واک، ورزش یا کھیل…اچھی صحت کے لئے خواتین بھی کھیلیں

    کائنات کو اگر ایک تصویر خیال کیا جائے تو اس میں رنگ بلاشبہ صنف نازک کے مرہون منت ہےں ۔جہاں اس کے قدم لگتے ہیں‘ وہاں نفاست، ترتیب، تنظیم اور خوبصورتی دکھائی دینے لگتی ہے ۔شاید عورت کے انہی اوصاف کی وجہ سے قدرت نے اسے گھریلو نظام کا مرکزو محور بنایا ہے ۔
دنیا کے اکثر معاشروں میں کھانا پکانا‘ بچوں کی دیکھ بھال اوران کی تعلیم و تربیت ‘ اہل خانہ کی ضروریات کا خیال رکھنا ‘ گھرکی صفائی ستھرائی اور اس کا اندرونی نظام چلانا عورتوں کے کام شمار ہوتے ہیں۔اگرچہ معاش کی ذمہ داری مرد پر ہے لیکن عورت اپنی گھریلو ذمہ دریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ معاشی سرگرمیوں میں بھی بھرپور طور پر شامل ہوتی ہے تاکہ اپنے گھر کے مردوں کا بوجھ ہلکا کر سکے۔اس تناظر میں عورت کا صحت مند رہنااتنا ہی اہم ہے جتنا مرد کے صحت مند رہنے کو خیال کیا جاتا ہے ۔اگروہ صحت مند نہ ہو تو نہ صرف اس کی اپنی زندگی متاثر ہوتی ہے بلکہ پورا گھرانہ اس کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔

 ورزش کیوں ضروری ہے
ہسپتالوں کو بالعموم ”ہیلتھ کئےر“ کے مراکز کا نام دیا جاتا ہے حالانکہ ”ہیلتھ“ ہسپتال سے پہلے کامرحلہ ہے جس کی ”کئیر“کا تعلق دواﺅں وغیرہ سے نہیں بلکہ ”صحت مند طرز زندگی“ سے ہے۔اس طرززندگی کا ایک اہم جزو جسمانی طور پر متحرک ہوناہے ۔
ڈاکٹرنثار خان یو بی ایل سپورٹس کمپلیکس کراچی کے ساتھ سپورٹس میڈیسن سپیشلسٹ کے طور پر وابستہ ہیں ۔ ان سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی خاتون جسمانی سرگرمیاں کرتی ہے تو اسے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے اوراگر وہ ایسا نہ کرے تواسے کیا نقصان ہوگا؟ جواب میں انہوں نے کہا کہ جسمانی طور پر متحرک رہنا فطری جبکہ اس کے برعکس رویہ اختیار کرنا غیرفطری رویہ ہے:
” جسمانی سرگرمیوں کو نظرانداز کرنے والے مردوں اور خواتین میں امراض قلب، کولیسٹرول کی زیادتی‘ ہائی بلڈپریشر ‘ موٹاپے اور ذیابیطس کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ان سرگرمیوں کا اہتمام کرنے والوں میں نہ صرف ان امراض کی شرح اور امکانات کم ہوجاتے ہیں بلکہ ان کی عمومی صحت اوراوسط عمربھی بڑھ جاتی ہے ۔ جب ان کا وزن کم ہوتا ہے تو موٹاپے سے وابستہ بیماریوں مثلاًہڈیوں کے بھربھرے پن (Osteoporosis) اور جوڑوں کے دردمیں بھی کمی آجاتی ہے ۔مزید براں ان کا ذہنی تناﺅ کم اور موڈ بھی بہتر ہوجاتا ہے۔“
یو بی ایل سپورٹس کمپلیکس کراچی کے فزیکل ٹرینرحنیف ملک سے سوال کیا گیا کہ زندگی گزارنے کے لئے جسمانی سرگرمیاں کتنی ضر وری ہیں؟ جواب میں انہوں نے کہاکہ صحت مند رہنے کے لئے جسمانی سرگرمیوں کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی ضرورت زندہ رہنے کے لئے آکسیجن کی ہوتی ہے:
”ہم 24گھنٹوں میں سے اوسطاً آٹھ گھنٹے سو کر گزار دیتے ہیں۔ اگر ہم باقی ماندہ 16گھنٹوں میں سے روزانہ 16منٹ بھی اپنے لئے نکال لیں تو ہماری صحت اورکارکردگی کافی بہتر ہو جائے گی ۔“
یوگی ناہید‘ پاکستان کے اندر یوگا کی دنیا میں ایک بڑا نام ہیں۔ ان کا کہناہے کہ اگرچہ روزانہ 20 کی ورزش تجویز کی جاتی ہے لیکن میں کہتی ہوں کہ اگرخواتین آغاز میں روزانہ پانچ منٹ بھی اسے دیں تو ان کی بہت سی بیماریاں اور ٹینشنز ختم ہونا شروع ہو جائیںگی:

”جب میرے شوہر کا انتقال ہوا تو میں شدید صدمے کی شکار ہو گئی۔ ایک لمحے کے لئے تو مجھے ایسے لگاجیسے میں خودکشی کرلوں گی ۔ میرے ٹیچر نے یوگا کی ورزشوں کے ذریعے مجھے شدید ڈپریشن کی کیفیت سے نکالا۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ کتنی زبردست قوت ہے ۔ اس کے بعد میں نے اسے اپنے لئے خاص میدان کے طور پر چن لیااورتب سے خواتین کو یوگا کرواتی ہوں ۔ میں اکثر ڈاکٹروں سے کہتی ہوں کہ جہاں آپ کی ’بس‘ ہوجاتی ہے، وہاں سے یوگا شروع ہو تا ہے‘ اس لئے کہ یہ بیماریوں سے بچاﺅہی نہیں، ان کا علاج بھی ہے ۔“
رسیوں کی مدد سے بلنداور خطرناک چٹانوں پر چڑھنے (rock climbing)کو اپنا شوق بنانے والی نازیہ پروین کا تعلق باجوڑ ایجنسی (فاٹا) سے ہے ۔وہ پہلی پاکستانی خاتون ہیں جنہیں ”راک کلائمبنگ“کے بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کا اعزاز حاصل ہے ۔ انہوں نے قومی سطح پر دو ”چیمپئن شپس “ اور چار”آل پاکستان“ مقابلوںکے علاوہ 32 مقابلوں میں شرکت کی اورہر دفعہ پہلی پوزیشن حاصل کی۔ ”پاکستان بک آف ریکارڈز “ کی طرف سے انہیں آفیشلی ”Pakistani Amazing “ کا خطاب دیا گیاہے۔
شفانیوزکے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے نازیہ نے کہا کہ جسمانی سرگرمیوں کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ ان سے ہمارا جسم تازہ دم اور ہلکا پھلکا ہوجاتا ہے اور ہم خود کو بہتر محسوس کرتے ہیں۔ہمارا سٹیمنا بڑ ھ جاتا ہے، سستی دور ہوجاتی ہے اور ہم جلدی تھکتے نہیں ۔یہ کیفیت ہم میں خوداعتمادی پیدا کرتی ہے جو بہت بڑی نعمت ہے۔اس ہمارے کاموں میںتخلیقیت بھی پیدا ہوتی ہے ۔

خواتین ورزش کیوں نہیں کرتیں
جسمانی سرگرمیاں مرد اور خواتین، دونوں کے لئے یکساں ضروری ہیں لیکن خواتین کی بڑی تعداد اس طرف نہیں آتی ۔اس کی متعدد وجوہات ہیں جن میں سے ایک ہمارا مخصوص کلچر ہے جس میں خواتین کی ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ۔‘سوات سے تعلق رکھنے والی شازیہ ودود ایک کالج میں ’ہیلتھ اینڈ فزیکل ‘ کے نام سے پڑھائے جانے والے مضمون کی لیکچرار ہیں۔ان کاکہناہے:
”دیکھا گیا ہے کہ اگر بچیاں بھاگ دوڑ والے کام کریں تو ان کی مائیں یا بڑھی بوڑھیاں انہیں ڈانتی ہیں کہ’وہ ٹِک کربیٹھیں اور لڑکوں کی طرح اچھل کود نہ کریں۔‘ ان کے خیال میں بچیوں نے اگلے گھروں میں جا کر اچھل کود نہیں کرنی بلکہ کھانا پکانا اور گھر کے دیگر کام کرنے ہیں، لہٰذاوہ ایسی سرگرمیوں کو مناسب نہیں سمجھتیں۔“
نازیہ پروین اس کے ایک اور پہلو سے دیکھتی ہیں :
” اس کے پس پردہ تصور شاید یہ ہے کہ سپورٹس میں آنے والی لڑکیوں میں ہلکی سی مردانہ ’لُک‘ آجائے گی۔میں جب ’راک کلائمبنگ ‘ میں آئی تو میری امی نے کہا کہ اس سے تمہارے مسلز ڈیولپ ہو جائیں گے جو خواتین کو اچھے نہیں لگتے ۔لیکن یہ محض ایک خیال ہے۔“

ان کا کہنا ہے کہ بعض مائیں اس لئے بھی بچیوں کو اس طرف آنے سے منع کرتی ہیں کہ وہ سپورٹس میں آ جانے کے بعد گھر کے کام کا ج نہیں کریں گی حالانکہ آپ سپورٹس ویمن ہوتے ہوئے بھی اپنی نسوانیت اور زندگی کے رنگ قائم رکھ سکتی ہیں:
”ہمیںچاہئے کہ زندگی میں توازن برقرار رکھیں ۔ میں جاب بھی کرتی ہوں‘شاپنگ بھی کرتی ہوں‘ میک اَپ بھی کرتی ہوں اورگھرمیں کھانا بھی بناتی ہوں۔ اگرآپ ایک انتہاسے دوسری انتہا پر چلے جائیں تویہ بات بعد کی ہے کہ لوگ اسے کیسے دیکھیںگے‘ یہ چیزخود آپ کے اپنے لئے اچھی نہیں۔ “
بہت سی خواتین واک کو اپنا معمول تو بنانا چاہتی ہیں لیکن انہیں ایسا ماحول دستیاب نہیں جس میں وہ بحفاظت یہ سب کچھ کر سکیں۔ اسلام آبادکے نواحی علاقے سرائے خربوزہ کی رفعت جبیںکہتی ہیں:
”میں واک کرنا چاہتی ہوں لیکن ہمارے گھر کے پاس کوئی پارک وغیرہ نہیں ہے اور گلی میں یا چھت پربھی ایسا کرنا ممکن نہیں، اس لئے کہ لوگ عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔ مردوں کو تو چھوڑیں‘ عورتیں بھی الٹی سیدھی باتیں کرتی ہیں ۔“
کچھ خواتین ایسی بھی ہیںجن کے یہ مسائل تو نہیں ‘ البتہ ملازمت ‘ پڑھائی اور گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ واک یا ورزش جیسی ”عیاشی“ کا سوچ سکیں۔ اس کے علاوہ ایسی خواتین کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے جن کے خیال میں گھریلو کام کاج بذات خود ایک ورزش ہیں جن کے ہوتے ہوئے انہیں کسی اضافی ورزش کی ضرورت نہیں۔

کیا ورزش نہ کرنے کا کوئی جواز ہے
نازیہ پروین کے مطابق اس دلیل میں کوئی وزن نہیں کہ لڑکیاں واک وغیرہ کرنا تو چاہتی ہیں لیکن ان کے لئے باہر نکلنا مشکل ہے‘ اس لئے کہ ہر پارک ‘ سڑک اور گلی میں لڑکوں کی ٹولیاں کھڑی ہوتی ہیں:
”اگرانہیں شاپنگ کے لئے مارکیٹ جانا ہوتو لڑکے وہاں بھی موجود ہوتے ہیں لیکن یہ عامل انہیں شاپنگ سے نہیں روکتا۔ وہ مردوں کی موجودگی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پارکوں‘ بازاروں‘ دفتروں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جاتی ہیں ۔اگر انہیں کوئی چیز چاہئے ہو تو ضد کر کے والدین کومنا لیتی ہیں اور اگر وہ چیز ان کے بس میں نہ ہو تو بھی وہ کسی نہ کسی طرح بچیوں کے شوق پورا کرتے ہیں۔اگر آپ انہیں قائل کریں کہ واک ان کے لئے ضروری ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ خود اس کا انتظام کر کے نہ دیں۔آپ اپنے کلچر کے مطابق شلوار قمیص پہن کر واک کے لئے جائیں۔ اگر ایسا نہیں کر سکتیں تو گھر میں اس کا ظام کریں ۔ آپ چاہ پیدا کریں، راہ نکل آئے گی ۔“
اگر فاٹاجیسے روایت پرست علاقے سے تعلق رکھنے والی نازیہ بین الاقوامی سطح کے مقابلوں میں حصہ لے سکتی ہے تو دیگر خواتین کے لئے ورزش کے لئے موقع یا وقت نکالنا مشکل نہیں ہونا چاہئے ۔
سرگودھا کے ایک گاﺅں ”جھاویریاں“ سے تعلق رکھنے والی سائیکلسٹ گل افشاں طارق بھی ایک اور ایسی خاتون ہیں جن سے خواتین انسپائریشن لے سکتی ہیں۔پیشے کے اعتبار سے کمپیوٹر انجینئر گل افشاں ایک سپورٹس ویمن، پیراسیلنگ پائلٹ،مارشل آرٹ فائٹر، ایتھلیٹ اور راک کلائمبر بھی ہیں ۔ 20ستمبر 2015ءکو انہوں نے سپورٹ کمپلیکس اسلام آباد سے سائیکل پر اپناسفر شروع کیا جوپاک چین سرحد پر خنجراب کے مقام پر ختم ہوا۔نو(9) دنوں پرمحیط اس سفر میں انہوں نے سخت موسم اور ناموافق حالات کی پرواہ کئے بغیر4693 میٹر بلندی پر1000کلومیٹرکا سفر طے کر کے نیشنل ریکارڈ قائم کیا۔ انہیں پاکستان کے ”ٹاپ 10یوتھ ایمبیسڈرز آف پاکستان“ کی فہرست میں بھی شامل کیا گیاہے۔ شفانیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سال خواتین کے عالمی دن کا پیغام ” تبدیلی کے لئے مضبوط بنو “ہے ۔ خواتین کو چاہئے کہ وہ اپنی صحت کے لئے ایسی رکاوٹوں کا ہمت سے مقابلہ کریں۔ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ یہ مشکلات اتنی نہیں جتنی ہم گھر بیٹھے سمجھ لیتے ہیں :

”ہمارے ہاں ایک ماحول سا بن ہوا ہے کہ اگر آپ باہر نکلیں گے تو معلوم نہیں کہ کیا ہو جائے گاحالانکہ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔میں اتنے عرصے سے سائیکلنگ کر رہی ہوں اور میرا تجربہ ہے کہ ہمارے بیشتر خدشات بے بنیاد ہیں۔اس عرصے میںدو یا تین دفعہ لڑکوں نے مجھے تنگ کیا لیکن ان کے لئے میرے چہرے کے تاثرات ہی کافی تھے۔“
یوگی ناہید کا کہنا ہے کہ تقریباً99فی صد خواتین کا یہ خیال ہے کہ وہ چونکہ گھر کے کام کاج کر لیتی ہیں‘ جھاڑو دیتی ہیں‘کپڑے اور برتن دھوتی ہیں‘ کھانا پکاتی ہیںاور الماریوں وغیرہ کی صفائی کرتی ہیں لہٰذا ان کی ورزش ہوجاتی ہے اوریہ کہ انہیں اضافی ورزش کی ضرورت نہیں ۔ اگرچہ گھریلو کاموں میں انہیں تھکاوٹ ہو جاتی ہے لیکن صرف تھک جانا ورزش نہیں ہے:
” ہمارے جسم میں بہت سے عضلات ایسے ہیں جو گھریلو کاموں میں استعمال ہی نہیں ہوتے۔اور جس طرح اکثرخواتین انہیں استعمال کرتی ہیں‘ وہ الٹا نقصان کاباعث بنتا ہے۔مثال کے طور پر آج کل خواتین کے گھٹنوں اور کمر میں درد کی شکایت بڑھ رہی ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ گھریلو کاموں کے دوران ان کے اٹھنے بیٹھے اور کھڑے ہونے کے اندازدرست نہیں ہوتے ۔“
حنیف ملک کا کہنا ہے کہ جسمانی سرگرمیوں سے متعلق سائنس میں ایک اصطلاح پٹھوں کی یاداشت (muscle memory) استعمال ہوتی ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ آپ اپنے مخصوص پٹھوں کو روزانہ استعمال کرکے جب کچھ کام کرتے ہیں توپٹھے انہیں معمول کے مطابق استعمال کرنا سیکھ لیتے ہیں لہٰذا ان پٹھوں کی حرکات باقاعدہ جسمانی سرگرمیوں کی متبادل ہرگز نہیں ہو سکتیں ۔“

ان کے بقول بعض خواتین کا یہ خدشہ بھی درست نہیں کہ ورزش سے ان کی’ آﺅٹ لُک ‘مردانہ ہو جائے گی :
”ہمارے ہاں اکثر عورتیں سیدھی کمر کے ساتھ چلنے کی بجائے ذرا جھک کر چلتی ہیں ، اس لئے کہ ان کی کمر میں خم ہوتا ہے ۔جسمانی ورزشوں سے ان کی جسمانی ہیئت نہیں بدلے گی بلکہ جسم سیدھا ہو جائے گا ۔ پرمشقت باڈی بلڈنگ سے مسلز بن جاتے ہیں لیکن عام ورزش سے ایسا نہیں ہوتا۔“
مذکورہ معاملے کے مختلف پہلوﺅں پرماہرین‘ جسمانی سرگرمیاں اختیار کرنے والی اور ایسا نہ کرنے والی خواتین سے ہونے والی گفتگو ﺅں کو سمیٹا جائے تو درج ذیل امور اہم معلوم ہوتے ہیں:

٭صحت مند رہنے کے لئے صحت مند طرز زندگی اپنانا ضروری ہے جس کا ایک اہم جزو جسمانی سرگرمیاں ہیں جو خواتین کے لئے بھی اتنی ہی اہم ہیں جتنی مردوں کے لئے ضروری ہیں۔
٭گھریلو کام کاج باقاعدہ ورزش کا متبادل نہیں لہٰذا واک‘ ورزش یا جسمانی کھیلوں کے لئے الگ سے موقع اور وقت نکالنا چاہئے ۔
٭ اگرچہ ہمارے ہاں خواتین کے لئے ورزش کی سہولیات کم ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جو سہولیات موجود ہےں، ہم ان سے بھی کم ہی استفادہ کرپاتے ہیں ۔انہیں استعمال میں لایا جانا چاہئے اور اگر وہ نہ ہوں تو گھروں کے اندر جسمانی سرگرمیوں کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔
٭ اکثر خواتین واک یا ورزش کی خواہش تو رکھتی ہیں لیکن پہلی مشکل پر ہتھیار ڈال دیتی ہیں اور معاشرے‘ روایات اور کلچر کو الزام دے کر خو دکو بری الذمہ سمجھ لیتی ہیں۔انہیں ”تبدیلی کے لئے مضبوط بنو“ کے پیغام کو سامنے رکھنا چاہئے۔
٭نازیہ پروین کی اس بات میں بھی وزن ہے کہ سپورٹس کو انڈسٹری کا درجہ دے کر جسمانی سرگرمیوں کے رجحان کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔

Vinkmag ad

Read Previous

خواتین کی صحت ”ماں اور بچے “کی اصطلاح تک محدود نہیں

Read Next

خود کو صحت مند رکھنے کےلئے آپ کیا کرتے ہیں ؟

Most Popular