Vinkmag ad

کم عمری کی شادیاں اور صحت کا پہلو

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور نے ایک ترمیمی بل مسترد کردیا ہے جس میں کم سنی کی شادیوں پر پابندی تجویز کی گئی تھی۔ بل میں کمیٹی سے مطالبہ کیاگیا تھا کہ شادی کی عمر 16 سے 18 سال مقرر کردی جائے۔
میڈیا کے مطابق بل کے استرداد کی وجہ یہ تھی کہ کمیٹی نے کوئی ایسا اقدام اٹھانے سے انکار کردیا تھا جو "سنت کے منافی ” ہو۔
کم عمری کی شادی پر پابندی کے اس ترمیمی بل مجریہ 2014ء میں بچوں کی شادی کے امتناعی ایکٹ 1929ء کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کے لئے سخت سزائیں تجویز کی گئیں۔1929 ء کے اس قانون کو شاذ ہی لاگو کیا جاتا ہے ا ور اس کی خلاف ورزی پر سزا بھی معمولی نوعیت کی ہے۔
مسترد شدہ بل کے پیش کاروں نے اس کی بنیاد کم عمری کی شادی سے وابستہ صحت کو لاحق ہونے والے خطرات پر رکھی تھی۔تاہم بل کو مذہبی بنیادوں پر مسترد کیا گیا۔
کم عمری کی شادی سے صحت کو لاحق ہونے والے خطرات کون سے ہیں؟
عالمی ادارہ صحت کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر فلیویابستریو کے مطابق ’’15 سے 19سال کی لڑکیوں میں موت کی بڑی وجہ حمل اور وضع حمل کی پیچیدگیاں ہیں۔جو لڑکیاں دیر سے شادی کرتی ہیں اور حمل کو بلوغت کے بعد تک موخر کرتی ہیں ان کے لئے صحت مند رہنے ، بہتر تعلیم حاصل کرنے اور اپنے اور اپنے خاندانوں کے لئے بہتر زندگی وضع کرنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کے خاندانی بہبود کے ادارے، یونیسف ،عالمی ادارہ صحت اور حقوق انسانی کی دیگر کئی تنظیموں کے مطابق 2011 ء سے 2020ء کے دوران 14کروڑ کم عمر لڑکیاں شادی کے بندھن میں بندھیں گی۔مارچ 2013 ء میں مذکورہ بالا تنظیموں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ کم عمری میں ہونے والی شادیوں کی موجودہ(2013ء)شرح کے مطابق 2020ء تک روزانہ 39 ہزار لڑکیاں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوا کریں گی۔
کم عمری کی شادی ایک عالمی مسئلہ ہے لیکن زیریں صحرائے اعظم افریقہ کے ملکوں اورجنوبی ایشیاء میں اس کا رجحان سب سے زیادہ ہے۔جنوبی ایشیاء میں تقریباً آدھی اور افریقہ میں ایک تہائی سے زیادہ لڑکیاں اپنی اٹھارویں سالگرہ تک بیاہ دی جاتی ہیں۔
اس حقیقت کے باوجود کہ 158 ممالک میں شادی کی قانونی عمر 18سال مقرر ہے ‘ ان قوانین پر خال خال ہی عمل درآمد کیا جاتا ہے اور روایات اور سماجی طور طریقوں کی پیروی میں بچوں کی شادی اس سے پہلے ہی کردی جاتی ہے۔
خوش قسمتی سے کم عمری کی شادیوں کی بلند ترین شرح کے حوالے سے پاکستان پہلے 10ممالک میں شامل نہیں ہے۔ان ممالک میں نائیجر،چاڈ،وسطی افریقی جمہوریہ،بنگلہ دیش، گنی، موزمبیق،مالی،برکینافاسو،جنوبی سوڈان اور ملاوی شامل ہیں۔آبادی کے تناظر میں انڈیا میں کم عمری کی سب سے زیادہ شادیاں ہوتی ہیں اور 47 فی صد شادیوں میں دلہن کم عمر ہوتی ہے۔
کم عمری کی شادیوں کے امتناعی بل کامذہبی بنیادوں پر مسترد کیا جانا حیران کن ہے۔اس معاملے پر علماء کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے تاہم زیادہ اہم بات یہ ہے کہ مختلف اسلامی مکاتب فکر میں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا کہ ایک فرد کی عافیت کو یقینی بنانا ایک مقدس فریضہ ہے۔ کوئی بھی ایسی چیز جس کانتیجہ اس کے برعکس نکلے اس پر پابندی ہونی چاہیے اوراس سے گریز کیا جانا چاہیے۔ہمارے قانون سازوں کو اس معاملے کو غیر جانبداری سے اور کلی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔

Vinkmag ad

Read Previous

The Constitutional Status of Health

Read Next

ڈائلیسز زندگی لیتا نہیں, دیتا ہے

Leave a Reply

Most Popular