Vinkmag ad

متعدی امراض اور قدیم ویکسین

    متعدی بیماریاں زمانہ قدیم سے انسانوں کے لئے تکلیف ‘ پریشانی اور موت کا سبب بنتی چلی آ رہی ہیں۔یہ بالعموم ایک خاص علاقے تک محدود رہتی ہےں لیکن کبھی کبھار وباءکی صورت اختیار کرکے دُور دراز علاقوں اور ملکوں تک بھی پھیل جاتی ہیں ۔چیچک اورطاعون کی وباﺅں نے تاریخ میں متعدد باراوربڑے پیمانے پر لوگوں کو اپنا نشانہ بنایا۔طاعون کواس کی ہلاکت خیزی کے سبب کالی موت (black death) کا نام دیا گیا۔ان کے علاوہ پولیو‘انفلوئنزا اور خسرے نے بھی وباﺅں کی شکل میں لوگوں کی بڑی تعداد کو متاثر کیا۔
زمانہ جاہلیت میں جب توہم پرستی عروج پر تھی تو لوگ سمجھتے تھے کہ وبائیں دیوتاﺅں کی ناراضگی کی وجہ سے پھیلتی ہیں لہٰذا انہیں راضی کرنے کے لئے انسانی جانوں سمیت ہر قسم کی قربانیاں پیش کی جاتیں۔اس کے ساتھ ساتھ بعض افراد امراض کے دنیاوی اسباب تلاش کرنے کی بھی کوشش کیا کرتے تھے۔ مثال کے طور پرکچھ لوگوں نے اندازہ لگایا کہ ملیریاگندی ہواسے لگتا ہے۔اسی طرح ایک اورخیال یہ تھا کہ چودھویں کی رات کو جب پورا چاند آسمان پر چمکتا ہے تو بعض لوگ پاگل پن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ان کے لئے لیونیٹِک(lunatic)کی اصطلاح استعمال کی گئی۔اس طرح کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
بیماریوں سے بچاﺅ میں ویکسین کاکردار بہت اہم ہے۔اس کی تاریخ کو دو ادوار میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ پہلا دور وہ ہے جب خوردبین ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھی اوردنیا جراثیم کے تصور سے ناآشنا تھی۔ اس دور میں امراض کے بارے میں انسانی علم مشاہدات‘ ذاتی تجربات اور قیاس آرائیوں پر مبنی تھا۔انہی کی بنیاد پر متعدی امراض سے تحفظ کے لئے کچھ طریقے بھی رائج ہوگئے جن میں سے کچھ خطرناک تھے لیکن کسی حد تک کامیاب بھی ثابت ہوئے۔مثال کے طور پر ایک زمانے میں چیچک (Small Pox) وبالِ جان بنا ہوا تھا۔تقریباً 1000 سال قبل مسیح میں ہندوستانی اطباءاس کے علاج کے لئے ایک طریقہ کار استعمال کرتے تھے جسے ویکسی نیشن (vaccination)کہاجاسکتا ہے۔اس کے تقریباً دوہزارسال بعد ایسا ہی ایک طریقہ چین میںبھی رائج ہوگیا ۔
ویکسی نیشن کے ابتدائی طریقے میں چیچک کے مریض کے دانوں یاپھوڑوں‘ چھالوں کی کھرنڈ (scabs)‘ چھلکوں اور کبھی کبھی ان کے پانی یا پیپ سے بھی مدد لی جاتی تھی۔چھلکوں اورکھرنڈ کو پیس کر پاﺅڈر یا لئی تیار کر لی جاتی جسے ایک صحت مندفردکے جسم میں ٹیکے کی صورت میں داخل کردیاجاتایا اسے سنگھادیا جاتا تاکہ مواد کا کچھ حصہ سانس کے ذریعے اس کے پھیپھڑوں میں داخل ہو جائے۔اس کے بعد فرد کوچیچک سے ملتا جلتا مرض تو ہوجاتالیکن وہ چیچک کی وباءکے دوران اس موذی مرض سے محفوظ رہتا۔ ان ’ٹیکوں‘ کی وجہ سے ایک سے تین فی صد لوگ فوت بھی ہوجاتے لیکن پھر بھی یہ غنیمت تھا‘ اس لئے کہ وباءکے دوران 20 سے 40فی صد افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہوتا تھا۔
ویکسین کا یہ طریقہ آہستہ آہستہ دیگر ملکوں میں بھی پھیلنے لگااور18ویں صدی میں ترکی میں بھی استعمال ہورہاتھا۔ اس کی ترویج میں ترکی میں برطانوی سفیر کی بیوی لیڈی میری وارٹلی مونٹیگو(Lady Mary Wortley Montagu)کا کردار بھی بہت اہم ہے ۔ وہ انگریزی زبان کی شاعرہ تھی جس نے 1717ءسے1719ءتک کا عرصہ اپنے شوہر کے ساتھ قسطنطنیہ(استنبول )میں گزارا تھا۔وہاں اس نے اس ٹیکے کا طریقہ استعمال سیکھا اور جب وطن واپس لوٹی تو اس نے نہ صرف اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا بلکہ اپنے بچوں کو بھی لگوایا جس کی وجہ سے وہ اس مہلک مرض سے محفوظ رہے۔اُسی کے مشورے پر برطانیہ کے بادشاہ چارلس اول نے اپنی نواسیوں کو بھی یہ ٹیکے لگوائے ۔ چونکہ ٹیکہ لگنے کے بعد فرد کو چیچک ہوجانے کا خدشہ ہوتا تھا لہٰذا اس وقت کے اطباءنے اس کی مخالفت کی۔بعض حلقوں کے مطابق اس مخالفت کا ایک سبب یہ بھی تھاکہ لیڈی میری ایک مشرقی ملک کا طریقہ علاج استعمال کررہی تھی ۔1726ءمیں اس خاتون کوچیچک ہوگئی جو جان لیوا تو ثابت نہ ہوئی لیکن اس کے چہرے کی خوبصورتی کو متاثرکر گئی۔
اُنہی دنوں ڈاکٹر ایڈورڈ جینر (Edward Jenner)نے اپنے مشاہدات پر مبنی ایک رپورٹ شائع کی جس میں انہوں نے کچھ گوالنوں کا تذکرہ کیا جنہوںنے ایسی گایوں کا دودھ دوہا تھاجن کی کھال‘ خصوصاً تھنوں پرکاﺅپاکس(Cowpox)کی وجہ سے پھوڑے پھنسیاں اورچھالے بنے ہوئے تھے۔اس سے اُن گوالنوں کے ہاتھوں پر بھی چھالے نکل آئے‘ تاہم وہ چیچک کی وباءکے دوران اس موذی بیماری سے محفوظ رہیں۔اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ مذکورہ بالا ٹیکوں میں چیچک کی بجائے کاﺅ پاکس سے متاثرہ مواد کااستعمال نسبتاًزیادہ محفوظ ہے۔ اس طرح ویکسین کے ٹیکوں کا طریقہ رائج ہوگیا۔اس کامیابی کے باوجود چیچک نے صرف20ویں صدی میں40سے50کروڑ لوگوں کی جان لی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چیچک کے ٹیکوں میں بتدریج ترقی ہوتی رہی لیکن اس کے باوجودکئی تاریخی شخصیات اس مرض کا شکار ہوئیں جن میں تین امریکی صدور اینڈیورجیکسن(Andrew Jackson)‘ جارج واشنگٹن(George Washington) اور ابراہم لنکن (Abraham Lincoln)بھی شامل تھے ۔روسی صدرجوزف سٹالن کے علاوہ فرعون مصر(Ramses v)کو بھی چیچک ہوئی جس نے ان کے جسموں پر اپنے نشانات بھی چھوڑے۔ مصر کی کئی قدیم ممیوں میں بھی اس مرض کی علامات پائی گئی ہیں۔اس مہلک مرض سے نجات ویکسین کے دوسرے دور میں ممکن ہوئی جس پر انشاءاللہ اگلے شمارے میں روشنی ڈالی جائے گی ۔

Vinkmag ad

Read Previous

فالج کے مریضوں میں کھانے پینے اور نگلنے سے متعلق احتیاطیں

Read Next

آم‘ مگربہت ہی خاص ۔۔۔پھلوں کا بادشاہ

Most Popular