Vinkmag ad

دماغی اور اعصابی امراض۔۔۔چھوٹا فالج‘ ایک الارم

دماغ ‘انسانی جسم کا ”بگ باس“ ہے جس کے احکامات پرپورا جسم عمل کرتا ہے ۔اگر کسی بیماری یا حادثے کی وجہ سے اس کے کسی حصے کو نقصان پہنچ جائے تو متعلقہ فرد کو مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔ دماغی اور اعصابی امراض اور مسائل پر مفید معلومات پڑھئے ‘جنرل ہسپتال لاہور میں شعبہ نیورولوجی کے سابق سربراہ ڈاکٹر نذیر احمد کے ساتھ صباحت نسیم کے اس انٹرویو میں۔ اگلے ماہ ماہرِامراض معدہ کا انٹرویو شائع کیا جائے گا۔ اگر آپ اس شعبے سے متعلق کوئی سوال پوچھنا چاہیں تو ہمیں ارسال کریں
٭دماغی اور اعصابی امراض کو ”نیورولوجی“ کیوں کہا جاتا ہے اور اس شعبہ میں کن کن بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے؟
٭٭نیورو لوجی کا بنیادی تعلق ہمارے اعصابی نظام کے ساتھ ہے۔ اس میں دماغ اور حرام مغز کے علاوہ ان ریشوں کا بنڈل بھی شامل ہے جو عصبی مراکز اور جسمانی اعضاءکے درمیان پیغامات کی ترسیل کرتا ہے۔ اس شعبے میں ان تمام مسائل کا علاج کیا جاتا ہے جن کا بلاواسطہ یابالواسطہ تعلق ان حصوں کے ساتھ ہوتا ہے جن کا اوپر ذکرکیا گیا ہے۔اس میں دماغ میں ٹیومر،دماغ میں انفکیشن ہونا،برین ہیمبرج(دماغ میں خون جاری ہونا) ،دماغ میں پانی کا جمع ہونا،بچوں کی کمر پر پیدائشی طور پر پھوڑا ہونا،کمر ،ٹانگ اور بازو کا درد،فالج ،حادثات کے دوران دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے زخم کا علاج وغیرہ شامل ہیں۔
٭نیورالوجسٹ اور سائیکاٹرسٹ‘ دونوں ہی دماغی امراض کا علاج کرتے ہیں۔ایسے میںان کا کام ایک دوسرے سے مختلف کیسے ہے؟
٭٭کمپیوٹر کی زبان میں اس کی مثال ہارڈویر اور سافٹ ویئر ہیں۔ انسانی دماغ(brain) ایک عضو یعنی ہارڈوئیر ہے جبکہ ذہن (mind) اس کا سافٹ وئیر یعنی کام ہے۔ جس طرح کمپیوٹر کے دونوں مختلف شعبہ جات کے لئے الگ الگ انجینئرز کی ضرورت ہوتی ہے‘ اسی طرح دماغی مسائل کو نیورولوجسٹ جبکہ نفسیاتی یاذہنی امراض کا علاج سائیکاٹرسٹ کرتا ہے۔
٭یہی مسئلہ آرتھو پیڈک سرجن (ماہر امراض ہڈی و جوڑ) اور نیورولوجسٹ کے ساتھ بھی ہے۔ کمر یا ٹانگ میں درد کے مریضوں کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ کب کس کے پاس جائیں؟
٭٭وہ تمام مسائل جن کا تعلق صرف ہڈی کے ساتھ ہے اور اس میں رگوں کا کوئی عمل دخل نہیں‘ انہیں ماہر امراض ہڈی و جوڑ دیکھتا ہے۔ اس کے برعکس کمر ، گردن یا دوسرے حصوں میںرگوں کے دبنے کی وجہ سے درد ہو‘ انہیں ماہر اعصابی امراض (نیورولوجسٹ )دیکھتا ہے۔
٭حادثات کے نتیجے میں بعض اوقات دماغ کا کوئی حصہ زخمی یاختم ہوجاتا ہے۔کیا اسے دوبارہ بنایا جا سکتا ہے؟
٭٭دماغ قدرت کی بنائی ہوئی وہ چیز ہے جس کے بعض حصے اگر کسی حادثے میں ختم ہو جائیں تو اسے بحال نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے میں دماغ کا وہ حصہ جن افعال کو کنٹرول کر رہا ہوتا ہے‘ مریض ان سے تاحیات محروم ہوجاتا ہے۔اس کے برعکس وہ حصے جو تھوڑے زخمی ہوئے ہوں‘ انہیں ادویات یا آپریشن کی مدد سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔
٭دماغ کے اندرونی حصوں میں چوٹ کی علامات کیا ہوتی ہیں؟
٭٭دماغی چوٹ کی علامات میں چند لمحوں یا منٹوں کے لئے بے ہوش ہوجانا‘ اگر ہوش میں ہو توپریشانی، بدحواسی یا سرچکرانے کی حالت میں ہونا،نیند آنے میں دشواری یا پرسکون نیند نہ آنا،سر میں درد رہنا،متلی یا الٹی ہونا،غنودگی یا تھکاوٹ کا شکار ہونا،معمول سے زیادہ سونا اور جسمانی توازن برقرار نہ رکھ پانا شامل ہےں۔
٭یہ بتائیے کہ انسانی جسم میں اعصاب کا کردار کیا ہے؟
٭٭ ان کا بنیادی کام دماغ اوردیگرجسمانی اعضاءکے درمیان رابطہ رکھنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسے جسم کا ابلاغی نظام (communication system)کہا جا سکتا ہے جس میں نیورانز بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
٭نیوران کیا ہوتے ہیں اور کہاں پائے جاتے ہیں؟
٭٭نیوران دماغ اور حرام مغز میں پائے جاتے ہیں اور انہی کے ذریعے پیغامات دماغ سے جسم کے دیگر حصوں تک اور ان سے دماغ تک پہنچائے جاتے ہیں۔ان خلیوں میںباہمی رابطے سے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور ہماری شخصیت بنتی ہے۔یہ خلیے انسانی جسم میں پیدائش سے لے کر موت تک موجود رہتے ہیں۔اگر ان میں سے کوئی خلیہ مکمل طور پر تباہ ہو جائے تو وہ دوبارہ نہیں بن سکتاتاہم اس کا کوئی چھوٹا حصہ زخمی ہوجائے تو وہ ٹھیک ہو سکتا ہے۔
٭فالج کیاہے اور اس کی کتنی اقسام ہیں؟
٭٭جب دماغ کے کسی حصے کو مناسب مقدار میں خون نہ پہنچے تو وہ حصہ کام کرنا بند کر دیتا ہے ۔اس سے جسم کا پورا‘ آدھا یا کچھ حصہ کام نہیں کرتا جسے ہم فالج کہتے ہیں۔ اس کی دو بڑی اقسام ہیں۔ پہلی قسم اسکیمک سٹروک (ischemic stroke) ہے جس کی وجہ خون کی نالی میں کسی رکاوٹ کا ہونا ہے۔ یہ رکاوٹ نالی میں خون جمنے یا جمے ہوئے خون کا چھوٹا سا لوتھڑا آجانے سے ہو سکتی ہے۔ نالی بند ہونے سے آکسیجن اور خون دماغ تک نہیں پہنچ پاتے جس سے اس کا وہ حصہ ناکارہ ہو جاتاہے۔ فالج کی دوسری قسم وہ ہے جو جریان خون hemorrhagic stroke)) کی وجہ سے ہوتی ہے۔ بلڈپریشر زیادہ ہونے کی وجہ سے دماغ کی رگ پھٹ جاتی ہے اورخون دماغ میں جمع ہو جاتا ہے۔ایک اور فالج کم دورانیے کابھی ہوتاہے جسے ٹی آئی اے (transient ischemic attack) یا فالج کا چھوٹا اٹیک کہتے ہیں۔ یہ فالج سے پہلے ایک طرح کی وارننگ یا اطلاع ہے۔ اس کا دورانیہ 15منٹ یا ایک سے دو گھنٹے ہو سکتا ہے جس کے بعد یہ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اسے نظر انداز کرنے کی بجائے اس کا علاج کروانا چاہئے کیونکہ اس کے بعد فالج ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے ۔اس فالج میںجسم کا کوئی حصہ اچانک کمزور یا سُن ہو جاتا ہے۔ اس صورت میں بعض اوقات دودو نظر آنے لگتے ہیں یا فرد کو بولنے میں دشواری ہوتی ہے۔
٭فالج کی علامات کیا ہیں ؟
٭٭فالج کا حملہ اچانک ہوتا ہے۔ مثلاً اچانک نظر چلی جاتی ہے‘ بہت زیادہ چکر آتے ہیں یا دو دو نظر آنے لگتے ہیں۔ سر میں شدید درد یامسلسل قے کے بعد جسم کی ایک سائیڈ کمزور ہو جاتی ہے۔اس کی علامات ظاہر ہونے پر ”ایف اے ایس ٹی“کا اصول اپنانا چاہئے۔ یعنی اگر چہرہ (face) ایک طرف سے ٹیڑھا ہو جائے‘ اگربازو (arm)کو کندھوں کے برابر لائیں تو وہ نیچے کو لٹک جائے‘بولنے (speech) میں مسئلہ ہو یا الفاظ سمجھ نہ آئیں توان علامات کو دیکھتے ہوئے وقت (time) ضائع کیے بغیر ہسپتال جانے کی ضرورت ہوتی ہے جہاں ایسے مریضوں کی دیکھ بھال سٹروک یونٹ میں کی جاتی ہے۔
٭سٹروک یونٹ کیا ہے اور یہاں مریض کو کون سی سہولیات دی جاتی ہیں؟
٭٭سٹروک یونٹ کا مقصد فالج کے مریضوںکو ایک ہی جگہ پر وہ تمام سہولیات فراہم کرنا ہے جو ان کے علاج کے لیے ضروری ہیں۔ اس یونٹ میں لائے جانے والے مریضوں کی صحت یابی کی شرح ان مریضوں سے زیادہ ہوتی ہے جو میڈیکل وارڈ میں داخل ہوتے ہیں۔ جن ہسپتالوں میں یہ یونٹ موجود نہ ہو‘ وہاں مریضوں کوٹیسٹوں اور ادویات وغیرہ کے لیے مختلف جگہوں پر جانا پڑتا ہے جس میں انہیں بہت دقت ہوتی ہے۔ اس یونٹ میں مریض کوایک ہی جگہ نیورولوجسٹ ،سٹروک سپیشلسٹ ، نرسیں،بحالیِ صحت (Rehabilitation) ٹیم اور فارمیسی کی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر انہیںسائیکالوجسٹ کی ضرورت ہو تو وہ بھی وہاں موجود ہوتے ہیں۔ یہ تمام لوگ ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔ ایک ہی جگہ تمام سہولیات ہونے سے مرض کی پیچیدگیاں کم ہوتی ہیں اور علاج پر وقت بھی کم لگتا ہے جس سے معذوری کوجلدکم کیا جاتا ہے۔ یہاں پر علاج کے ساتھ ان کی ورزش پربھی بھرپور توجہ دی جاتی ہے۔
٭لقوہ اور فالج میں کیا فرق ہے؟
٭ ٭لقوہ اور فالج میں بہت فرق ہے۔ چہرے کو خون سپلائی کرنے والی شریانوں میں سوزش یا ورم ہو جائے تو اس سے چہرہ متاثر ہوتا ہے جسے لقوہ کہتے ہیںجبکہ فالج کا تعلق دماغ سے ہے۔
٭فالج کے بعد ورزش کتنی ضروری ہے؟
٭٭ علاج کے ساتھ ورزش کرنا بہت ضروری ہے۔ فالج کی وجہ سے کمزوری وقت اورجسمانی ورزشوں کے ساتھ بہتر ہوتی ہے۔ ورزش سے آپ مزید پیچیدگیوں سے بچ جاتے ہیں۔ اگربازو کمزور ہو اور اس کی ورزش نہ کی جا رہی تو بازو کاوہ حصہ اکڑ جاتا ہے۔عموماً لوگوں کے ہاتھوں کی مٹھیاں بند ہو جاتی ہیں اور وہ صرف ورزش کرنے سے ہی کھلتی ہیں۔
٭فالج سے بچنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
٭٭اس سے بچنے کے لیے سات آسان اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔کم چکنائی والا اور صحت بخش کھانا کھائیں ،پھلوں اور سبزیوں کا استعمال زیادہ کریں، پروٹین سے بھرپور غذاکھائیں جس کے حصول کا اہم ذریعہ مرغی اور مچھلی ہیں۔ واک اور ورزش کو معمول بنائیں، نمک کا کم استعمال کریں اوربلڈ پریشر کو کنٹرول میںرکھیں۔ اس کے علاوہ سگریٹ نوشی سے پرہیز کریں اوراپنے سونے جاگنے کے معمول کو بہتربنانا بھی اس کے خطرات کو کم کرسکتا ہے۔
٭مرگی کسے کہتے ہیں؟
٭٭     مرگی دماغ کی اےک اےسی بیماری ہے جس مےں مرےض کو بار بار دورے پڑتے ہےں۔ اس مرض مےں دماغ کا اےک خاص حصہ بد نظمی کا شکار ہو کر تےزی سے کام کرنا شروع کر دےتا ہے جس کی وجہ سے مرےض کو دورہ پڑ جاتا ہے۔ یہ کےفےت دو سے تےن منٹ تک رہتی ہے۔ دماغ کے خلیوں کا کام باقاعدگی سے برقی اخراج ہے۔ اگر یہ اخراج بے قاعدہ ہوجائے تو مرگی کے دورے کا سبب بنتا ہے۔
٭فٹس (fits)کیا ہوتے ہیں؟ان کو ابھارنے والے عوامل کون سے ہیں؟
٭٭مرگی کے دوروں کو فٹس کہا جاتا ہے۔ ان کو ابھارنے والے عوامل میں بہت زیادہ تھکن‘نیند کی کمی‘ذہنی انتشاریا پریشانی‘تیز بخار(خواہ کسی وجہ سے ہو)‘خون میں گلوکوز کی کمی جوکھانے کے ناغے سے ہوسکتی ہے‘ بہت زیادہ جسمانی مشقت‘تیز اور غیرمتوازن جھلملاتی روشنی مثلاً بہت قریب سے ٹی وی دیکھنا اور کمپیوٹر یا گیم کا زیادہ دیر تک استعمال‘ مخصوص ایام‘ڈاکٹر کی بتائی ہوئی ہدایات کے مطابق دوااستعمال نہ کرنا شامل ہیں۔اس کا ایک اور پہلو غشی یا بے ہوشی(syncope) بھی ہے۔
٭یہ کیسی حالت ہے اور اس کے اسباب کیا ہیں؟
٭٭یہ ایک ایسی حالت ہے جس میں انسانی دماغ کو کچھ دیر کے لئے خون کی فراہمی نہیں ہوپاتی جس کی وجہ سے کچھ وقت کے لئے فرد میں غشی‘ بے ہوشی یا آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جانے کی شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔اسے غشی کا حملہ (syncopal attack) بھی کہتے ہیں۔دماغ کو خون کی فراہمی ہوتے ہی مریض خود ٹھیک ہوجاتا ہے۔یہ کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ کمزوری‘ ورزش نہ کرنے‘ زیادہ دیر تک ایک ہی حالت میں رہنے اور کاہلی کا شکار ہونے کی وجہ سے پیش آتی ہے۔
٭مضبوط اعصاب اور کمزور اعصاب سے کیا مراد ہے؟
٭٭ یہ کوئی میڈیکل کی اصطلاح نہیں ہے۔ عام زبان میں مضبوط اعصاب والے افراد ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو بہادر‘ نڈر اور ہر طوفان سے لڑنے والے ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس ڈرپوک لوگوں کو کمزور اعصاب والا کہا جاتا ہے ۔
٭ کون سی عادات اعصابی نظام کو کمزور کرتی ہیں؟
٭٭ہر وقت بیٹھے رہنا،ورزش نہ کرنا اور کمپیوٹر یا موبائل کے بے جا استعمال سے انسانی اعصاب کمزور ہوتے ہیں۔
٭موبائل کے زیادہ استعمال سے بچوں میں کیامسائل دیکھنے میں آرہے ہیں؟
٭٭وہ بچے جو ان تمام چیزوں کا زیادہ استعمال کرتے ہیں‘ ان کے دماغ کی نشوونما صحیح نہیں ہوپاتی۔ایسے بچے چڑچڑے ،تنہائی پسند اور مردم بیزار ہوتے ہیں۔ ایسے بچے ذہنی دباو¿ اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ والدین کو چاہئے کہ اس بات پر نظر رکھیں کہ ان کے بچے ان کا استعمال کم سے کم کریں۔
٭ذہنی دباو¿ سے محفوظ رہنے کے لئے ہمیںکیا کرنا چاہئے؟
٭٭اس کے لئے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ خود کو منفی سوچوں سے آزاد رکھیں‘ ورزش کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں اورلوگوں کو معاف کرنے کی عادت اپنائیں ۔ اپنے اخراجات کو اپنی جیب کے مطابق رکھیں‘ حسد اور لالچ سے پرہیز کریں اور خود اپنے لئے روزانہ کچھ وقت ضرور نکالیں۔ اس کے علاوہ اپنی زندگی کو سادہ اور فطرت کے قریب رکھنے کی کوشش کریں۔
٭گفتگو کو سمیٹتے ہوئے قارئین کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
٭٭قارئین سے یہی کہوں گا کہ خوش رہنا سیکھیں اورہر وقت شکوے شکایت کی عادت سے بچیں۔ دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کریں تاکہ آپ کی زندگی بھی پرسکون اور آسان رہے۔

Vinkmag ad

Read Previous

سبب اور مسبب الاسباب ۔۔۔دعا بھی ‘ دوا بھی

Read Next

خواتین کے لئے اہم ورزشیں

Most Popular