تالو‘ ہونٹ‘ جبڑا اور دانت۔۔۔منہ کی دنیا

دانت‘ جبڑااورتالو منہ سے متعلق اہم اعضاءہیں جن میں سے ہر ایک کی اپنی اہمیت‘ اپنا کام اور اپنے مسائل ہیں جن سے آگہی ہر فرد کے لئے ضروری ہے ۔ان سے متعلق دلچسپ اور مفید معلومات پڑھئے ریٹائرڈ سرجن ڈاکٹرعبدالرحمٰن صاحبزادہ کے تحریرکردہ اس مضمون میں
bigstockphoto_Beautiful_Smile_144167
صحافت کی دنیا میں ”خبر“ کی تعریف مختلف انداز سے کی جاتی ہے جن میں سے ایک کے مطابق خبر وہ ہے جو معمول سے ذرا ہٹ کر ہو۔اس کے لئے ایک مثال بھی دی جاتی ہے کہ اگرکتا انسان کو کاٹ لے تو یہ خبرنہیں ‘ البتہ انسان کسی کتے کو کاٹ لے تو یہ خبر ہے۔
اگرچہ بہت ہی کم ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کسی کو کاٹ لے لیکن یہ خارج از امکان بھی نہیں ۔ ریسلنگ میں ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جن میں ایک پہلوان دوسرے کا کان چبا ڈالتا ہے ۔ بعض اوقات لڑائی میں کچھ لوگ‘ خصوصاً خواتین جب کوئی چارہ نہیں پاتیں تو حریف کو اپنے دانتوں سے کاٹ لیتی ہیں۔کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص غصے میں دوسرے فرد کے منہ پر مُکہ ماردیتا ہے۔ ایسے میں اس کے ہاتھ کی پشت پر فریق مخالف کے دانت لگنے سے خراش یازخم آجاتا ہے جسے کسی درجے میں کاٹنا قراردیا جا سکتا ہے۔
اگر ہم اسے میڈیسن کے تناظر میں دیکھیں تو یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ انسانوں کے منہ میں موجود جراثیم کتوں کے منہ میں پائے جانے والے جراثیم سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اگرکتا کسی شخص کو کاٹ لے تو زخم کو صاف کرکے اسے ٹانکوں کی مدد سے سی دیا جاتا ہے۔اس کے برعکس اگر انسان کسی کو اپنے دانتوں سے کاٹ لے تو اس کے زخم کو سیا نہیں جاتا بلکہ کھلا رکھا جاتا ہے تاکہ انفیکشن نہ پھیلے اورپیپ وغیرہ اس سے باآسانی باہر نکل سکے۔ زخم کو کھلا چھوڑنے کی وجہ سے وہ قدرے تاخیر سے مندمل ہوتاہے اور جب وہ ٹھیک ہو جائے گا تو اپنے پیچھے نشان (scar) بھی چھوڑ جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ایسا کرنا ضروری ہے ‘ ورنہ انفیکشن پھیل سکتا ہے۔
خراٹے‘ طبی اور سماجی مسئلہ
بہت سے لوگ رات کو سوتے میں خراٹے لیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی اپنی نیند تو متاثر ہوتی ہی ہے‘ ارد گرد کے لوگ بھی چین کی نیند نہیں سوپاتے ۔ دراصل ایک خاص عمر کے بعد ہمارے جسم کے تمام ٹشوز میں لچک ذرا کم ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ ڈھیلے پڑجاتے ہیں۔بزرگوں کے چہروں پر جُھریاں نمودار ہونے کا سبب بھی یہی ہے۔تالو کے پچھلے نرم حصے (soft palate)کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوتا ہے اوراگر عمر میں اضافے کے ساتھ موٹاپا بھی ہو تو خراٹوں کی شکایت کا امکان بڑھ جاتا ہے ۔
موٹاپے کی وجہ سے گردن اور حلق فالتوچربی کی وجہ سے سوج چکے ہوتے ہیں۔ایسے میں جب فرد اونگھنے لگتا ہے تو اس کی زبان پیچھے کی طرف حلق میں دھکیل دی جاتی ہے جو سانس کی آمدورفت میں رُکاوٹ کا سبب بنتی ہے۔مزید برآں ہرسانس کے ساتھ نرم تالو میںبُری طرح سے ارتعاش پیدا ہوتاہے جس سے خراٹوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔اگر موٹاپا زیادہ ہو تو بعض اوقات کچھ لمحوں کے لئے سانس رک بھی جاتی ہے جس سے مریض کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ جاگنے پر اسے یہ کیفیت یاد نہیں رہتی ‘ اس لئے کہ اس کی غنودگی برقراررہتی ہے۔ بیدار ہونے پر اس کی سانسیں بحال ہوجاتی ہیں اور ایک بارپھر خراٹوں کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے ۔یہ عمل رات کے دوران کئی بار ہوتا ہے۔ اگر یہ کیفیت شدید صورت اختیار کر جائے تو ہارٹ اٹیک اور فالج کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دل اور دماغ کچھ لمحوں کے لئے آکسیجن سے محروم ہو جاتے ہیں۔
نیند میں خراٹوں کا مسئلہ موٹاپے کے شکار افراد میںزیادہ ہوتا ہے۔دن کے وقت انہیں نیند بہت آتی ہے‘تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے اور وہ دن کا بڑا حصہ اونگھنے میں گزارتے ہیں۔ان لوگوں میں عارضہ قلب اور ہائی بلڈ پریشر کی شرح بھی زیادہ ہوتی ہے ۔
مرض کی تشخیص کے لئے مخصوص وارڈاور لیبارٹریاں موجو دہیں جن میں مریض کو ایک یادوراتیں گزارنا ہوتی ہیں تاکہ اس کی کیفیت کو مانیٹر کیا جا سکے اور دیکھا جائے کہ سی پیپ (C-Pap) میں کتنا پریشرڈالاجائے اوریہ کہ مریض کو آکسیجن کی ضرورت ہوگی یا نہیں۔”سی۔پیپ“علاج کے لئے استعمال ہونے والی سانس کی ایک مشین ہے جس کی مدد سے کمرے کی ہوا کو پریشر کے ساتھ پھیپھڑوں میںداخل کیاجاتا ہے۔ اس کے لئے مریض کو چہرے پر ماسک لگانا ہوتا ہے۔علاج کے تناظر میں اہم بات یہ ہے کہ اپناوزن کم کریں اوراگرذیابیطس یا دل کے مریض ہیں توان کا علاج کروائیں اورنیند کی گولیوں کے استعمال سے پرہیزکریں۔
اگرچہ یہ بنیادی طور پر ایک طبی مسئلہ ہے لیکن اس کے سماجی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔یہ معاملہ بہت سے شادی شدہ جوڑوں کی ازدواجی زندگیوں میں زہر گھولنے کا بھی باعث بن رہا ہے اور کچھ خواتین کی طرف سے اپنے شوہروں سے طلاق لےنے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں ۔واضح رہے کہ خراٹوں کی بیماری خواتین کی نسبت مردوں میں زیادہ پائی جاتی ہے ۔ بحیثیت معالج میرا مشورہ ہے کہ اس مرض کا علاج کرایا جائے۔ اس کادوسراحل یہ ہو سکتا ہے کہ میاں بیوی یوں تو اکٹھے رہیں لیکن سونے کے لئے الگ کمروں میں چلے جائیں ۔ اس وجہ سے کم از کم طلاق تو نہیں ہونی چاہئے۔
نچلے جبڑے کے مسائل
ٹی ایم جے (temporomandibular joint) نچلے جبڑے کے جوڑ کو کہاجاتا ہے۔ یہ دراصل دوجوڑہیں جو جبڑے کی ہڈی کو کھوپڑی کے ساتھ ملاتے ہیں اوردونوں کانوں کے اطراف میں ہوتے ہیں۔ آرتھرائٹس کی وجہ سے کبھی کبھی ان میں درد پیدا ہوجاتا ہے اور کچھ دیگر امراض کی وجہ سے اس میں نہ صرف درد ہوتا ہے بلکہ کھانا چبانے پر اس سے خاص قسم کی آواز بھی نکلتی ہے۔ کبھی کبھار چوٹ لگنے سے جبڑا اپنی جگہ سے ہل جاتا (dislocate) ہے ۔کچھ افراد میںجمائی لیتے وقت بھی ایسا ہو جاتا ہے ۔اس کا علاج ضروری ہے جس میں ڈاکٹراسے اپنے مقام پر واپس سیدھا کردیتا ہے۔
بعض افراد سوتے میں اپنے جبڑے کو ہلاتے اور دانت پیستے رہتے ہیں۔ یہ عمل اتنا واضح ہوتا ہے کہ اردگرد کے افراد بھی اس کی آواز باآسانی سن لیتے ہیں ۔اس سے دانت گھس بھی سکتے ہیں۔
پیدائشی طور پریا عمر میں اضافے کے ساتھ بعض لوگوں کے جبڑوں کی نوعیت کچھ ایسی ہو جاتی ہے کہ وہ چبانے کے کام کو ٹھیک طرح سے انجام نہیں دے پاتے ۔اس شعبے کا ماہر سرجن (Maxillofacial surgeon)ایک پیچیدہ آپریشن کے ذریعے ہڈیوں کو ٹھیک کردیتے ہیں۔
ہونٹوں کاکردار
ہونٹ ہمارے منہ کا اہم اور سب سے پہلا حصہ ہیںجو چہرے کی خوبصورتی بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نومولود بچہ انہی کے ذریعے اپنی زندگی کے پہلے ہی دن دودھ پینا سیکھ لیتاہے۔ خانہ کعبہ کے غلاف کو چومنا ہو یا کسی مرشد کی قدم بوسی کرنا‘ اولادکے سر پر شفقت سے بوسہ دینا ہویا میاں بیوی کا باہم بوس و کنار کرنا‘ ہر ایک کا اپنارنگ ہے اورہونٹ اس میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ انہی کی مدد سے ہم بولتے اور کھانے کے گرم یا سرد ہونے کا پتہ لگاتے ہیں۔
ہونٹوں کی مدد سے کھانے پینے کی چیزوں کے گرم یا سرد ہونے کو محسوس کرنے کے حوالے سے میں اپنا ایک تجربہ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔کہتے ہیں کہ اچھی چائے میں تین خوبیاں ہونی چاہئیں ۔ ان میں سے پہلی” لبریز“ ہے یعنی اس کی پیالی پوری طرح سے بھری ہوئی ہونی چاہئے۔اس کی دوسری خوبی” لب دوز“ ہے یعنی اس میں اتنی مٹھاس ہو کہ ہونٹ ایک دوسرے کے ساتھ چپک جائیں‘حالانکہ طبی طور پر ایسی چائے پینا مناسب اور صحت مندانہ رویہ نہیں۔ اس کی تیسری خوبی ”لب سوز“ ہے یعنی وہ اتنی گرم ہو کہ ہونٹوں کو جلادے۔میں خاصی گرم چائے پینے کا عادی ہوں اور اس کا گھونٹ بھرتے وقت میرا منہ خودبخود ایسا انداز اختیارکرلیتا ہے کہ میں ہونٹوں کو جلائے بغیر چائے پی لیتا ہوں۔مجھے نہیں معلوم کہ مسلسل ایسی چائے پینے سے میرے اندر کیا تبدیلیاں آئی ہیں لیکن اتنا جانتا ہوں کہ شروع کے چند گھونٹ بہت چھوٹے ہوتے ہیں جو بتدریج بڑے ہوتے جاتے ہیں۔یہ ساراعمل میری سمجھ سے بالاتر ہے اورمیں اسے بہت حیران کن سمجھتا ہوں۔

Vinkmag ad

Read Previous

جسم کا رکھوالا جگر، چربیلا کیوں

Read Next

نسوانیت کا دشمن ۔۔۔پی سی او ایس

Most Popular