Vinkmag ad

یادوں کی دنیا

ہم انسانوں کا المیہ ہے کہ دوہی کیفیات میں سانس لیتے ہیں۔ ماضی کی یادیں ہمارے گرد گھیرا ڈالے رکھتی ہیں یا پھر ہم مستقبل کے سہانے خوابوں میں کھوئے رہتے ہیں۔ یوں ماضی اور مستقبل کے درمیان ’لمحہ موجود‘ کہیں غائب ساہوجاتا ہے۔گزرا ہوا وقت اگر خوبصورت ہو تو اس کی یادیں موڈ کواچھا اور فرد کو تازہ دم کر دیتی ہیں اور اگر وہ ناخوشگوار ہو تو تھوڑی دیر کے لئے تلخی بھی تازہ ہوجاتی ہے ۔صحت اور زندگی کو مثبت اور منفی‘ دونوں طور پر متاثر کرنے والی یادوں پر صباعمران کی ایک دلچسپ تحریر
24465
جب ہم چھوٹے تھے تو اکثر اپنی دادی اماںکے پاس بڑے شوق سے بیٹھا کرتے تھے‘ اس لئے کہ ان کی باتیں بڑے مزے کی ہوتی تھیں۔ تقسیم ہند کے وقت وہ امرتسر (مشرقی پنجاب) سے ہجرت کرکے پاکستان آئی تھیں۔ اگرچہ وہ جسمانی طور پر پاکستان آ گئیں لیکن امرتسر کی یادوں سے ایک پل کے لئے بھی باہر نہیں نکل سکیں۔ وہ اٹھتے بیٹھتے وہاں کا کوئی نہ کوئی قصہ شروع کر دیتیں اور بڑے شوق سے اپنے گھر کا نقشہ کھینچتیں اور اس کی ایک ایک بات تفصیل سے بتاتیں۔ اُن کی گفتگو کا انداز کچھ یوں ہوتا گویا ہم بھی ان کے ساتھ اُسی گھر میں رہتے آئے ہیں اورہم نے وہیں باورچی خانے میں ان کے ساتھ بیٹھ کر ساگ‘ مکئی کی روٹی اور دیسی مرغا کھایا ہوا ہے۔مرغے کو وہ خاص طور پر یاد کرتیں:
”کیا اصل دیسی مرغ بنتا تھا ہمارے گھر میں۔اس کی ہڈی کو چباتے جاﺅ‘ چباتے جاﺅ،وہ ٹوٹنے کا نام تک نہ لیتی۔ آج کل کے برائلر کو دیکھو، ابھی ہڈی دانت کے نیچے آئی نہیں کہ چُورچُور پہلے ہوگئی۔ “
بچپن میں ہم سمجھتے تھے کہ صرف دادی ہی ماضی پرست ہیں مگر جب بڑے ہوئے تو پتہ چلا کہ اپنے ماضی کو یاد کرنا ایک نارمل انسانی رویہ ہے اورہم اکثر اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ گزرے دنوں کی باتیں کررہے ہوتے ہیں ۔بعض اوقات کوئی خاص خوشبو‘ لفظ ‘ جملہ یا کسی کی کوئی حرکت ہمیں اچانک کوئی پرانی بات یاد دلا دیتی ہے اورہم بے ساختہ اُس سے جڑا کوئی واقعہ یا بات تمام تر جزئیات کے ساتھ یاد کرنے لگتے ہیں۔اسی طرح بچوں کی کوئی شرارت یا اُن کے سکول کا کوئی قصہ سنتے ہوئے ہم اپنے سکول کے زمانے میں پہنچ جاتے ہیں۔ یادوں کے اس سفر کو نفسیات کی زبان میں ناسٹیلجیا (nostalgia) یا ”مرض کی حد تک گھر کی یاد“ کہاجاتا ہے۔
”ناسٹیلجیا“ انگریزی زبان کا لفظ ہے جو یونانی زبان کے دو الفاظ نوسٹوس) (nostos یعنی ”گھر کو واپسی“ اور الگوس (algos) یعنی ”درد بھری خواہش“ سے مل کر بنا ہے۔ طبی اصطلاح کے طور پر اس لفظ کا سب سے پہلے استعمال میڈیسن کے ایک سوئس طالب علم جوناس(Jonas) نے کیااورپھر یہ آہستہ آہستہ روزمرہ بول چال کا حصہ بن گیا۔اب اس سے مراد ”ماضی سے جذباتی وابستگی“ لی جاتی ہے جو مرض کی حد تک شدید ہو جائے۔ برسبیل تذکرہ یہ بتاتی چلوں کہ اردو کے مایہ ناز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے ایک جگہ ”ناسٹیلجیا“ کا ترجمہ ازراہ تفنن ”یادش بخیریا“کیا ہے۔ ڈی ایچ کیو
فیصل آباد کی ماہرنفسیات ڈاکٹر عاصمہ ارشد باجوہ کہتی ہیں:
”ہم انسانوں کا المیہ ہے کہ دوہی کیفیات میں سانس لیتے ہیں۔ ماضی کی یادیں ہمارے گرد گھیرا ڈالے رکھتی ہیں یا پھر ہم مستقبل کے سہانے خوابوں میں کھوئے رہتے ہیں۔ یوں ماضی اور مستقبل کے درمیان ’لمحہ موجود‘ کہیں غائب ساہوجاتا ہے۔“
یہ حقیقت ہے کہ ہم لوگ جوانی میں ” میرے بچپن کے دن“ اور بڑھاپے میں ”کبھی ہم بھی خوبصورت تھے “ کے ناسٹیلجیا کا شکار ہوتے ہیں۔ مرزاغالب کے الفاظ میں :
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز وہ ماہ و سال کہاں
ایک اندازے کے مطابق99فی صدبزرگ ماضی کی یادوں میں ہی کھوئے رہتے ہیں۔ اعظم مجید میڈیکل سنٹرفیصل آباد کی سائیکوتھیراپسٹ ڈاکٹر حفصہ اختر کہتی ہیں:
”ماضی کی ناخوشگوار یادیں تشویش ‘ اضطراب‘ یاسیت اور ذہنی دباﺅ کاباعث بن سکتی ہیں۔یہ انسان میں مایوسی پیدا کرکے اُسے ناکامی کی طرف دھکیل سکتی ہیں۔“
ان کے بقول منفی یادوں کا ناسٹیلجیا انسان کے اندر سے ساری مثبت توانائی چوس لیتاہے۔ اور اگر وہ انہیں خود پر حاوی کرلے تو ماضی کی طرح اُسے اپنامستقبل بھی اندھیروں اور مایوسیوں میں گھرا نظر آتا ہے۔ مثبت ناسٹیلجیا کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہناہے:
”ماضی کی خوشگوار یادیں انسان کے رویے اور موڈ کو تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یہ انسان کے دماغ کی کیمسٹری بدل سکتی ہیں اور ذہنی تناﺅ دور کرنے والے ہارمونز پیدا کرکے انسان میں مثبت احساسات کو فروغ دیتی ہیں۔“
مثبت ناسٹیلجیا کی ایک مثال فیصل آباد کے فاخر نواز ہیں جو امیر ماں باپ کی اولاد تھے لہٰذا ان کا بچپن عیش وعشرت میں گزرا۔ جوانی کے آغاز پر انہوں نے خوب سیروتفریح کی اوردنیابھر میں گھومے پھرے۔ اچانک ان کے والد کا انتقال ہوگیا جس کے بعد اُن کے بزنس پارٹنر نے سارے کاروبار پر قبضہ کرلیا۔ ان کی والدہ سمجھدار خاتون تھیں لہٰذا ان کے پاس جوبچا‘ اس کی مدد سے وہ بچوں کا مستقبل محفوظ کرنے کی کوششوںمیں لگ گئیں۔ انہوں نے گھر میں موجود تین گاڑیوں میں سے دو بیچ دیں‘ اپنا بنگلہ کرائے پر دیا اور خود ایک فلیٹ میں شفٹ ہوگئیں تاکہ بچوں کی فیس اوردیگر اخراجات کا بندوبست کر سکیں۔
فاخر نواز نے تعلیم مکمل کرنے کے بعدایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا اور یہ بات ذہن میں بٹھا لی کہ انہیں ماضی کی طرح اپنے مستقبل کو بھی شاندار بنانا ہے۔ وہ اکثر تنہائی میں آنکھیں بند کرکے بیٹھ جاتے اور گزرے وقتوں کی یادوں میں کھو جاتے۔ ان سے وہ تازگی اورنیاولولہ حاصل کرتے جو اُنہیں کاروبار کو مزید آگے بڑھانے پر اُکساتا۔ چند ہی سالوں میں وہ اس قابل ہوگئے کہ اپنے بنگلے میں رہنے کے اخراجات اُٹھاسکیں۔فاخر کہتے ہیں کہ اگر شاندار ماضی کا ناسٹیلجیا نہ ہوتا تو وہ دوبارہ ایسی کامیابی کبھی حاصل نہ کر پاتے۔
بعض اوقات ناسٹلجیاکے شکار لوگ حال کی حقیقتوں کو قبول نہیں کرپاتے۔ ڈاکٹر عاصمہ کہتی ہیں کہ اگر ایسی کیفیت پیدا ہوجائے جس میں فرد اپنے حال سے بالکل ہی ناطہ توڑلے تو پھر اسے ایک بیماری کے طور پر لیاجاتا ہے۔ ایسی کیفیت کو ناسٹیلجیا کی بجائے مریضانہ حد تک کے وساوس یا مغالطے(delusion)کہتے ہیں۔یہ ایک ایسا خیال یایقین ہوتا ہے جسے دلائل سے ختم کرنا ممکن نہیں ہوتا۔اس کی مثال ایک ایسے شخص کی ہے جو کبھی نواب یا رئیس رہا ہو لیکن بعد میں غربت میں مبتلا ہو گیاہو۔ اب وہ حال میں بھی خود کو نواب ہی خیال کرتا ہے اور اس کی باتوں سے یوں لگتا ہے جیسے اُسے پتہ ہی نہ ہو کہ اُس کی شان وشوکت ختم ہوچکی ہے۔ اسی طرح جب ماضی کی کوئی تلخ یاد یاخوف انسان پر مستقلاً حاوی رہے تو وہ اُس کی سوچ کا ناسُور بن جاتا ہے اور وہ نارمل حالات میں بھی خوف میں مبتلا اور اداسی اور یاسیت کا شکار رہتا ہے۔
جن لوگوں کو زندگی میں اپنے آبائی شہروں‘ ملکوں اور گھروں سے بچھڑنے کا تجربہ ہوا ہو‘ ان کے لئے ناسٹیلجیا کی گرفت سے بچ نکلنا مشکل ہوتا ہے۔ اُن کا دل آبائی جگہوں کے لئے ایسے دھڑکتا ہے جیسے ہماری دادی اماں کا دل امرتسر کی حویلی اور گلیوں کے لئے دھڑکتا ہے۔
_______________
گھر کی یاد اور ادب
    ادب انسانی کیفیات کے اظہار کا نام ہے۔ ایسے میں ہجرت‘ افتاد‘ نارساخواب اور تشنہ خواہشیں وہ کیفیات ہیں جن سے ادب پھوٹتا اور تخلیق ہوتاہے۔ڈاکٹر عاصمہ کہتی ہیں:
    ” بڑے بڑے ادیب اور شاعر ناسٹیلجیا کا شکار دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ ایک قلمکار کے قلم کی روشنائی اورایک مصور کے برش کا سب سے خوبصورت رنگ ہے جو اُس کی تخلیق کو سجاتا ہے۔“
     علامہ اقبال نے مسلمانوں کے شاندارماضی کے ناسٹیلجیا سے جڑے کیا کیا اثر انگیز اشعار نہ کہے۔ اسی طرح مرزا غالب‘ اے حمید اور انتظارحسین کی تخلیقات میں ناسٹیلجیا کا عنصر بہت غالب نظرآتا ہے۔یوں سمجھئے کہ اُن کی وجہ شہرت ہی ان کے ناسٹیلجیا سے پھوٹتاادب بنا۔اس موضوع پر ایک خوبصورت نظم ملاحظہ کیجئے:
    شام‘ خزاں اور زرد پتے
    میں ‘قلم اور ناسٹیلجیا
    انتظام تو سب مکمل ہے
    چلو کچھ لفظ بُننے چلیں
    وہ ماضی کی ہنسی
    وہ ماضی کے درد
 چلو امرکرنے چلیں
  ناسٹیلجیا کی روشنائی سے
  چلو صفحے بھرنے چلیں

Vinkmag ad

Read Previous

ننھے بچے‘ تنہا نہ چھوڑیں

Read Next

ذہنی دباﺅ‘ کیسے نمٹیں

Most Popular