Vinkmag ad

شہد اور مکھیاں

شہد اور مکھیاں

شہد کی مکھیوں کے بارے میں قرآن مجید میں ہے کہ ان کے پیٹ سے نکلنے والے لعاب میں بیماروں کے لئے شفاء ہے۔ لعاب سے مراد گاڑھا اورشیرے کی طرح میٹھا شہد ہے۔ شہد کی ایک مخصوص خوشبوہوتی ہے جونشاندہی کرتی ہے کہ جب اسے تیارکیا گیا تواس وقت قرب و جوارمیں کون کون سے پھول جوبن پرتھے۔ پھول اپنی خوشبو اوررنگارنگ پتیوں کے ذریعے مکھیوں کو اپنی جانب راغب کرتے اورمیٹھا رس پیش کرتے ہیں۔ اس فیاضی کا بنیادی مقصد اپنی بارآوری میں مکھیوں کی مدد حاصل کرنا ہوتا ہے۔ پھولوں کے رس کو چھتے تک لے جانے کے لئے ان کی ٹانگوں کے درمیان دوعدد چھوٹی چھوٹی ٹوکریاں موجود ہوتی ہیں ۔ مکھیاں ایک ہی چکرمیں پھولوں کے زردانے اوررس‘ دونوں کو ان ٹوکریوں میں بھرکراپنے چھتے میں لے جاتی ہیں۔

زمانہ قدیم میں شہد کا استعمال

عہد قدیم کے اہل روم شہد کو زخموں کے علاج کے لئے بطورمرہم استعمال کرتے تھے۔شہد میں دافع جراثیم  صلاحیت ہوتی ہے لہٰذا بیکٹیریا اس میں نشوونما نہیں پاسکتے۔ اس لئے دیگرغذاﺅں کے برعکس یہ ہزاروں سال خراب نہیں ہوتا اورنہ ہی اس کا ذائقہ بدلتا ہے۔ مصر کے قدیم مقبروں سے ایسا شہد بھی ملا ہے جسے آج سے دویا تین ہزاربرس پہلے مُردوں کے ساتھ  دفن کیا گیا تھا۔ اتنا عرصہ گزرجانے کے باوجود دریافت کے وقت وہ قابل استعمال تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سکندراعظم کا انتقال ہوا تووہ اپنے وطن سے بہت دورتھا لہٰذا اس کی نعش کو شہد میں رکھ کرمصرکے شہرسکندریہ لایا گیا ۔لمبے سفرکے باوجود اس کی نعش شہد کی وجہ سے گلنے سڑنے سے محفوظ رہی۔ قدیم زمانے کے مصری باشندے دیوتاﺅں کی خوشنودی کے لئے بڑی مقدار میں شہد کو دریا میں اُنڈیل دیا کرتے تھے۔

شہد کی مکھیاں آزاد رہتی ہیں اوراپنی پسند کی جگہ پرشہد بناتی ہیں لیکن آج کل انہیں اپنی نگرانی میں بھی پالا جارہا ہے۔ آثارقدیمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عمل کا آغاز 700 سال قبل مسیح میں ہوا۔ جب شراب بنانے کا طریقہ ایجاد ہوا تو شہد کی مدد سے میٹھی شراب بنانے کا بھی آغازہوا۔ شادی کے بعد نوبیاہتا جوڑے ” ہنی مون“ مناتے ہیں۔ اس اصطلاح میں لفظ  ہنی“ یعنی شہد کے استعمال کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ یورپ کے بعض قدیم قبیلوں اورعلاقوں میں جب کسی لڑکی کی شادی ہوتی تواس کا والد اپنی بیٹی اورداماد کے لئے ایک ماہ تک شہد سے بنی ہوئی شراب روزانہ بھیجتا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قدیم انسانوں نے غذا میں مٹھاس پیدا کرنے کے لئے سب سے پہلے شہد ہی کا استعمال شروع کیا، ا س لئے کہ گڑاورچینی بہت بعد میں ایجاد ہوئے۔

مکھیوں کا طرزِ زندگی

شہد کی مکھیاں گرمیوں میں پروں کو تیزی سے ہلا کرہوا پیدا کرتی ہیں تاکہ چھتے میں درجہ حرارت نہ بڑھے ۔ چھتے میں تین قسم کی مکھیاں ملتی ہیں۔ پہلی مزدورمکھیاں ہیں جو پھولوں کا رس چوس کراس سے شہد بناتی ہیں۔ اگرچہ مزدورمکھیاں مادہ ہوتی ہیں لیکن بیضہ دانیاں نہ ہونے کی وجہ سے وہ بانجھ ہوتی ہیں۔ صرف ملکہ مکھی ہی انڈے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے اورسائز میں باقی مکھیوں سے بڑی ہوتی ہے۔ انڈوں سے نکلنے کے بعد اس کی ابتدائی حالت یعنی لاروا کو شاہی جیلی کھلائی جاتی ہے جسے مکھیوں کے گلے میں موجود خاص غدود بناتے ہیں۔ ہرچھتے میں صرف ایک ہی ملکہ مکھی رہتی ہے۔ جب یہ بالغ ہوتی ہے توملکہ بننے کی دعویدارتمام حریف مکھیوں کو مار دیتی ہے۔ جب ملکہ چھتے سے فرارہوجائے یا مرنے لگےتوعام لاروﺅں پرشاہی جیلی بند کردی جاتی ہے۔ اس غذا کو تندرست دکھائی دینے والے چند لاروﺅں کے لئے مخصوص کردیا جاتا ہے۔

ملکہ مکھی کی عمر دوسال کے لگ بھگ ہوتی ہے جبکہ مزدورمکھیاں اوسطاً چھ ہفتے زندہ رہتی ہیں۔ نرمکھیاں یعنی ڈرونزمزدورمکھیوں سے قدرے بڑے لیکن ملکہ سے چھوٹے ہوتے ہیں اوراُن کی آنکھیں مزدورمکھیوں سے دُگنی ہوتی ہیں۔ ان کے ذمے ملکہ مکھی سے اختلاط کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا۔ ملکہ ان میں سے چند ایک کے ساتھ زندگی میں ایک دفعہ اس طرح کا تعلق قائم کرتی ہے۔ اس کے بعد انہیں ماردیاجاتا یا چھتے سے بھگا دیاجاتا ہے۔

مکھیوں کا چھتا

چھتوں میں موم اورخاص طرح کی گوند پائی جاتی ہے۔ قدرت نے مکھیوں کے گلے میں مخصوص غدود پیدا کئے ہیں جن سے خاص طرح کا موم خارج ہوتا ہے۔ اس سے چھتے میں بہت ہی خوبصورت ”چھ طرفہ“خانے بنتے ہیں جوحیرت انگیز حد تک یکساں ہوتے ہیں۔ انہی خانوں میں مکھیاں پلتی ہیں اورشاہی جیلی یا شہد پایاجاتا ہے۔ چونکہ ملکہ مکھی سائزمیں بڑی ہوتی ہے لہٰذا اُس کا خانہ بھی دیگرمکھیوں کے خانوں سے بڑا ہوتا ہے۔ گوند درختوں وغیرہ سے اکٹھا کیا جاتا ہے جس کی مدد سے چھتے کے خانوں کو سِیل کیا جاتا ہے ۔

شہد کی حفاظت

شہد کوچوری ہونے سے بچانے کے لئے مکھیاں خاص قسم کی مہک پیدا کرتی ہیں جس کی بنا پروہ ایک دوسرے کو پہچان لیتی ہیں۔ جن حشرات الارض کا چھتے میں داخلہ ممنوع ہوتا ہے وہ اردگرد منڈلاتے رہتے ہیں۔ اس ماحول میں رہنے سے مخصوص مہک ان میں بھی رچ بس جاتی ہے۔ یوں انہیں بھی چوری چھپے چھتے میں داخل ہونے کا موقع مل جاتا ہے لیکن اندرداخل ہوتے ہی وہ پہچانے جاتے ہیں۔ اس پرمکھیاں بپھرکرچورکو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔ ان میں سے کئی مکھیاں اس کے اردگرد گیند کی شکل میں جمع ہوجاتی ہیں اورجسم کے تمام پٹھوں کو پوری قوت سے حرکت میں لاتی ہیں۔ اس سے ان کے جسم کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھنے لگتا ہے اورچورکے جسم کا درجہ حرارت 117 ڈگری فارن ہائٹ تک پہنچ جاتا ہے۔ یوں وہ ’پک“ کرمرجاتا ہے اوراسے ڈسنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

honey, honey bee, life of honey bees, honey protection, drone, queen bee, worker bees

Vinkmag ad

Read Previous

چکنی جلد‘چند مفید گھریلو نسخے

Read Next

خواتین کی صحت ”ماں اور بچے “کی اصطلاح تک محدود نہیں

Most Popular