی دوا کے اثر کی وجہ سے بھی ایساہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ مرض موروثی بھی ہے یعنی نسل در نسل بھی چلتا ہے۔“ انہوں نے جواب دیا۔

”اچھا!“ پاپا نے حیرت سے ہونٹ سکیڑے ۔
” ہماری نیند رات بھر ایک جیسی نہیں رہتی۔ یہ کبھی ہلکی اور کبھی گہری ہوتی رہتی ہے۔ نیند میں چلنے کا عمل سونے کے ابتدائی چند گھنٹوں کے دوران اورگہری نیند میں ہوتا ہے۔“
”کیا کوئی ایسا طریقہ ہے جس پر عمل کر کے ہم اس سے چھٹکارا پا سکیں؟“ رانیہ نے ایک دفعہ پھرہمت کرکے پوچھا۔
” کچھ آزمودہ نسخے ہیں جن پر عمل کر کے اس پر قابوپایا جا سکتا ہے۔“
”وہ کیا؟“ رانیہ نے پوچھا۔
”سونے کے لئے جب بستر پر جائیں توخود کو پرسکون رکھنے کی کوشش کریں۔ دن بھر کی پریشانیوں اور مسائل کو ایک طرف رکھ دیں اور خوشگوار باتوں کو ذہن میں لائیں۔ اسی طرح خوبصورت مناظر بھی یاد کئے جا سکتے ہیں۔“

”میں دیر سے سوتی ہوں۔ کیا اس کی ایک وجہ یہ تو نہیں؟“ رانیہ نے پوچھا۔
”رات کو کھانا ذرا جلدی کھا لینا چاہئے تاکہ سونے تک وہ کچھ ہضم ہو جائے۔سونے کے لئے ایک وقت مقرر کریں اور پھر سختی سے اس پر عملدرآمد کریں۔اگرسونے اور جاگنے کامعمول بنانے میں کامیابی حاصل ہو جائے تو اس مرض سے چھٹکاراپانے میں بہت مدد ملتی ہے ۔“ انہوں نے جواب دیا۔
”میں انشاءاللہ آئندہ خاص وقت پر ہی سویااور جاگا کروں گی۔“ رانیہ نے کہا۔
”جب بستر پر سونے کے لئے لیٹیں تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے اردگرد شور شرابا نہ ہو۔ ٹی وی وغیرہ یا تو بند ہوں یا پھر ان کی آواز بہت ہی مدھم کردیں۔اس کے علاوہ بستر پر جانے سے قبل واش روم جانے کی عادت بنا لیں‘ اس لئے کہ پیشاب کی حاجت یا بھرے ہوئے مثانے کا نیند میں چلنے سے گہرا تعلق ہے۔“
” ٹھیک ہے انکل، میں ایسا ہی کروں گی ۔“ اس نے وعدہ کیا۔
”اگرنیند میں چلنے کی بیماری سے آپ کا گھر‘ سکول اور عام زندگی متاثر نہیں ہورہی تو اس وجہ سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔اگر ان نسخوں پر عمل کے باوجود یہ عادت نہ چھوٹے تو مجھ سے کلینک میں مل لیں‘ اس کا کوئی اور حل ڈھونڈیں گے۔“

ڈاکٹر نے کہا اور پھر گہری سانس لیتے ہوئے مسکراتے ہوئے بولے:
” اتنی معلومات دینے کے بعد ایک عدد مزید چائے تو بنتی ہے ناں باس؟“ انہوں نے مسکراتے ہوئے اپنے دوست، یعنی رانیہ کے پاپا کی طرف دیکھا۔
”انکل، میں ابھی آپ کے لئے مزیدار سی چائے بنا کر لاتی ہوں۔“ عرشیہ خوشی خوشی اٹھی اور کچن کی طرف لپکی۔ اس کی بہن رانیہ بھی اس کے پیچھے کمرے سے باہر نکل گئی۔

Vinkmag ad

Read Previous

آپ کے صفحات

Read Next

سلفا ڈرگزکی دریافت

Most Popular