Vinkmag ad

جہاں فطرت ہم کلام ہوتی ہےمکشپوری اورنتھیا گلی کی سیر

    ”داداجی ! یہ مکشپوری کہاں واقع ہے؟“ ببلو نے اُن کے ہاتھ سے اخبار لے کر ایک طرف رکھا اورپھر ان کے گلے میں باہیں ڈالتے ہوئے پوچھا۔
” یہ لاڈ بے سبب نہیں ہے غالب!پُتر، خیر تو ہے؟“ انہوں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”ہماری کلاس میں ایک لڑکا پڑھتا ہے جس کا نام احمد ہے۔ وہ اپنی فیملی کے ساتھ وہاں گیا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ بہت خوبصورت جگہ ہے۔“ ببلو نے خوشی سے آنکھیں پھیلائیں اور پھر منہ بسورتے ہوئے بولا:” دادا، ہم بھی چلیں نہ کبھی مکشپوری!“

”ٹھیک ہے، میں تمہارے ابو سے بات کرتا ہوں کہ تمہیں کسی اتوار کو وہاں لے چلے۔“ انہوں نے اخبار اٹھایا اور پھر سے اسے پڑھنے لگے ۔
” لیکن دادا، صرف ’تمہیں‘ کیوں؟،’ ہمیں‘ کیوں نہیں؟“ ببلو نے ناراض ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا۔
”اس لئے بیٹا کہ میں دمے کا مریض ہوں اور پہاڑی علاقوں میں بلندی پر جاتے ہوئے مجھے سانس لینے میں دقت ہوتی ہے ۔“ ابھی وہ وضاحت پیش کرہی رہے تھے کہ اُن کی بہو یعنی ببلو کی امی شازیہ نمودار ہوئیں:
”ابا! اگرآپ ساتھ جانے پرآمادگی ظاہر کردیں تو اختر بھی ساتھ جانے پر آسانی سے تیار ہوجائیں گے‘ ورنہ وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا لیں گے ۔“ وہ اپنے میاں کے مزاج کو خوب اچھی طرح جانتی تھی:”جہاں تک دمے کا تعلق ہے تو آپ انہیلر ساتھ رکھ لیجئے گا۔“

”ہاںدادا۔ اگر آپ ساتھ نہیں ہوں گے تو ہمیں مزے مزے کی اور دلچسپ معلومات کون فراہم کرے گا۔“ مشعل بھی پاس ہی سے بولی ۔
”ٹھیک ہے ، اگر آپ لوگوں کی یہی مرضی ہے تو…“ دادا جی مان گئے۔ اور جب وہ مان جائیں تو پھر ببلو کے ابو کو منانا کچھ مشکل نہیں رہتا۔ یوں اگلی اتوار کی صبح صبح یہ فیملی نتھیا گلی کی طرف رواں دواں تھی ۔ ببلو نے اچانک ایک کتابچہ نکالا اور اسے پڑھنا شروع کیا:
”نتھیاگلی پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کا ایک پہاڑی قصبہ ہے جو 2501 میٹر کی بلندی پر زیریں ہمالیائی خطے میں واقع ہے۔ نتھیا گلی اپنے خوب صورت مناظراور ہائکنگ ٹریکس کے لیے مشہور ہے۔ یہ پر فضا سیاحتی مقام ضلع ایبٹ آباد میں مری کو ایبٹ آباد سے ملانے والی سڑک پر واقع ہے۔ اسلام آباد سے اس کا فاصلہ 80 کلومیٹر ہے۔جولائی اور اگست کے مہینوں میں یہاں تقریباً روزانہ بارش ہوتی ہے جبکہ دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں شدید برف باری ہوتی ہے۔“
”دادا! کیا یہ خیبر پختونخوا میں ہے ۔ ہم تو سمجھے تھے کہ یہ چونکہ مری کے پاس ہے لہٰذا پنجاب میں ہے۔“ ببلوگاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا لہٰذااسے بات کرنے کے لئے پیچھے مڑنا پڑا۔
”یہ مری کے پاس لیکن خیبرپختونخوا میں ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ انگریز کے زمانے میں یہ صوبہ پنجاب میں شامل تھا اور اس کے ’پشاور ڈویژن ‘ کے چیف کمشنر کا گرمائی دارالحکومت بھی تھا۔ آج بھی یہاں گورنر ہاو¿س موجو د ہے ۔ قصبے میں کچھ قیام گاہیں‘ دکانیں اور تھوڑی بہت آبادی ہے۔ کوہ مکشپوری اور کوہ میرانجانی قریب ہی واقع ہیں۔اور…“
ابھی ان کا جملہ مکمل بھی نہ ہوا تھا کہ مشعل کی آواز ابھری:”ماما!اُلٹی…“

”ایک منٹ ،روکنا اسے۔ “ شازیہ بدحواسی میں چلائی اور اس نے سفری بیگ کی جیب میں سے پلاسٹک کا لفافہ نکال کر اس کی طرف بڑھایا:” اس میں …“ اگر لمحوں کی تاخیر ہوجاتی تو ساری سیٹیں گندی ہو جاتیں۔ اس نے اوپر نیچے تین الٹیاں اس لفافے میں کیں اور پھر اسے ڈسٹ بِن میں پھینک دیا ۔
”مشعل!یہ کیا حرکت ہے ؟“ شازیہ نے اسے ڈانٹا۔
”اس بیچاری کو کیوں ڈانٹتی ہو۔جان بوجھ کر تھوڑی کرتا ہے کوئی۔“ میاں نے مداخلت کی : ”ابھی پچھلے ماہ یہ لاہور گئی تھی اور اس نے دوران سفر الٹیاں بالکل نہیں کیں ۔ پہاڑی علاقوں میں سفر کے دوران بعض لوگوں کو قے آتی ہے ۔“
”ایسا کیوں ہوتا ہے دادا؟“ ببلو جانتا تھا کہ کون سا سوال کس سے کرنا ہے ۔
”اس کی وجہ یہ ہے کہ بلند مقامات پر آکسیجن کم ہوتی ہے ۔ایسے میں سانس پھولتا ہے اور سر چکراتا ہے ۔ اسے ’mountain sickness‘ کہتے ہیں۔ دادا جی نے وضاحت کی۔
”اور ’motion sickness‘ کیا ہوتی ہے؟“ اختر نے پوچھا۔
” یہ متلی کی کیفیت ہے جس کا تعلق گاڑی کی حرکت اور اس کے اندر بیٹھے فرد کی سکون کی حالت کے ساتھ ہے ۔کان‘ سننے کے علاوہ توازن برقرار رکھنے میں بھی ہماری مدد کرتے ہیں۔اس لئے جن لوگوں کو کان کے قریب کی جگہ پر انفیکشن ہو تو انہیں چکر آتے ہیں۔ جب اندرونی کان آپ کی حرکت کو نوٹ کر ےں جبکہ آنکھیں گاڑی کے اندر آپ کو ساکن پائیں توآنکھ اور کان کے درمیان تضاد متلی اور چکروں کا باعث بن جاتا ہے۔“
”اف! یہ چکر بھی ناں…“شازیہ بولی :” ان سے کیسے بچا جا سکتا ہے ۔“
” کچھ آسان ٹپس پر عمل کرکے اس سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔مثلاً جن لوگوں کو سفر کے دوران الٹیاں آتی ہوں‘ انہیں اس سے پہلے قے روکنے والی دوا لے لینی چاہئے۔ سفر سے ایک گھنٹہ قبل تھوڑی سی ادرک کھالینا متلی سے بچاتاہے ۔سفر سے پہلے نہ تو پیٹ بھر کر کھانا چاہئے اور نہ بالکل خالی پیٹ ہونا چاہئے ۔ سفر شروع کرنے سے پہلے دو یا تین چ±ٹکی سونٹھ کا سفوف پھانک لینا بھی فائدہ مند ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں گاڑی کے شیشے کھلے رکھنے چاہئیں۔“
”دادا جی، آپ تو پوراانسائیکلوپیڈیا ہیں…۔“ ببلونے متاثر ہوتے ہوئے کہا۔
” لیکن ہمیں تو مکشپوری جانا ہے ناں؟“ شازیہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔
”جی ہاں!“ میاں بولے:” مکشپوری نتھیاگلی سے صرف چار کلو میٹر دور ہے۔“
”ابو! ہمیں اس کے بارے میں بھی کچھ بتائیں۔“ اختر نے کہا۔
”اس کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے ۔“ ابو نے کہنا شروع کیا:
”مکشپوری سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔’ مکش‘ کا مطلب امن یانجات جبکہ ’پوری‘ سے مراد جگہ ہے۔یوں اس کامطلب ’امن کی جگہ ‘ ہے ۔ یہ پہاڑی ہندوﺅں کے نزدیک مقدس مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔“
”دادا ابو، وہ کیسے؟“ ببلو نے پوچھا۔

”ہندو روایات کے مطابق لنکا کے راجہ راون کے ساتھ رام کی جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں رام کا بھائی لکشمن زخمی ہو گیا ۔ اس کا علاج ایسی جڑی بوٹی سے ممکن تھا جو صرف مکشپوری پہاڑی پر پائی جاتی تھی۔ چنانچہ ہنومان یعنی بندر دیوتا پورے مکشپوری پہاڑ کو اٹھا کر وہاں لے گیا جہاں شاہی حکیم نے اس پہاڑی پر سے مطلوبہ بوٹی کو ڈھونڈ کر لکشمن کا علاج کیا۔ اس کے بعد ہنومان اس پہاڑ کو واپس اپنی جگہ لے آیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پہاڑ ہندوو¿ں کے نزدیک مقدس ہے۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو جب پاکستان آئے تو اس پہاڑ کی خاطرخاص طور پر نتھیاگلی گئے تھے۔ مختلف بھارتی وفود بھی اس کی زیارت کے لئے یہاں آتے اورنتھیاگلی میںٹھہرتے ہیں۔ ہنومان کی یادگار کے طور پر انہوں نے بندر تحفتاًدئیے ہیں ۔“ دادا جی نے ایک دلچسپ کہانی سنائی۔
”دادا! کیا سچ میں ایسا ہوا تھا؟“ مشعل نے حیرت سے آنکھیں پھیلائیں۔

”بیٹا! ہندو ایسا مانتے ہیں‘ اس لئے کہ ان کی مقدس کتب میں اس کا ذکر ہے۔ ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں۔“ دادا ابو نے ڈپلومیٹک سا جواب دیا۔
تھوڑی دیر کے بعد وہ مکشپوری کے خوبصورت اور سرسبز پہاڑ پر کھڑے تھے۔ انہوں نے وہاں اپنا سامان رکھا‘ بار بی کیو کیا‘ گھومے پھر ے اور پھرسستانے بیٹھ گئے۔
”فطرت کے قریب زندگی میں سکون اور صحت ہے۔ انسان شہروں میں بہت سی سہولیات سے فائدہ اٹھاتا ہے لیکن سکون کی خاطر ایسے قدرتی مناظر کی طرف لوٹتا ہے جن میں انسانی ہاتھوں کا عمل دخل کم سے کم ہو۔ انسان یہاں پہنچ کرعجیب سا سکون اور راحت محسوس کرتا ہے۔“ دادا جی نے اس کے ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلائی۔
”یورپی یونین نے اس پہاڑ پر جنگلی پرندوں کے تحفظ اور افزائش نسل کے لئے مخصوص جگہ پر باڑ اور اس کے اندر پرندوں کے گھر بنائے ہیں۔ نتھیاگلی سے مکشپوری چوٹی تک پیدل تقریبا دو گھنٹے لگتے ہیں۔ چوٹی کی طرف سے ڈونگا گلی کی طرف محض آدھے گھنٹے میں اترا جا سکتا ہے لیکن ادھر سے اترائی اور چڑھائی دونوں مشکل ہیں۔“ وہاں موجود ایک گارڈ نے ان کی معلومات میں اضافہ کیا۔ ذرا وقفے کے بعد پھر بولا:
”اگر سیاح کے پاس خیمہ ہو تو مکشپوری کے اوپر ایک خوبصورت رات گزاری جا سکتی ہے۔ آلودگی سے پاک ہونے کی وجہ سے یہاں آسمان انتہائی صاف ہوتا ہے اور ستارے بالکل قریب دکھائی دیتے ہیں۔ مری بہت نیچے محسوس ہوتی ہے اور دور اسلام آباد اپنی لکیر دار پیلی روشنیوں میں کھویا نظر آتا ہے۔ مکشپوری پر صبح زندگی کا بہت ہی خوشگوارتجربہ ہوتاہے۔“

”اگلی دفعہ ہم ایسا انتظام کریں گے کہ رات یہاں گزار سکیں۔“
ببلو کے ابو نے بے ساختہ کہا جس پر سب میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ نتھیا گلی اور مکشپوری کی یادیں دل میں بسائے واپس آ گئے۔

Vinkmag ad

Read Previous

آپ کے صفحات

Read Next

گردن کا درد Neck Pain

Most Popular