Vinkmag ad

خواتین کی صحت ”ماں اور بچے “کی اصطلاح تک محدود نہیں

وہ ملکی آبادی کانصف ہیں ۔ ان کی تعداد کے بارے میں متضاد دعوے ہیں جن میں سے کچھ کے مطابق ان کی آبادی مردوں سے کچھ زیادہ ہے جبکہ بعض کے نزدیک معاملہ اس کے برعکس ہے۔19سال کے وقفے کے بعد مردم شماری کا سلسلہ جاری ہے اورہم امید رکھتے ہیں کہ جب یہ تکمیل کو پہنچے گی توہمیں اگرخواتین کی حتمی طور پر صحیح تعداد کا پتا نہ بھی چلا تو حقیقی کے قریب تر تعدادکا ضرورعلم ہو جائے گا۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کی اہمیت کے بارے میں سوچنے کے لئے ہمیںان کی حقیقی تعداد کاعلم ہونا ضروری ہے؟کیا خواتین صرف ”اعداوشمار“ ہےں ؟
یہ مائیں ،بیویاں،بیٹیاں اور بہنیں ہیں۔ اور یہی نہیں بلکہ ہماری مستقبل سازی میںان کا کردار مرکزی ہے۔وہ نہ صرف بچوں کو جنم دیتی ہیں بلکہ ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔دنیا کے جس خطے میں ہم بستے ہیں‘ وہاں معاشرے کے خاندانی ڈھانچے نے انہیں یہ ذمہ داری سونپی ہے۔ وہ نہ صرف گھر بنا تی ہےں بلکہ کھیتوں سے لے کر فوج اور ہسپتالوں سے لے کر سکولوں تک میں خدمات سرانجام دے کر خاندان کی آمدنی میں اپناحصہ ڈالتی ہےں ۔
اس کے باوجودکہ یہ تمام اہم کام خواتین کے ذمے ہیں ‘گھریلو اور قومی دونوں سطحوں پر ان کی صحت اور مامونیت ترجیحات میں کوئی خاص مقام نہیں رکھتیں۔اور اگر کہیں یہ ترجیحات میں شامل ہےں بھی تو اس سلسلے میں تمام تر کوششوں کا ہدف ”ماں اور بچے“ کی صحت ہے ۔ہمیںخواتین کی صحت کو” تولیدی عدسے“ اتار کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔
کئی طرح کی ثقافتی،معاشرتی اور معاشی رکاوٹیں خواتین کی صحت اورمامونیت کے راستے میں چیلنج بن کر کھڑی ہیں ۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری خواتین کی آبادی صحت مند افراد پر مشتمل ہو تو ہمیں ان کی صحت کو اپنی اولین ترجیح بنانا ہو گا اور ان کو درپیش مسائل سے لڑنے کے لیے بھرپورجدوجہد کرنا ہو گی۔ مذکورہ مقصد کو حاصل کرنے کی خواہش رکھنا اوراس چیلنج سے نظریں چراناقول و فعل میں تضاد کے مترادف ہوگا۔
ڈاکٹر کے پاس جانے کا فیصلہ کرنے کا اختیار خواتین نہیں رکھتیں جس کی وجوہات ثقافتی سے لے کر معاشی تک کچھ بھی ہو سکتی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اہل خانہ خاتون کو اس بات کی اجازت نہ دیں کہ وہ کسی مرد ڈاکٹر کے پاس جاکر علاج کرائے یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کی نظر میں خاتون کی صحت پر خرچ کرناکچھ زیادہ اہمیت کا حامل نہ ہو ۔
ستم ظریفی دیکھیںکہ پورا دن کھیتوں میں کام کرنے‘اپنی گھریلو ذمہ داریاں اد اکرنے اور خاندان کے افراد ہی نہیں، مال مویشیوں تک کا خیا ل رکھنے کو تو معمول کا کام سمجھا جاتا ہے جبکہ یہی کام کرنے والی عورت اگر جسم کی لچک بڑھانے اور دوران خون کوبہتر کرنے کے لئے ورزش کرے تو اسے گمراہی خیال کیا جاتا ہے ۔
اگر کوئی خاتون اپنے محلے میں بھی ’واک‘ کے لئے نکلے تو لوگ اس عام سی سرگرمی کو بھی حیرت اورمشکوک نظروں سے دیکھتے اور منفی رائے زنی کرتے ہیں ۔ یہ باتیںان لوگوں کویقیناًغیر حقیقی لگیں گی جنہیں چند بڑے شہروں سے باہر بسنے والی عورت کی زندگی کو دیکھنے کا کبھی موقع نہ ملا ہو۔
ہمارے ہاںکچھ موضوعات ایسے ہیں جن پر گفتگو کرنا سماجی طور پر شجرممنوعہ سمجھا جاتاہے ۔اسی سبب شہروں میں نسبتاًزیادہ آزادی کی زندگی گزارنے والی معدودے چند خواتین کو چھوڑ کر وطن عزیز کی باقی خواتین کی صحت بھی خود انہی کی طرح خطرات کی زد میں رہتی ہے ۔ پاکستان کی ان مستقبل سازوں کی صحت کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی خواتین کی صحت کے بارے میں بات کریں ۔ ہمیں اس بات کو ”ماں اور بچے“کی صحت تک محدود کرنے کی بجائے اس سے آگے بڑھ کر بات کرنی چاہئے ۔اس سلسلے میں اپنی کاوشوں کو مستقل مزاجی اورپوری توجہ سے آگے بڑھانا چاہئے تاکہ”نصف پاکستان “کو صرف اس وجہ سے بری صحت کا شکار نہ ہونا پڑے کہ کسی نے انہیں اہمیت کے قابل ہی نہ سمجھا ۔

Vinkmag ad

Read Previous

شہد اور مکھیاں

Read Next

واک، ورزش یا کھیل…اچھی صحت کے لئے خواتین بھی کھیلیں

Most Popular